تاریخ میں بعض شخصیات محض اپنے عہد کی نمائندہ نہیں ہوتیں بلکہ آنے والی نسلوں کیلئے فکری معیار بھی متعین کرتی ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناح ایسی ہی ہمہ جہت اور غیر معمولی شخصیت تھے جنہوں نے سیاست، قانون اور قومی قیادت تینوں میدانوں میں اصولوں کو ذاتی مفاد، مصلحت اور وقتی دبا پر ترجیح دی۔ ان کی زندگی کا مطالعہ یہ واضح کرتا ہے کہ وہ جذباتی نعروں کے نہیں بلکہ دلیل، قانون اور نظم کے قائل تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ محض سیاسی قائد نہیں بلکہ ایک مکمل ادارہ بن کر تاریخ میں زندہ ہیں۔قائداعظم کی پیشہ ورانہ زندگی، خصوصا وکالت، ان کے کردار کا آئینہ دار تھی۔ معروف سوانح نگار ہیکٹر بولیتھو اور اسٹینلے وولپرٹ کے مطابق محمد علی جناح اپنے عہد کے ممتاز ترین وکلا میں شمار ہوتے تھے۔ ان کی شہرت خطابت پر نہیں بلکہ مضبوط دلائل، قانون پر گہری گرفت اور غیر معمولی پیشہ ورانہ دیانت پر قائم تھی۔ وہ عدالت کو محض روزگار کا ذریعہ نہیں بلکہ انصاف کی امانت سمجھتے تھے۔اسی لیے فیس کے معاملے میں بھی ان کا رویہ غیر معمولی حد تک منصفانہ تھا۔ وہ مقدمات کی فیس پورے کیس کے بجائے دن یا گھنٹے کے حساب سے طے کرتے تاکہ موکل پر غیر ضروری مالی دبا نہ پڑے۔ معروف واقعہ ہے کہ ایک موکل نے پانچ گھنٹوں کی فیس ادا کی مگر مقدمہ ایک ہی گھنٹے میں نمٹ گیا۔ قائداعظم نے بلا تردد باقی رقم واپس کر دی۔ یہ عمل اس حقیقت کا اعلان تھا کہ ان کے نزدیک وکالت تجارت نہیں بلکہ ذمہ دارانہ خدمت تھی۔پیشہ ورانہ اخلاقیات کی پابندی کا ایک اور واقعہ بمبئی کی عدالتوں سے منسوب ہے۔ ایک مقدمے میں ان کی غیر موجودگی میں جونیئر وکیل نے بحث کا آغاز کر دیا۔ جب قائداعظم عدالت پہنچے تو انہوں نے خود بحث سنبھالنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ شروع شدہ دلائل کو درمیان میں لینا پیشہ ورانہ اخلاقیات کے خلاف ہے۔ انہوں نے جونیئر وکیل کو ہی بحث مکمل کرنے کی ہدایت دی اور بعد ازاں اس مقدمے کی فیس بھی موکل کو واپس کر دی۔ یہ واقعہ ان کے ادارہ جاتی شعور، ساتھیوں کے احترام اور اصولی قیادت کا واضح ثبوت ہے۔عدالتی ماحول میں قائداعظم کی شخصیت وقار، خودداری اور حاضر دماغی کا حسین امتزاج تھی۔ وہ قانون جاننے کے ساتھ ساتھ عدالت کے وقار اور اپنی پیشہ ورانہ عزت کا تحفظ بھی بخوبی کرنا جانتے تھے۔ ان کا لہجہ شائستہ مگر مقف غیر متزلزل ہوتا تھا۔ یہی وقار بعد ازاں ان کی سیاسی زندگی میں بھی نمایاں نظر آتا ہے۔قائداعظم کی شخصیت کا ایک نمایاں اور روشن پہلو ان کی خودداری تھی۔ وہ اقتدار، مراعات اور رسمی پروٹوکول کے قائل نہ تھے۔ اسٹینلے وولپرٹ کے مطابق ایک موقع پر برطانوی گورنر نے انہیں سرکاری گاڑی فراہم کرنے کی پیشکش کی، جس پر قائداعظم نے پر وقار انداز میں جواب دیا:میری قوم نے مجھے آزادی کے لیے منتخب کیا ہے، مراعات لینے کے لیے نہیں۔یہ جواب کسی تصادم یا تلخی کے بغیر، مساوات اور قومی وقار کا پر اثر اظہار تھا۔اصول پسندی کا یہی رویہ ان کی سیاسی جدوجہد میں بھی نمایاں رہا۔ انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کے لیے طویل عرصہ کوشش کی، مگر جب کانگریس نے اکثریتی سیاست کو اصولوں پر مسلط کرنے کی کوشش کی تو قائداعظم نے دو ٹوک مقف اختیار کیا۔ جسونت سنگھ کے مطابق قائداعظم نے واضح کر دیا تھا کہ جہاں اصولوں کی شکست ہو، وہاں سمجھوتہ ممکن نہیں۔ یہی وہ مرحلہ تھا جب ایک ماہر سیاست دان ایک دور اندیش قومی رہنما میں ڈھل گیا۔قائداعظم وقت کی پابندی کو قومی نظم و ضبط کی بنیاد سمجھتے تھے۔ ان کی زندگی میں تاخیر اور بے ترتیبی کیلئے کوئی گنجائش نہ تھی۔ ملاقاتیں ہوں یا سرکاری امور، وہ وقت کی سختی سے پابندی کرتے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد عید کی نماز کے موقع پر جب وہ تاخیر سے پہنچے اور نماز شروع ہو چکی تھی تو انہوں نے اگلی صف میں جانے کے بجائے آخری صف میں عام شہریوں کے ساتھ کھڑا ہونا پسند کیا۔ یہ عمل اس بات کی عملی مثال تھا کہ ان کے نزدیک قانون اور نظم سب کیلئے برابر ہیں، خواہ عہدہ کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو۔قائداعظم کی شخصیت میں نفاست بھی ایک نمایاں وصف تھی۔ وہ ہمیشہ صاف ستھرا، سادہ مگر باوقار لباس پہنتے تھے۔ فاطمہ جناح کے مطابق اگر ان کے لباس پر معمولی سا بھی داغ یا شکن ہوتی تو فورا تبدیل کرنے کا حکم دیتے۔ یہ نفاست دکھاوا نہیں بلکہ اندرونی نظم و ضبط اور خود احتسابی کا اظہار تھی۔ ان کی گفتگو، نشست و برخاست اور فیصلہ سازی سب میں یہی ترتیب اور وقار جھلکتا تھا۔قائداعظم محمد علی جناح کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ قومیں محض نعروں یا تقریبات سے نہیں بلکہ اصولوں، قانون کی بالادستی، خودداری اور نظم سے بنتی ہیں۔ آج پاکستان کو جن سیاسی، سماجی اور اخلاقی چیلنجز کا سامنا ہے، ان کا حل اسی فکری وراثت میں پوشیدہ ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ ہم قائداعظم کو یاد کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے اصولوں کو اپنی عملی زندگی کا حصہ بھی بنائیں۔
قائداعظم محمد علی جناح، ہمہ جہت شخصیت

