ایوارڈ کہانی ون ©ٹوتھری کی شاندار کامیابی اور پذیرائی اللہ تعالیٰ کابندہ ناچیزپر ایک خاص فضل وکرم اور نوازش ہے جس پر جتنابھی اس کا شکر اداکیاجائے کم ہے۔یقینا ایک بہت بڑی سعادت ،قلمی جہاد ،ناانصافی ، اقرباپروری ،جی حضوری کے دور میں صحیح حق داروں کو ان کا حق دو تحریک کا حصہ بھی،اورسب سے بڑھ کر ایوارڈ ،گولڈ میڈل ، شیلڈ ،تعریفی اسناد کے نام پر خودساختہ ،نام نہاد بے مغز ادیبوں،آوارہ مزاج شاعروں ،نفع بخش ناشروں کی طرف سے لگائی گئی ایک سراب ایوارڈمنڈی کی کارگزاری داستان بھی ،جو خودساختہ ایوارڈ کہانی ،نام نہاد صحافتی تنظیموں اور ان کے کسی کام کے نہ کرتا دھرتاﺅں کی تمام لالچ و حرصانہ معاملات کی ساری قلعی کھولتی ہے اور بتاتی ہے کہ ادبی ایوارڈ کے نام پریہ بے نام لوگ اور خودساختہ صحافتی افراد کیاکیا گل کھلارہے اورکیسے اور کس طرح افراد کو ایوارڈ سے نواز رہے اور نوازرہے تو کیسے لوگوں کواور خودساختہ ایوارڈ شو ڈرامے لگانے کے پیچھے اصل مقاصد کیا؟ یقینا قارئین کوایوارڈ کہانی ون ٹو تھری پڑھنے کے بعد اندازا ہوہی گیاہوگاکہ میں کیاکہہ رہا،کیاکہنا چاہتااور پاکستان بھرکے تمام حقیقی قلمکاروں ، مصنفوں ، رائٹروں ، سیرت نگاروں باالخصوص اخبارات کے ایڈیٹرز کے نام اصل میسج کیا ؟ راقم الحروف کا ”داستان ایوارڈ “لکھنے کا مقصد اور کچھ بھی نہیں ہے کہ جھوٹ ،مکاری ،دھوکا دہی جیسے خوش فہمی ایوارڈ سجائے ،بے نام غیرحقیقی افراد نوازے، غیر منصفانہ ماحول میں حقیقی کارکردگی ،معیار اور میرٹ پر ایوارڈ تقریبات سجاکر، کی ترغیب دیتے نامور حقیقی قلمکاروں،لکھاریوں کی حوصلہ افزائی کرناہے جو کہ کچھ سراب ایوارڈ تقریب سجائے ،چند خودساختہ صحافتی تنظیمیں بنائے افراد اصلی علم ودانش افراد سے چھیننے کی کوشش ناکام میں ہیںجبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان افراد اور تنظیمات کے دئیے گئے ایوارڈ زکی ذراسابھی کوئی وقعت نہ ہے اور نہ ہی ان ایوارڈ دینے والے افراد کی معاشرے میں کوئی خاص بات ۔ خود سے خود تک،میں اور تو،اندھا بانٹے ریوڑیاں ، مڑمڑ اپنیاں نو،والا معاملہ ہے۔علم وادب کی دنیا میں آنکھیں رکھتے لوگوں کے سامنے مخصوص افراد کا ایک سراب ایوارڈپتلی تماشا ہے جس میں سارے ”مہان فنکار “ چاپلوس ، ڈرامے باز،جی حضوری کے دلدادہ ،گھس بیٹھیے ، بہروپیئے ، حادثاتی صحافی ، ایک ساتھ محض صرف ایک ڈرامہ اور فریب ایوارڈ کےلئے اکٹھے ہلکان وپریشان نظر آتے ہیں ۔ حیرت میں مزید اضافہ تب ہوتاہے کہ جب ان بہروپیوں ،فراڈئیوں ،مکاروں کے سا تھ کوئی نہ کوئی نامور صحافی ،کالم نگار ،سٹوری رائٹر ،مصنف بھی نظر آتاہے تو سوال اٹھتاہے کہ یہ کیا ہے ؟ منافقت،جی حضوری یاکچھ اور میرا پنا خیال ہے کہ وہ بھی ان کے درمیان اپنی اس موجودگی پر اندر ہی اندر شرمندہ و شرمسار ضرور ہوں گے اس لیے کہ میں سمجھتا ہوں کہ کچھ فریبی ،مکار افراد سے ملنا بھی کیسا؟