کالم

عوام کو کیا حقوق ملے؟

سرمایہ داری نظام نے انسانی معاشروں پر اپنے اختیار اور کنٹرول کا یہ جو تجربہ کیا ہے اس میں لفظآزادی کا آزادانہ استعمال ہوتاہے اور ذرائع ابلاغ کے عالمی اداروں کا مکمل کنٹرول بھی عالمی سامراج کے پاس ہے۔ خاص کرسوشل میڈیا نے تو آزادی کے حدود کو کراس کر لیا ہے، سنسنی خیزی، جھوٹ، نفرت، فرقہ واریت، مذہب مخالف تبصرے، الحاد و دہریت، فحاشی، مسلکی سیاسی اور گروہی تعصبات سوشل میڈیا کا طرہ امتیاز ہے۔ چونکہ میڈیا پر کنٹرول سامراج کا ہے اس لئے آج کل لفظ آزادی کا بڑا چرچا ہے اور اس لفظ کا استعمال بہت زیادہ کیا جاتا ہے ہر طرف آزادی کی باتیں ہیں اور بانت بانت کی بولیاں بولی جارہی ہیں ، اظہار رائے کی آزادی ، جمہوریت کی آزادی، نسواں کی آزادی، لامحدود ملکیت کی آزادی، سرمایہ داری کی آزادی اور سرمایہ کاری کی آزادی وغیرہ ۔جس کا جی چاہتا ہے بولتا جاتا ہے جس کے نتائج بسا اوقات بہت خطرناک نکلتے ہیں۔ ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
امیر شہر غریب کو لوٹ لیتا ہے
کبھی بنام مذہب کبھی بنام بہ حیلہ وطن
آزادی شطر بے مہار کی طرح نہیں ہے کہ جس کا جی چاہے وہ کرے بلکہ آزادی حدود وقیود اور دائرے کے اندر آزادی آزادی ہوتی ہے ۔ایسی آزادی جو اپنے دائرے کو چھوڑ کر دوسرے کے دائرے میں ہوجائے تو یہ آذادی نہیں بلکہ ظلم ہوجاتا ہے ۔ آج اہل مغرب نے آزادی کے نام پر لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ملٹی نیشنل کمپنیوں کو کھلی آزادی ہے کہ اپنی مصنوعات منہ مانگے داموں فروخت کر کے اربوں روپے منافع حاصل کریں اور مذدور کو صرف اتنا دیں کہ جسم اور جان کا رشتہ مشکل قائم رکھ سکے۔جاگیرداروں کو کھلی آزادی ہے کہ وہ زمین کا مالک ہونے کے نام پر کاشتکاروں کی محنت کو ہڑپ کریں اور انہیں قبر کی جگہ بھی نہ دیں آزادی نسواں کے نام پر عورتوں کو کھلی چھٹی ہے کہ جس طرح چاہیں جسمانی نمائش کریں ۔اظہار رائے پر دوسرے مذاہب کی مقدس شخصیات کی توہین کریں ۔ جمہوریت کے نا م پر سرمایہ کاری کریں اور پھر اقتدار میں جاکر جمور کے خون چوسنے کی کھلی آزادی۔اور اسی طرح سرمایہ کاری کی آزادی کے نام پر دوسرے ممالک کو لوٹنے کی کھلی آزادی۔لیکن نام کے رٹے کے بجائے معنویت کو مدنظر رکھا جانا چائیے۔ حقیقی آزادی معنوی ہے ۔ اسلام نے غلامی کے نام کو تو برقرار رکھا لیکن ان کو معنوی آزادی جس کی وجہ سے غلام حقوق میں آقا کے برابر ہوگیا اور آقا وغلام باری باری اونٹ پر سفر کرتے ۔ میرے خیال میں یہ مثال دنیا کا کوئی دوسرا نظام دینے سے قاصر ہے کہ غلام تخت شاہی پر متمکن ہوئے ہو ہندوستان جب اسلامی نظام تھا تو اس دور میں غلاموں نے کئی عشروں تک حکومت کی ۔