قائد اعظمؒ کی زیر قیادت تحریک پاکستان قائد ؒکے میں لاکھوں گمنام سپاہیوں نے بڑی گرمجوشی سے حصہ لیا اور ان کی ان تھک محنت کے نتیجے میں پاکستان دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا۔ اگرچہ انگریز و ہندو اور متحدہ قومیت کے علمبردار مسلمان علماءاور انگریزوں کے حاشیہ نشین پوری طرح تحریک پاکستان کی مخالفت کر رہے تھے۔ راقم الحروف کا پختہ ایمان ہے کہ 27 رمضان المبارک 14 اگست 1947ءکو ظہور پاکستان ایک بڑا معجزہ ہے۔ اللہ تعالیٰ جب کسی نصب العین کو کامیاب بنانا چاہے تو اس کے لئے بے شمار رہنما اور کارکن دستیاب ہو جاتے ہیں۔ تحریک پاکستا ن کے ایسے ہی لاکھوں سرگرم گمنام کارکنوں میں ضلع چکوال کے گاو¿ں چتال کے چودھری غلام علی تارڑبھی شامل تھے۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ راقم الحروف اور چودھری غلام علی تارڑ کو ایک ہی تقریب میں گولڈ میڈل تقسیم ہوئے۔ غلام علی تارڑ صاحب کا گولڈ میڈل ان کے صاحبزادے کرنل سفیر تارڑ نے حاصل کیا جنہوں نے بذات خود تعلقات عامہ کے شعبے میں زبردست خدمات انجام دیں۔ سفیر تارڑ صاحب لیفٹیننٹ جنرل ذوالفقار علی خان، چیئرمین واپڈا کے زیر قیادت ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز لگے ۔علاوہ ازیں سفیر تارڑنے فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر )میںبھی لمبے عرصے تک کام کیا۔ راقم الحروف جب پاکستان ٹائمز کے اہم ادارتی شعبے کا سربراہ تھا تو کرنل سفیر تارڑ اکثر پاکستان ٹائمز لاہور کے دفتر آیا کرتے تھے۔وہ اکثر اس وقت کے چیف ایڈیٹر ایس کے درانی صاحب مرحوم کے پاس آتے رہتے تھے اور درانی صاحب مجھے فرماتے تھے کہ تارڑ صاحب تشریف لائے ہیں آپ بھی آ جائیں اور چائے پر تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ کرنل سفیر تارڑ صاحب بہت شاندار طبیعت کے مالک ہیں۔ دوستوں کے دوست بھی رہے اور انہوں نے اپنے فرائض منصبی کےلئے صحافیوں اور مجھ جیسے عام انسان سے بھی تعلقات برقرار رکھے۔ میں ہمیشہ ان کی محبت اور خلوص سے بیحد متاثر ہوا۔ اب میںان کے والد محترم غلام علی تارڑ صاحب کی تحریک پاکستان کے دوران عمدہ خدمات کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں۔ یہ پاکستان بننے سے پہلے کی بات ہے جب تحریک پاکستان اپنے جوبن پر تھی۔ چکوال کے مشرقی جانب تقریباً 10 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع موضع چتال میں ہر روز ایک جلوس ترتیب دیا جاتا تھا جو پورے گاو¿ں کی گلیوں کا چکر کاٹتا اور ’وقت کا فرمان ٹل سکتا نہیں، موت ٹل سکتی ہے ، پاکستان ٹل سکتا نہیں‘ کے نعرے بلند کرتا آگے بڑھ جاتا۔ یہ تحریک، یہ جلوس روز کا معمول تھا جس کے روح رواں گاو¿ں کے ایک سپوت چودھری غلام علی تارڑ تھے۔غلام علی تارڑ ابھی تعلیم کے ابتدائی مراحل میں ہی تھے کہ جنگ عظیم اول چھڑ گئی اور آ پ اپنے علاقے کی روایات کے مطابق اوائل عمری میں ہی فوج میں چلے گئے۔ آ پ اس جنگ میں زخمی ہوئے اور تھوڑے عرصے کی ملازمت کے بعد طبی بنیاد پر پنشن پر گھر آ گئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوںنے سماجی کاموں میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ غلام علی تارڑ نے اپنے علاقے میں مسلم لیگ منظم کیا اور قیام پاکستان کا پیغام چکوال شہر اور اس کے نواح میں بخوبی پہنچایا۔ تحریک پاکستان کے مقاصد کے حصول کےلئے آپ نے مسلم نیشنل گارڈز کے نام پر ایک فورس تیار کی جس کا مقصد مسلم لیگی رہنماو¿ں کی آمد، جلسے جلوسوں اور مسلمان آبادی کو سیکورٹی فراہم کرنا تھا۔ آپ خود رضا کاروں کو چتال اور چکوال کے درمیان برساتی نالے کے میدانی علاقے میں پریڈ کرواتے اور فوجی تربیت دیتے ۔ موضع چتال میں ہر روز ترتیب دیئے جانے والے تحریک آزادی کے اس جلوس کی دور دور تک دھوم تھی۔ 1947 میں تقسیم ہند کے دوران ایسے پیغامات تواتر کے ساتھ غلام علی تارڑ تک پہنچتے کہ سکھوں کا کوئی جتھا چکوال کی مسلم آبادی پر حملہ کرنے والا ہے تو وہ خو د اپنے پستول سے مسلح ہو کر جبکہ بڑی تعدا د میں لاٹھیوں اور کلہاڑیوں سے لیس نوجوان رضاکاروں کو لے کر مسلمان بہن بھائیوں کی مدد کےلئے پہنچ جاتے ۔رب ذوالجلال کی حکمت کہ پاکستان بننے کے کچھ دن بعد 5 ستمبر 1947 کو آپ ایک حادثے میں خالق حقیقی سے جا ملے۔ جس پاکستان کی آزادی کی تحریک میں آپ نے اپنے آپ کو وقف کیا اسی خداداد پاکستان کی دفاعی فصیل کو مزید مضبوط کرنے میں آپ کے بیٹوں کیپٹن محمد رفیق تارڑ، جہاد افغانستان کے ہیرواور گوریلا کمانڈر، سلطان امیر تارڑ المعروف کرنل امام اور چھوٹے بیٹے کرنل محمد سفیر تارڑ نے بھی حتی المقدور اپنا حصہ ڈالا۔ 18 دسمبر 2013ءمیں تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ اور نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے زیر اہتمام ایوان کارکنان تحریک پاکستان نے عطائے گولڈ میڈل کی 24 ویں سالانہ تقریب میں غلام علی تارڑ کو تحریک پاکستان کےلئے ان کی خدمات کے اعتراف میں گولڈمیڈل دیا۔
٭٭٭٭٭٭
کالم
قیام پاکستان لاکھوں شہدا اور کارکنوں کی قربانیوں کا ثمر
- by web desk
- اگست 13, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 394 Views
- 2 سال ago