بھارت نے فرانس کے ساتھ 26 رافیل ایم جنگی طیاروں کی خریداری کا معاہدہ کر لیا۔ 63 ہزارکروڑ بھارتی روپے مالیت کے اس معاہدے میں سنگل اور ٹو سیٹر دونوں اقسام کے طیارے شامل ہیں۔ معاہدے کے تحت فرانسیسی کمپنی ڈاسو ایوی ایشن کے تیار کردہ یہ طیارے بھارتی بحریہ کے طیارہ بردار بحری جہازوں سے آپریٹ کیے جائیں گے اور روسی ساختہ مِگ 29 کے طیاروں کی جگہ لیں گے۔بھارتی وزارت دفاع کے مطابق اس معاہدے میں 22 سنگل سیٹر اور 4 ٹو سیٹر طیاروں سمیت پائلٹس کی تربیت، سیمولیٹرز، متعلقہ آلات، ہتھیار اور کارکردگی پر مبنی لاجسٹک سپورٹ شامل ہے۔معاہدے کے تحت بھارتی فضائیہ کے بیڑے میں پہلے سے موجود 36 رافیل طیاروں کے لیے بھی اضافی سامان فراہم کیا جائے گا۔ڈاسو ایوی ایشن نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ بھارتی بحریہ فرانس کے بعد پہلی فورس ہے جو رافیل میرین جیٹ طیاروں کو استعمال کرے گی۔بھارتی میڈیا کے مطابق فرانسیسی کمپنی یہ طیارے 2028 سے 2032 کے درمیان بھارت کے حوالے کرے گی۔ 2019 میں بھارتی وزیر اعظم نے اپنے دو مگ پاک فضائیہ کے ہاتھوں تباہ کروا کر ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا تھا کہ سیاست نے بھارت کا بہت نقصان کیا۔ آج رافیل طیارے ہوتے تو نتیجہ مختلف ہوتا۔یوں اپنی ناکامی کا ملبہ رافیل طیارے نہ ہونے پر ڈال کر ایک طرف تو اپنی فضائیہ کی نا اہلی چھپانے کی کوشش کی تو دوسری طرف بھارت عوام اور اپوزیشن کو رافیل طیاروں کی اہمیت بتائی۔ مودی کا یہ کہنا کہ رافیل طیاروں کی موجودگی میں نتیجہ مختلف ہوتا، صرف طفل تسلی ہے۔ کیونکہ رافیل کی بجائے کوئی سے بھی طیارے ہوتے تو نتیجہ یہی ہونا تھا جو ہوا ہے۔ کیونکہ پاک فوج کے ہتھیار وں سے زیادہ جذبے لڑتے ہیں۔ انہی جوانوں کے متعلق علامہ اقبالؒ نے کہا تھا
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
ہم تو صرف اپنی عوام کی حفاظت اپنے وطن کی حفاظت اور اپنے دین کی حفاظت کےلئے لڑتے ہیں۔ ہمیں نہ تو داد و تحسین کی ضرورت ہے اور نہ ہی نمودو نمائش کی۔ البتہ بھارتی فوج جو ہر سال لاکھوں ڈالر اسلحہ کی خریداری پر خرچ کرتی ہے بڑے غرور میں رہتی ہے۔ اس چند روزہ جنگ میں کیا ہوا۔ اگر آپ کے پاس رافیل طیارے نہیں تھے تو مگ اور دوسرے طیارے تو تھے نہ ۔ اسلحہ کی بھی کوئی کمی نہ تھی۔ اگر کمی تھی تو صرف جذبے کی ، صلاحیت کی، اور تربیت کی۔ مودی نے اپوزیشن اور عوام کا منہ بند کرنے کےلئے ان کے جذبات سے کھیلنے کی کوشش کی اور کہا کہ سیاسی مخالفین بھارت کو کمزور کرنا بند کر دیں۔جب ہماری فوج کا مذاق اڑتاہے تو مجھے دکھ ہوتاہے۔ تو عرض ہے کہ صرف انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کےلئے بغیر تیاری آپ اپنی فوج کو جنگ میں جھونک دیتے ہیں اس وقت آپ کو اپنی فوج کی فکر نہیں ہوتی ۔ یا اس وقت آپ کو اپنی فوج کا دکھ نہیں ہوتا جب وہ آپ کی سیاست کی خاطر ڈرامے کر رہی ہوتی ہے۔ مودی کا کہنا ہے کہ میرے اپنے ہی عوام ملک کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ فوج پر تنقید کی جا رہی ہے۔ یہ صرف اس لئے ہو رہا ہے کہ اپوزیشن مجھے نیچا دکھانا چاہتی ہے۔ ہمارے ہی کچھ لوگ ہماری فوج اور سیاست کے خلاف پاکستان میڈیا پر آرٹیکل لکھ رہے ہیں، بیانات دے رہے ہیں۔ یہ لوگ اپنے دیش کے ساتھ دشمنی کر رہے ہیں۔ جبکہ ہماری عوام فوج کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہے۔ بھارت کو فرانس سے رافیل طیارے ملنے کے بعد ایک دفعہ پھر یہ بحث زور پکڑ گئی ہے کہ کیا یہ جدید طیارے پاکستان میں بنائے جانے والے جے ایف 17 تھنڈر سے بہتر ہیں یا نہیں۔جب پاکستانی پائلٹس نے گذشتہ برس 27 فروری کو انڈین مِگ 21 طیارہ مار گرایا تو اس پر سوار پائلٹ ونگ کمانڈر ابھینندن کو گرفتار کر لیا گیا۔ دورانِ حراست ان کی ایک ویڈیو جاری کی گئی جس میں وہ چائے کی پیالی اٹھائے اس چائے کی تعریف کرتے دکھائی دیے۔ ابھینندن کا یہ جملہ ’ٹی از فینٹیسٹک‘ اب پاکستان میں زبان زد عام ہے۔تاہم اس کے اگلے ہی دن پاکستان نے اعلان کیا کہ وہ جذبہ خیر سگالی کے تحت بھارتی پائلٹ کو واپس گھر بھیج رہا ہے۔اس سے اگلے برس فروری میں اسلام آباد ایئر ہیڈ کوارٹر میں میڈیا کے نمائندوں کو روسی ساختہ جہاز مِگ 21 کا ملبہ دکھایا گیا۔ اس موقع پر ا±س وقت پاکستانی فضائیہ کے اسسٹنٹ چیف آف دی ایئر سٹاف پلانز ایئرکموڈور سید عمر شاہ نے کہا تھا کہ اگر انڈیا کے پاس ’رافیل آ بھی جائے تو بھی ہم تیار ہیں۔‘رافیل جوہری میزائل داغنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس میں دو طرح کے میزائل نصب ہو سکتے ہیں، ایک کا مار کرنے کا فاصلہ 150 کلومیٹر جبکہ دوسرے کا تقریباً 300 کلومیٹر ہے۔ جوہری اسلحے سے لیس ہونے کی صلاحیت رکھنے والا رافیل طیارہ فضا میں 150 کلومیٹر تک میزائل داغ سکتا ہے جبکہ فضا سے زمین تک مار کرنے کی اس کی صلاحیت 300 کلومیٹر تک ہے۔یہ بھارتی فضائیہ کی جانب سے استعمال ہونے والے میراج 2000 کی جدید شکل ہے اور انڈین ایئر فورس کے پاس اس وقت 51 میراج 2000 طیارے ہیں۔رافیل بنانے والی کمپنی داسو ایوی ایشن کے مطابق رافیل کی حد رفتار 2020 کلو میٹر فی گھنٹہ ہے۔جبکہ جے ایف-17 تھنڈر بھی بہت سی صلاحیتوں کا حامل ہے؟جے ایف-17 تھنڈر لڑاکا طیارہ پاکستان کے لیے اس وجہ سے بھی خاصی اہمیت کا حامل ہے کہ پاکستان اسے خود تیار کرتا ہے۔پاکستان نے چین کی مدد سے ہی ان طیاروں کو بنانے کی صلاحیت حاصل کی ہے اور ماہرین کے مطابق یہ طیارہ ایک ہمہ جہت، کم وزن، فورتھ جنریشن ملٹی رول ایئر کرافٹ ہے۔اس طیارے کی تیاری، اپ گریڈیشن اور ’اوورہالنگ‘ کی سہولیات بھی ملک کے اندر ہی دستیاب ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان اس طیارے کی تیاری کے مراحل کو یقینی بنانے کے لیے کسی بھی دوسرے ملک کا محتاج نہیں ہے۔یہ طیارہ دنیا بھر میں کئی اہم شوز میں بھی پذیرائی حاصل کر چکا ہے اور دنیا نے اس کی بہت اچھی اسسمینٹ کی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر بڑے شو میں جے ایف 17 کے لیے دعوت نامہ ضرور آتا ہے۔
کالم
فرانس سے26 رافیل طیارے خریدنے کابھارتی معاہدہ
- by web desk
- مئی 3, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 26 Views
- 18 گھنٹے ago