کیا علم وادب کا اتناکال پڑگیاہے کہ صحافتی دنیا میں ملنے یا ایوارڈ سجائے تقریب کےلئے یہی افراد رہ گئے ہیں۔صحافت میں اس سے بڑا مذاق اور کیاہوگا کہ چند بے عقل و بے شعور افراد جن کو نہ بولنے کا ڈھنگ ،نہ بات کرنے کا کوئی سلیقہ و طریقہ ،بات کچھ ہوتی ہے اور جواب کچھ دیتے ، تعلیم بھی برائے نام اورڈاکٹر اور پی ایچ ڈی ڈگری حامل شخصیات کو ایوارڈ سے نواز رہے ہیں۔افسوس تو اس بات پر ہوتاہے کہ دینے والے تو اس پرذراسابھی شرمسارنہیں ہوتے ،لینے والے قابل حضرات ہی اس کا کچھ احساس کرلیںکہ یہ کیا کررہے ہیں؟کیوں کررہے ہیں؟کس لیے کر رہے ہیں؟آخر اپنا بنابنایا نام و مقام ایسے ڈبونا مگر کس بات پر؟ٍمیں نے اکثر نامور کالم نگاروں ،مصنفوں ،سٹوری رائٹروںکوکچھ ایسے گھس بیٹھیے ،بہروپیئے،حادثاتی صحافت کے پیداوار بے کارافرادسے ایوارڈ لیتے دیکھا ہے ۔حقیقی قلمکاروں ،ادیبوں ،علم وادب کے میدانوں میں چمکتے ستاروں سے میرا صرف ایک ہی سوال ہے کہ کیا آپ اپنی تحریوں ، کہانیوں ، تخلیقات سے اتنا ہی شاکی ہیں کہ اپنی اصلی صحافتی خدمات ہی آپ کا اصل ایوارڈ بھولے ، نقلی جعلی خودساختہ ایوارڈوں کے پیچھے بھاگے ،نام نہاد تنظیموں اور حادثاتی صحافتی پیداوار افراد کو خوامخواہ کا بڑھاوا دئیے ہوئے ہیںاور پھریہ ایسے لوگ ہیں کہ جن کا معاشرہ میں کوئی مثبت رول بھی نہ ہونے کے برابر،کسی کام کا نہ،محض صرف دفتروں ،ڈیروں میں اپنی جھوٹی شان وشوکت دکھانے اور ہوس زر کے لیے ،ساراوقت احمقوں کی طرح کبھی اِدھر کبھی اُدھرمحض صاحب یا صاحب حیثیت شخصیت کی ایک تھپکی اور کمر تھپتھپاﺅکےلئے بھاگتے ،ڈوڑتے ساتھ ساتھ وڈے نکے تھانیدار کی جی حضوری ، آشیر باد پانے کےلئے دن رات ایک کیے نظر آتے ہیں۔ کبھی کسی در تو کبھی کسی در جانے اور پڑے رہنے کو اپنے لیے اعزازو فخر جانتے ہیں ۔ صحافت کے مفہوم اور پیشہ پیغمبری اعتبار سے کسی طور فٹ نہیں ہیں ۔ صحافت کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے والی بات ہے۔اہل علم ودانش افراد کےلئے سوچنے کا مقام ہے ۔کیابات ہے کہ ہم محض گئے گزرے ایوارڈوں کی ڈور میںخودساختہ یوارڈ منڈی بازار میںعقل و فہم سے یکسر بیگانہ ہوئے پھرتے ہیں اور پھرتے اور ملتے بھی ہیں تو علم وادب کے اصل دشمنوں کے ساتھ ،خیر خواہوں کے ساتھ بالکل نہیں ۔ ہمارے اصلی اور حقیقی محسن اور خیر خواہ علم ودانش افراد باالخصوص اخبارات ،میگزین ،رسائل کے ایڈیٹرزو مدیران ہیںجن کے طفیل آج ہمارا نام اور ہماری پہچان ہے۔صحافت کا اصل اور حقیقی پلیٹ فارم یہ اخبار ہیں دوسرااور کوئی نہیں،اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔سوچیئے گا ضرور چاہے ایک لمحہ کےلئے ہی سہی ،کیونکہ کبھی کبھی ایک لمحہ ہزار لمحوں پر بھاری ہوتاہے۔
کالم
علم وادب کے اصل دشمن
- by Daily Pakistan
- مارچ 16, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 623 Views
- 2 سال ago