علامہ محمد اقبالؒ کو مسلمانوں کی عظمت رفتہ کا گہرا ادراک و احساس تھا اور اس عظمت کے کھو جانے کا شدید ملال تھا۔ مگر وہ اس پر ماتم نہیں کرتے بلکہ مسلمانوں کو ان کا کھویا ہوا مقام یاد کراتے ہیں اور انہیں یہ مقام پھر سے حاصل کرنے کا ولولہ اور حوصلہ دیتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ کے کلام کا بیشتر حصہ ملت اسلامیہ کی عظمت کی بحالی کے عزم سے مزین ہے۔ علامہ نے ملت اسلامیہ کو خواب غفلت سے بیدار ہونے، اپنے پاو¿ں پر کھڑا ہونے اور با وقار قوم کی طرح جینے کا ہنر اور حوصلہ دیا ہے۔عالمی مجلس بیداری فکراقبال کی ادبی نشست میں”وہ زمانے میں معززتھے مسلماں ہوکر "کے عنوان پر طارق شاہین نے کہاکہ مسلمانوں کے شاندارماضی کی ایک بہت بڑی وجہ قرآن مجیدسے مضبوط تعلق بھی تھی۔انہوں نے تفصیل سے بتایاکہ کس طرح قرآن سے دوری نے مسلمانوں کو اوج ثریاسے تحت الثراءتک پہنچادیااور غیراقوام نے ان سے زمانے کی قیادت اپنے ہاتھوں میں تھام لی۔ علامہؒ کو مسلمانوں کے زوال کا بہت غم تھالیکن انہوں نے اس پر ماتم نہیں کیابلکہ عظمت رفتہ کی روشنی میں تابناک مستقبل کی نویدسنائی۔ غلامی اپنے نفس کی ہویاکسی غیرکی،دونوں ناپسندیدہ ہیں کیونکہ غلام قوم کوقوت فیصلہ سے محروم کردیاجاتاہے۔ مسلمانوں اس ذلت و مسکنت سے نکالنے کاایک ہی راستہ ہے اوروہ قرآن مجیدسے مضبوط تعلق ہے۔ قرآن کی تلاوت ہی تعلق کی ضامن نہیں ہے بلکہ قرآن مجیدکوسمجھنااوراس پر عمل کرنابھی ضروری ہے۔ قرآن سے دوری کے باعث مسلمان زبوں حالی کاشکارہوئے اور سعی پیہم اور مسلسل جدوجہدکے ذریعے عروج حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ نوجوان نسل کو تفہیم اقبالیات کے ماحول کی فراہمی ازحدضروری ہے۔ محسن انسانیت کے دست مبارک پر سینکڑوں معجزات رونما ہوئے لیکن وہ سب وقتی تھے،قرآن مجید جیسا معجزہ تاقیامت زندہ رہے گا۔ علامہؒ کی شاعری کا ماخذومنبع بھی قرآن مجیدہی تھا۔ قرآن مجید اپنے محاسن میں لاثانی ہے۔تقریباً سو سال قبل جب علامہ اقبالؒ نے مسلمانوں کی حالت زار کا نقشہ کھینچا تو اس وقت حالات اس لحاظ سے مزید بد تر تھے کہ بیشتر اسلامی ممالک براہ راست یورپی اقوام کے زیر تسلط تھے۔ خلافت کا قلع قمع ہو چکا تھا اور مسلم مرکزیت ختم کر دی گئی تھی۔ عالم اسلام غیروں کا غلام بن چکا تھا۔ یہ تمام حالات علامہ اقبالؒ کے روبرو تھے۔ ان سے نالاں ہو کر اور خود مسلمانوں کے طرز عمل سے مایوس ہو کر انہوں نے لکھا:
یورپ کی غلامی پہ رضامند ہوا تو
مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے یورپ سے نہیں
