عید الفطر کا دن اللہ کی طرف سے انعام کا دن ہے اور عام معافی کا دن ہے ،مسلمانوں کیلئے آج کا دن خوشی کا تہوار ہے اور اللہ کریم اپنے بندوں پر راضی ہو جا تا ہے یومِ عید،ماہِ صیام کی تکمیل پر اللہ تعالیٰ سے انعامات پانے کا دن ہے، تو اس سے زیادہ خوشی و مسرّت کا موقع کیا ہوسکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ اُمّتِ مسلمہ میں اِس دن کو ایک خاص مقام اور اہمیت حاصل ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدین کے موقع پر شرعی حدود میں رہتے ہوئے خوشیاں منانے کی اجازت دینے کے ساتھ، دوسروں کو بھی ان خوشیوں میں شامل کرنے کی ترغیب دی۔ نیز، ان مواقع پر عبادات کی بھی تاکید فرمائی کہ بندہ مومن کسی بھی حال میں اپنے ربّ کو نہیں بھولتا۔بلاشبہ وہ لوگ نہایت خوش قسمت ہیں کہ جنھوں نے ماہِ صیام پایا اور اپنے اوقات کو عبادات سے منور رکھا۔پورا رمضان اللہ کی بارگاہ میں مغفرت کے لیے دامن پھیلائے رکھا۔یہ عید ایسے ہی خوش بخت افراد کے لیے ہے اور اب اُنھیں مزدوری ملنے کا وقت ہے۔تاہم، صحابہ کرامؓ اور بزرگانِ دین اپنی عبادات پر اِترانے کی بجائے اللہ تعالیٰ سے قبولیت کی دُعائیں کیا کرتے تھے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عید کی مبارک باد دینے کے لیے آنے والوں سے فرمایا””عید تو اُن کی ہے، جو عذابِ آخرت اور مرنے کے بعد کی سزا سے نجات پاچکے ہیں۔ عید کے اس پرمسرت موقع پر ہمارا ایک کام یہ بھی ہونا چاہیے کہ آس پڑوس اور رشتے داروں پر نظر دوڑائیں کہ کہیں اُن میں سے کوئی ایسا تو نہیں، جو اپنی غربت اور تنگ دستی کے سبب عید کی خوشیوں میں شامل ہونے سے محروم ہے۔ اگر ایسا ہے، تو یقین جانئے، ہم خواہ کتنے ہی اچھے کپڑے پہن لیں، طویل دسترخوان سجا لیں، عیدیاں بانٹتے پِھریں، ہماری عید پھر بھی پھیکی ہی رہے گی، بلکہ ایسی عید، عید کہلانے کے قابل ہی نہیں، جس میں دیگر افراد شامل نہ ہوں ۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو زمانہ خلافت میں لوگ عید کی مبارک باد دینے گئے، تو دیکھا کہ امیر المومنین خشک روٹی کے ٹکڑے تناول فرمارہے ہیں۔ کسی نے کہا”آج تو عید کا دن ہے؟“ یہ سن کر آپؓ نے ایک سرد آہ بھری اور فرمایا”جب دنیا میں ایسے بہت سے لوگ موجود ہوں، جنھیں یہ ٹکڑے بھی میّسر نہیں، تو ہمیں عید منانے کا حق کیوں کر حاصل ہے؟“ روایت ہے کہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ عید سے فارغ ہوکر واپس تشریف لے جارہے تھے کہ راستے میں آپ کی نظرایک بچّے پر پڑی، جو میدان کے ایک کونے میں بیٹھا رو رہا تھا۔ نبی کریم اُس کے پاس تشریف لے گئے اور پیار سے اُس کے سَر پر دستِ شفقت رکھا، پھر پوچھا”کیوں رو رہے ہو؟“بچّے نے کہا”میرا باپ مرچُکا ہے، ماں نے دوسری شادی کرلی ہے، سوتیلے باپ نے مجھے گھر سے نکال دیا ہے، میرے پاس کھانے کو کوئی چیز ہے، نہ پہننے کو کپڑا۔“یتیموں کے ملجا صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں میں آنسو آگئے،فرمایا کہ”اگر میں تمہارا باپ، عائشہؓ تمہاری ماں اور فاطمہؓ تمہاری بہن ہو، تو خوش ہو جاﺅ گے؟“ کہنے لگا”یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اس پر میں کیسے راضی نہیں ہو سکتا۔“حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بچّے کو گھر لے گئے۔صدقہ فطر ہر صاحبِ استطاعت مسلمان پر واجب ہے۔ بنیادی طور پر صدقہ فطر کا فلسفہ یہی ہے کہ عید الفطر کی خوشیوں میں غریب مسلمان بھی بھرپور طریقے سے شریک ہو سکیں۔اسی طرح ایک اور حدیث شریف ہے کہ”عید الفطر کے دن محتاجوں کو خوش حال بنا دو۔“گو کہ صدقہ فطر کبھی بھی دیا جا سکتا ہے، تاہم عام طور پر ماہِ رمضان کے آخری دنوں میں ادا کیا جاتا ہے، جبکہ بہت سے لوگ نمازِ عید کے لیے جاتے ہوئے راہ میں بیٹھے بھکاریوں کو فطرانہ دیتے جاتے ہیں، جو کہ مناسب طریقہ نہیں۔ بہتر یہی ہے کہ عید سے قبل ہی فطرانہ ادا کردیا جائے تاکہ ضرورت مند افراد بھی عید کی تیاری کرسکیں۔ اس ضمن میں ایک اہم بات یہ بھی ذہن نشین رہے دعا ہے کہ اللہ کریم ہم سب کو عید الفطر کی خوشیاں نصیب فرمائے اور اس موقع پر غریب ناداروں کو بھی یاد کھنے کی توفیق بخشے،اللہ کریم ہمارے پیارے ملک عزیز پاکستان کو تمام خطرات سے محفوظ رکھے اور صبح قیامت تک قائم و دائم رکھے۔بلاشبہ عید کا دن خوشی ومسرت کا دن بھی ہے اور اللہ سے انعامات پانے کا دن بھی ہے ،محبتیں اور خوشیاں بانٹنے کا دن ہے،گلے شکوے دور کرنے اور روٹھے احباب کو منانے کا دن ہے،اور بالخصوص یہ”یومِ تشکر“بھی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ماہِ رمضان المبارک میں روزے رکھنے،نماز ِ پنجگانہ کی ادائیگی،نمازِ تراویح کا اہتمام کرنے،قرآن پاک کی تلاوت کرنے،راتوں کو اُٹھ کر نوافل ادا کرنے کی توفیق بخشی اور حق بھی یہی ہے کہ عید کا روزِ مقدس پروردگارِ عالم کا ذکر کرتے ہوئے ، حضور سرورِ کائناتﷺکی مداح سرائی کرتے ہوئے،غریبوں مسکینوںاور یتیم بچوں کے سر پر دستِ شفقت رکھتے ہوئے یومِ عید”یومِ تشکر“کے طور پر منایا جائے۔
مہنگائی نے عید کی خوشیاں چھین لیں
آج عید کا دن ہے ،جسے خوشی کے دن کے طورپر منایا جا تا ہے،لیکن دوسری طرف حکومت نے ملکی معیشت کا جو حال کر ڈالا ہے اس کا اثر ایک عام آدمی پر تباہ کن پڑرہا ہے ۔ ہوشربا مہنگائی،معاشی،سیاسی بحران،بازار ویران ،دکاندار پریشان،عید کی خوشیاں ماند پڑی ہوئی ہیں، اس بار بازاروں میں رونق ہی نہیں ۔ بہت سے دکانداروں کو یہ خدشہ ہے کہ وہ اپنی دکانوں کا ماہانہ کرایہ تک ادا نہیں کر پائیں گے۔ ملک میں مہنگائی کئی دہائیوں کی اپنی بلند ترین سطح کو چھو رہی ہے اور سیاسی انتشار نے ملک کو غیر یقینی کی کیفیت میں ڈال رکھا ہے۔ گزشتہ بارہ مہینوں میں کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں 47 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا جبکہ ٹرانسپورٹ کے اخراجات میں 55 فیصد اضافہ نوٹ کیا گیا۔ پاکستان بال بال قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے اور اسے ڈیفالٹ سے بچنے کےلئے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے 6.5 بلین ڈالر کے بیل آوٹ پیکیج کی اگلی قسط کی ضرورت ہے جبکہ اس عالمی ادارے نے سخت اصلاحات متعارف کروانے کا مطالبہ کر رکھا ہے۔ دوسری جانب برسوں کی مالی بدانتظامی اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ملکی معیشت تباہ ہو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سنگین معاشی مشکلات نے ملک کے بازاروں اور منڈیوں میں مایوسی پھیلا رکھی ہے۔ ملک بھر میں عید سے پہلے خریداری میں اضافہ دیکھا جاتا ہے اور بازار خریداروں سے بھر جاتے ہیں۔ شہری علاقوں میں تو مارکیٹیں اور بازار آدھی رات کے بعد بھی کھلے رہتے ہیںلیکن اب سب کچھ برعکس ہے ۔ رواں سال ہر طرف سے خرید و فروخت میں نمایاں کمی کی خبریں ہی موصول ہو رہی ہیں۔
سوڈان حالت جنگ میں
معاشی طور پر انتہائی کمزو ر شمالی افریقی ملک سوڈان اس وقت دو حریف جرنیلوں کےلئے میدانِ جنگ بنا ہوا ہے۔ سیکورٹی فورسز کی باہم جھڑپوں سے تین سے زائد ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔حالات کی کشیدگی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسکے دارالحکومت خرطوم کے انتہائی حساس علاقے بھی اسکی زد میں ہیں، حتی ٰ کہ گزشتہ روز پاکستانی سفارت خانہ سوڈانی مسلح افواج اور ریپڈ سپورٹ فورسز کے درمیان جھڑپوں کے دوران گولیوں کی زد میں آگیا۔سفارتخانے کے آفیشل ٹوئٹر اکاو¿نٹ سے کی گئی ٹوئٹ کے مطابق عمارت کو تین گولیاں لگیں۔ یہ ویانا کنونشن کی صریح خلاف ورزی ہے کیونکہ میزبان حکومت سفارتی مشنوں کو تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے۔ ٹوئٹ میں کہا گیا کہ ہم دونوں فریقوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور سوڈان کی حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کے سفارت خانے کی سلامتی اور حفاظت کے لیے فوری طور پر سیکیورٹی اہلکار تعینات کریں۔ سفارت خانے نے تمام پاکستانیوں کو گھر پر رہنے اور بگڑتی ہوئی سیکیورٹی صورتحال کی وجہ سے غیر ضروری طور پر باہر جانے سے گریز کرنے کا مشورہ دیا ہے۔15 اپریل سے خرطوم میں میزائل، فضائی حملے اور گولیاں چل رہی ہیں کیونکہ آرمی چیف عبدالفتاح البرہان اپنے سابق نائب محمد حمدان ڈگلو کے ساتھ جنگ لڑ رہے ہیں، جو طاقتور ریپڈ سپورٹ فورسز نیم فوجی گروپ کی قیادت کرتے ہیں۔ کشیدگی کے خاتمے کے بین الاقوامی مطالبات کے درمیان ہزاروں باشندے سوڈان کے دارالحکومت سے نکل چکے ہیں ،بغاوتوں کی ایک طویل تاریخ کے ساتھ یہ غریب ملک ایک اسٹریٹجک مقام کا حامل ہے اور اسے اپنے قدرتی وسائل کی وجہ سے نمایاں مقام حاصل ہے۔
اداریہ
کالم
عید الفطرانعام خداوندی کا دن
- by Daily Pakistan
- اپریل 22, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 824 Views
- 2 سال ago