Site icon Daily Pakistan

عوام کے جان و مال کا تحفظ مقدم ہونا چاہیے

riaz chu

چیئرمین پاکستان تحریک انصاف اورسابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری کیخلاف پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں نے ملک گیر احتجاج کیا۔جلاو¿ گھیراو¿اورپولیس کیساتھ جھڑپوں میں کوئٹہ اور لوئر دیر میں دو افراد جاں بحق جبکہ پولیس افسران اور اہلکاروں سمیت کئی مظاہرین زخمی ہو گئے ۔ درجنوں مشتعل کارکنوں کو حراست میں لینے سمیت ان کیخلاف مقدمات بھی درج کر لئے گئے ہیں ۔ احتجاج سے سڑکوں کی بندش سے عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ شہر وں کی بڑی شاہراہوں پر دھرنے کے باعث اطراف کی سڑکوں پر گاڑیوں کی طویل قطاریں لگ گئی ہیں ۔ لاہور میں کارکنوں نے جیل روڈ بند کردیا اور دھرم پورہ میں بھی احتجاج کیا۔ کینال روڈ پر بھی ٹائر جلاکر راستے بند کردیے گئے۔ راولپنڈی میں مری روڈ پر کارکنوں نے احتجاج کیا جبکہ فیض آباد کے مقام پر راستے بند کردیے۔ کراچی میں بھی تحریک انصاف کے کارکنوں نے انصاف ہاو¿س پر احتجاج کیا اور شارع فیصل کو ٹریفک کیلئے بند کردیا۔مشتعل مظاہرین نے پولیس پر پتھراو¿ کیا۔ خیبر پختونخوا بھر میں شاہرائیں بند کرنے کا اعلا ن کیا گیا جبکہ پی ٹی آئی کارکنان ہشنگری جی ٹی روڈ پہنچ گئے اور جی ٹی روڈ کو ٹریفک کیلئے بند کردیا جس کے باعث بی آر ٹی کی سروس جزوی طور پر معطل ہو گئی جبکہ جی ٹی رود بلاک ہونے کے باعث لوگوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ نگران وزیراعلیٰ پنجاب جناب محسن نقوی نے کابینہ سٹینڈنگ کمیٹی برائے امن و امان کو ہدایات دیتے ہوئے کہا ہے کہ کمیٹی اور انسپکٹر جنرل پولیس لا اینڈ آرڈر کی صورتحال کو ہمہ وقت مانیٹر کریں اور حالات کے مطابق اقدامات اٹھائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ دہشت گردی ہے، سیاست نہیں۔ میرا قوم سے وعدہ ہے کہ ہم ریاست پاکستان پر اس حملے میں ملوث کسی ایک کو بھی نہیں چھوڑیں گے۔نگران وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ قومی سلامتی کے ذمے دار اداروں پر حملے ملک دشمنی اور فاشزم ہے۔ شرپسند عناصر کی جانب سے ریڈ لائن کراس کی گئی ہے ۔ لاہور اور راولپنڈی کے افسوسناک واقعات ریاست دشمنی کے مترادف ہیں۔یہ سیاست نہیں بلکہ کھلی دہشت گردی ہے لہٰذا سخت ترین احتساب ہو گا۔صوبہ بھر میں امن عامہ کی فضا قائم رکھنے کےلئے موثر اقدامات کئے جائیں اورعوام کے جان ومال کا تحفظ یقینی بنایا جائے ۔ قانون ہاتھ میں لینے والے عناصر سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ احتجاج کی آڑ میں عوام کے روزمرہ معمولات زندگی میں کسی کو بھی خلل ڈالنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ پر امن احتجاج ہر کسی کا حق ہے لیکن سٹرکوں کو بند کرنا اور املاک پر حملے کسی بھی صورت برداشت نہیں۔ امن عامہ کی فضا برقرار رکھنا ریاست کی ذمہ داری ہے جسے احسن انداز سے نبھایا جائے۔کیونکہ عوام کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کےلئے ایسے عناصر کی آہنی ہاتھوں سے سرکوبی ضروری ہے۔ پولیس کو عوام کے جان ومال کے تحفظ کے حوالے سے اپنی کارکردگی کو مزید بہتر بنانا ہو گا ۔املاک کو نقصان پہنچانا اور توڑ پھوڑکرنا کسی بھی صورت جائز نہیں،یہ فساد فی الارض ہے ۔ ایسے لوگوں کیخلاف قانو ن کو حرکت میں آنا چاہئے ۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ فساد پھیلانے والوں سے سختی سے نمٹے اور جن لوگوں کی املاک کا نقصان ہوا ہے انہیں پورا کرے ۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی رعایا کی حفاظت کرے۔ان کی جان ومال عزت وآبرو کی ذمہ دار حکومت وقت ہے اس کے ساتھ ساتھ احتجاج اور مظاہروں کی آڑ میں اگر عوام کی املاک یا جان کا نقصان ہوتا ہے تو ریاست یا تو وہ نقصان خود پورا کرے یا پھر ان لوگوں سے پورا کروائے جنہوںنے املاک کو نشانہ بنایا ۔ اصل میں اسلام میں ہر چیز کا اصول بتادیاگیا ہے۔قانون کے دائرے میں ہی سب حقوق حاصل کئے جاسکتے ہیں۔اسلام امن کا داعی ہے ۔یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جس دین میں جنگ کے بھی آداب سکھائے گئے ہوں ،اس میں اپنی بات کہنے کا طریقہ نہ بتایا گیا ہو۔ہمارے ہاں احتجاج کی آڑ میں غریبوں کا نقصان کیاجاتا ہے جو شرعی اور قانونی ہر لحاظ سے ناجائز ہے ۔ سیاسی رہنماو¿ں کو احتجاج اوراپنے مطالبات منوانے کے حوالے سے لوگوںکی تربیت کرنی چاہئے۔ املاک کا نقصان قطعی جائز نہیں ہوسکتا۔کوئی سی بھی دلیل لے آئیں۔یہ تشدد ہے اورجو چند لوگ ایسا کرتے ہیں وہ در حقیقت جنونیت اور دہشت ہے۔ احتجاج سب کا حق ہے مگر مدلل اور غیرمتشدد طریقے سے۔تشددکی صورت میں وہ احتجاج نہیں رہتا بلکہ جرم بن جاتا ہے جو کسی شہری کو زیب نہیں دیتا۔ اس سے نہ تومسئلے کا حل نکلتا ہے اورنہ ہی صلح ہوسکتی ہے۔مسائل کے حل یا اختلاف رائے کو ظاہر کرنے کیلئے تشدد ایک منفی رویہ ہے۔اگر بات صحیح ہے تو اسے صحیح انداز اور حکمت کیساتھ بیان کیا جاسکتا ہے جس میں ایک طریقہ پلے کارڈز کے ساتھ پرامن مظاہرہ ہوتا ہے۔دوسرا طریقہ بااثر افراد کی رائے کا پرچار کرنا اور متعلقہ افراد کے ساتھ لابنگ کرنا اور ایجوکیٹ کرنا ہوتا ہے۔یہ طریقہ ترقی یافتہ معاشرے کی عکاسی کرتا ہے ۔ ہمارے جیسے ترقی پذیر معاشرے میںکم خواندگی کی وجہ سے سادہ لوگوں کو اکساکر غیرمہذب حرکتیں کرائی جاتی ہیں جن کا مقصد مطالبے سے کہیں زیادہ اپنی طاقت کا اظہار ہوتا ہے اورپاکستان میں یہ طریقہ خوب اچھی طرح سے اختیار کیاجاتا ہے چونکہ یہاں پر ایسے تمام عوامل موجود ہیںاس کی وجہ سے ایسے تمام طاقت کے مظاہرے آسان طریقے سے کئے جاتے ہیں۔

Exit mobile version