اسلام نے لامحدود ملکیت کو معنوی طور پر ختم کیا اور فرمایا لوگ جو سونا اور چاندی اکھٹی کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ (عوام)پر خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سناﺅ۔ جس دن اس سونے اور چاندی کو گرم کرکے ان کی پیٹھوں ، چہروں اور پہلوﺅں کو داغا جائے گا ۔جاگیرداری کو معنوی طور پر ختم کیا اور اور قرآن سورة بقرہ میں فرمایا جو زمین میں ہے وہ تم سب انسانوں کےلئے پیدا کیا گیا ہے ۔ حدیث میں فرمایا کہ جو مردہ زمین کو زندہ کرے وہ اسی کی ہے ، یعنی جو کاشتکاری کرتا ہے وہ اسی کی ہوتی ہے ۔ عورتوں کو بازار حسن اور اشتہار بننے کی آزادی کے بجائے حقیقی آزادی حقوق کی آزادی دی ۔ اور حقوق میں مردوں کے برابر کردیا اظہار رائے کی کے نام پر دوسروں کے باطل معبودوں کو برا بھلا کہنے سے منع فرمایا اور فرمایا جو لوگ اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو پکارتے ہیں انہیں برا بھلا نہ کہو اس کے نتیجے میں وہ بھی اللہ کو دشمنی ، جہالت اور ظلم کی وجہ سے برا بھلا کہیں گے ۔ مجھے جس طرح اہل مغرب کے تھینک ٹینک سے نفرت ہے کہ وہ اچھے ناموں کو اپنے مذموم عزائم کے حصول کےلئے استعمال کرتے ہیں اسی طرح مجھے پاکستان کے ان انتہا پسندوں ،روشن خیالوں اور، رجعت پسندوں اور قدامت پرستوںسے بھی شکوہ ہے کہ وہ بھی اسلام کی مقدس اصطلاحوں کو تو استعمال کرتے ہیں لیکن ان اصطلاحوں کی روح اور معنویت مد نظر نہیں رکھتے اور ان کے اس عمل کا نتیجہ بھی مغرب کے مذموم مقاصد کو پورا کرنے کے حق میں نکلتا ہے ۔ مثلاًاسی کی دہائی میں افغانستان میں مقدس عنوان کے نام پر جو کھیل کھیلا گیا اس کا سب سے ذیادہ نقصان انہی کو ہوا اور فائدہ امریکہ کو۔آزادی انسان کا حق ہے مگر حد سے تجاوز پھر زیادتی ہے ہر صورت میں اسلام اور شریعت کی تعلیمات اور روح کو مدنظر رکھنا چایئے ۔ حضرت عمرؓ نے جب قحط کے دور میں اب حدود نافذ کرنے سے شریعت کے مقاصد حاصل نہیں ہوتے تو قاضیوں کو احتیاط برتنے کی ہدایت کی کہ ہوسکتا ہے کہ کوئی اپنی زندگی بچانے کی خاطر چوری کریں ۔ آپ ؓ کے سامنے شریعت کی روح تھی ڈھانچہ نہیں تھا ۔ لہٰذا میری تمام باشعور افراد سے گزارش ہے کہ وہ کسی نام سے خواہ ان کے ساتھ کتنے ہی اسلام کے لاحقے لگے ہو ان سے متاثر نہ ہو ۔ بلکہ ان سے حاصل ہونے والے نتائج کو مدنظر رکھیں ۔ مثلاً اسلامی بینکاری، اسلامی ممالک کی تنظیم، آزاد ملک، آزادی اظہار، جمہوریت، شریعت بل وغیرہ کہ ان مقدس اصطلاحوں کو استعمال کر کے ہم نے ان کی آڑ میں اپنے مقاصد تو حاصل کئے آج تک کیا نتیجہ نکلا مذہب کو کتنا فائدہ ہوا اور عوام کو کیا حقوق ملے؟۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri