غزہ کی پٹی پر 22 ماہ سے اسرائیل مسلسل آگ برسا رہا ہے۔تاحال اسرائیل فلسطین میں جنگ بندی پرتیار نہیں۔ 365 مربع کلومیٹر کی غزہ کی ریاست کھنڈرات کا ڈھیر بن چکی ہے۔ غزہ انسانی زندگیوں کے ساتھ ساتھ عالمی قوانین کا قبرستان بن چکا ہے۔ غزہ میں اب تک شہادتوں کی تعداد 59,000 سے زاہد ہو گئی ہے۔
دوسری جانب غزہ میں انسانی بحران نے ہولناک شکل اختیار کر لی۔ وہاں اب بھوک کا راج ہے، قحط کی سی صورتحال ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق غزہ کی 21 لاکھ پر محیط آبادی کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ یہ دنیا کے بدترین بحرانوں میں سے ایک ہے۔ اسرائیل نے غذا کو بطور ہتھیار استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ غزہ میں 17,000 بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہو چکے ہیں، یہ سب اپنی جیتی جاگتی آنکھوں کے سامنے اسے وقوع پذیر ہوتے دیکھ رہے ہیں، مگر اس کے باوجوداسلامی دنیا کے لبوں پہ جنبش آنے کی بجائے سکوتِ مرگ طاری ہے۔
اس نسل کشی پر ساری مہذب دنیا تڑپ اٹھیاس جنگ میں اسرائیل نے سفاکیت اور بربریت کی شرمناک تاریخ رقم کی ہے۔
غزہ پر سات اکتوبر 2023 سے اسرائیل نے جنگ مسلط کر رکھی ہے، کوئی ایسا ظلم نہیں جو وہاں نہ ڈھایا گیا ہو، اسرائیل جنگی جرائم کا مرتکب ہوا، بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے،عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ وہ نہیں مان رہا، اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ہوا میں اڑا چکا ہے اور اب انسانی امداد بھی داخل نہیں ہونے دے رہا، غزہ میں بد ترین بھوک کا راج ہے، قحط کی سی صورتحال ہے۔
2 مارچ 2025 کو اسرائیل نے باضابطہ ناکہ بندی کا آغاز کیاتھا، بین الاقوامی انسانی امداد کے ٹرکوں کو اپنی سرحدوں پر ہی روک لیا،اِس کا مقصد حماس پر دبا بڑھانا تھا تاکہ اسرائیلی یرغمالیوں کو چھڑوایا جا سکے۔ اس ناکہ بندی کی وجہ سے ایندھن،خوراک،ادویات، صاف پانی اور دوسری ضروری سہولیات غزہ میں نہ پہنچ رہیں۔اِس سے زیادہ سفاکیت اور کیا ہو گی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم کی بے رحمی کی کوئی حد ہی نہیں ہے’ اس ظلم اور بربریت کا سلسلہ یہاہی نہیں روکا بلکہ عالمی براداری اور بین الاقوامی دبا کے باعث اسرائیل اور اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ ایک متوازی امدادی تنظیم غزہ ہیومنیٹیرین فانڈیشن (جی ایچ ایف) نے امدادی سرگرمیاں شروع کی ہیں
لیکن فلسطینی میڈیا میں بارہا ان مراکز پر اسرائیلی حملوں کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔ جو کہ خوراک کے منتظر فلسطینیوں کے لیے مقتل گاہ ثابت ہوا۔
امداد جنوبی غزہ کی نام نہاد "محفوظ پٹی میں تقسیم کی جا رہی ہے، لیکن غزہ کے عوام کی بھوک اور بے بسی کے باعث وہاں ہر لمحہ ایک نیا المیہ جنم لیتا ہے۔ جیسے ہی بھوکے فلسطینی بڑی تعداد میں جمع ہوتے ہیں، قابض فوج ان پر گولیاں برسا دیتی ہے، جس کے نتیجے میں مزید شہدا اور زخمی سامنے آتے ہیں۔اسرائیلی اسنائپرز کے لیے غزہ کے بچے کھیل بن گئے ہیں، خوراک و پانی کی تلاش میں بچوں سمیت شہریوں کا قتل انسانیت سوز المیہ ہے ۔
علاوہ ازیں، تقسیم کی جانے والی امداد کی مقدار نہایت قلیل ہے، جو لاکھوں بھوک سے نڈھال فلسطینیوں کی ضروریات کا عشر عشیر بھی پوری نہیں کرتی۔ڈاکٹر، نرسیں، صحافی اور امدادی کارکن سب کے سب شدید بھوک میں مبتلا ہیں۔وہ لوگ بھی جنہیں دوسروں کی دیکھ بھال کرنی تھی، خود کسی نگہداشت کے محتاج ہو چکے ہیں۔ انروا کے کمشنر جنرل فیلیپ لازارینی کے مطابق کئی افراد بھوک، کمزوری اور تھکن کے باعث دورانِ کام بے ہوش ہو جاتے ہیں۔ کچھ صحافی ہیں جو ظلم و جور کی رپورٹنگ کے دوران گِر پڑتے ہیں، کچھ ڈاکٹر ہیں جو اپنی سانسیں بچاتے بچاتے دوسروں کا علاج چھوڑ دیتے ہیں۔
مذید یہ کہ قابض اسرائیل کی ان کارروائیوں سے ایک بات واضح ہو گئی ہے کہ وہ امداد کے نام پر فلسطینیوں کے وجود ہی کو مٹانے کے درپے ہے۔ نڈھال بدن، ہاتھوں پر چھالے اور خوراک کی قلت، یہ نہ صرف انسانیت کی تذلیل ہے بلکہ عالمی قوانین، ضمیر اور شعور کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ دنیا فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کرے، کیونکہ خاموشی مزید انسانیت کو دفن کر دے گی۔