ان حالات میں علامہ نے مسلمان اور امت مسلمہ دونوں کو جگانے کا فریضہ ادا کیا اور انہیں آزادی کی قدر و قیمت کا احساس دلایا۔ مسلمانوں کی کھوئی ہوئی عظمت رفتہ کی بحالی کے لیے گزشتہ صدی کے عظیم فلسفی کا اضطراب ان کی شاعری سے عیاں ہے۔وہ مسلم امہ کو ان کے حقیقی تشخص سے روشناس کرا کے ان کے روایتی وقار و مرتبے کو بلند دیکھنے کے آرزومند تھے۔برصغیر کے مسلمانوں کےلئے الگ ریاست کے قیام کا نظریہ ان کے افکار کا ترجمان ہے ۔ انہوں نے مسلمانان برصغیر کی فکری سطح کو بلند کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔آج پوری دنیا کے مسلمان اس سچے عاشق رسول علامہ اقبالؒ کی تعلیمات کو مشعل راہ بنا کر عزت و حمیت کے ساتھ زندگی بسر کر سکتے ہیں۔علامہ اقبالؒ کی شاعری کا اصل اور نچوڑ دیکھا جائے تو وہ ملت بیضاکی عظمت رفتہ کی بحالی ہے۔ انکا یہ ایمان تھا کہ عشق مصطفی میں دین و دنیا کی فلاح ہے اور اسی جذبہ سے ملت بیضاکی عظمت رفتہ کو واپس لایا جا سکتا ہے۔ ملت اسلامیہ کی عزت و سربلندی کے حصول کےلگے وہ شریعت کے اولین سرچشموں سے سیرابی اور صحابہ کرامؓکی مثالی زندگیوں کوسامنے رکھتے ہوئے نوجوانان ملت کو بیدارکرتے ہیں۔علامہ محمد اقبالؒ کی شاعری سوئی ہوئی روحوں کو بیدار کرنے والی شاعری ہے۔ علامہ اقبالؒ کی زیادہ تر شاعری فارسی میں ہے لہٰذا ایران میں علامہ اقبالؒ کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ حضرت علامہ اقبالؒ کی شاعری پر دنیا کے مختلف ممالک میں آج بھی کام ہو رہا ہے۔ آپ کی شاعری کے تراجم ہو چکے ہیں اور تعلیمی اداروں میں آپ کی شاعری پڑھائی جا رہی ہے ۔ حضرت علامہ اقبالؒ نہ صرف شاعر بلکہ عظیم فلسفی بھی تھے۔ حضرت علامہ اقبالؒ نے اپنے اشعار میں سو سال قبل ہی آج کے حالات کا نقشہ کھینچ دیا تھا۔ ان جیسا شاعر صدیوں بعد کسی قوم کو ملتا ہے اور ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں علامہ اقبالؒ جیسا ولی اللہ کی صفات رکھنے والا شاعر ملا۔ پاکستان کا خواب علامہ اقبالؒ نے دیکھا جبکہ اس کی تعبیر بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ نے پوری کرکے دکھائی۔اقبالؒ نے قوم کو غلامی سے چھڑانے کےلئے قرآن کریم سے ہدایت حاصل کی۔ ایک بکھرے ہوئے انبوہ کو قوم میں تبدیل کرنا آسان کام نہیں ہے۔ بنی اسرائیل میں یہ کام انبیاءنے کیا مگراللہ تعالیٰ کے لطف و کرم سے یہ توفیق امت محمد کے علماءکو عطا ہوئی۔ علامہ اقبالؒ نے قرآنِ کریم کا گہرا مطالعہ کیا تھا اور اسی لیے برطانیہ کی پروردہ بیوروکریسی نے ان کی بے ضرر نظموں کے سوا ان کا معنی خیز کلام عوام تک نہ پہنچنے دیا۔ورنہ پاکستان جن مشکلات اور مصائب سے گزرا وہ ا±سے کبھی پیش نہ آتے۔علامہ اقبالؒ مسلمانوں کی حالت بہتر کرنے کےلئے ایک جگہ لکھتے ہیں۔ اصلاح امت اور مسلمانوں کی بیداری مہم کی تکمیل کے لیے مجھے اپنے تمام کام چھوڑنے پڑے تو انشااللہ چھوڑ دوں گا۔ اور اپنی زندگی کے باقی ایام اس مقصد جلیل کے لیے وقف کردوں گا ہم لوگ قیامت کے روز خدا اور رسول کے سامنے جواب دہ ہوں گے۔