وزیر اعظم شہباز شریف کی پوری کوشش ہے کہ سردیاں آنے سے پہلے متاثرین سیلاب کی ہر ممکن بحالی اور آبادکاری کاکام مکمل ہوجائے کیونکہ بغیر چھت کے سردیوں میں رہنا کسی عذاب سے کم نہیں ، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے سیلاب زدہ علاقوں میں جن افراد کے گھر سیلاب کے نذر ہوگئے تھے کیلئے دو دو کمروں پر مشتمل نئے گھر سرکاری خرچ پر بناکر دینے کا اعلان کیا تھا ، ان میں سے پہلے 100گھر صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع ٹانک میں مکمل ہوچکے ہیں ، گزشتہ روز وزیر اعظم پاکستان نے اپنے دورہ میانوالی اور ٹانک کے دوران ان گھروں کا افتتاح کرنا تھا مگر میانوالی پہنچ کر آگے کا موسم خراب ہونے کی وجہ سے وہ اپنا دورہ نامکمل چھوڑ کر واپس اسلام آباد آگئے اور ایئر پورٹ پر ہی وزیرِ اعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت نور خان ایئربیس راولپنڈی پر برطانیہ روانگی سے پہلے سیلاب کی صورتحال اور سیلاب زدگان کیلئے جاری ریسکیو و امدادی کارروائیوں اور بحالی کے کام کے لائحہ عمل پر جائزہ اجلاس ہو ا۔اجلاس میں وزیرِ اعظم کو این ایف آر سی سی کی طرف سے تفصیلات سے آگاہ کیا گیا ۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ اب تک کے تخمینے کے مطابق سندھ کے 23، بلوچستان کے 31خیبر پختونخوا کے 17اور پنجاب کے 2اضلاع سیلاب سے متاثر ہیں ۔ اجلاس میں متاثرہ اضلاع میں انفراسٹرکچر، جانی و مالی اور لوگوں کے روزگار کے نقصانات پر بھی تفصیلی بریفنگ دی گئی ۔اجلاس میں وزیرِ اعظم کو تمام اداروں بشمول این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے اور افواجِ پاکستان کی طرف سے جاری ریسکیو اور ریلیف کی کاروائیوں سے بھی آگاہ کیا گیا ۔اجلاس سے خطاب میں وزیرِ اعظم شہباز شریف نے معاشرے کے تمام طبقات سے سیلاب متاثرین کے لیے کمبل، لحاف اور گرم کپڑے عطیہ کرنے کی اپیل کی۔ وزیرِ اعظم نے کہاکہ سردیوں کا موسم قریب آرہا ہے اور ضروری ہے کہ سیلاب متاثرین کو سرد موسم کی سختی سے بچانے کے لیے پیشگی انتظامات کیے جائیں۔ انہوں نے اپیل کی کہ پوری قوم اللہ کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنے ان مصیبت زدہ بہن بھائیوں کی مدد کے لیے اخوت کا مظاہرہ کرے ۔سیلاب نے ملک میں لاکھوں لوگوں کی زندگی اور معاش کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ سیلاب متاثرین کیلئے امدادی سامان قابل اعتماد این جی اوز، صوبائی اور وفاقی محکموں اور فوجی مراکز کو عطیہ کریں۔ انہوں نے کہاکہ اگر عوام چاہیں تو خود بھی پہل کر کے امدادی سامان تقسیم کر یں۔ شہباز شریف نے کہاکہ شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے دوران سربراہان مملکت کا سیلاب متاثرین کے لیے یکجہتی، مدد اور حمایت پر خصوصی شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ میرے ازبکستان دورے کے دوران دوست ممالک نے ضرورت پڑنے پر مزید مدد فراہم کرنے کا وعدہ کیا، جس پر مجھ سمیت پوری قوم مشکور ہے۔ حکومت سیلاب متاثرین کی فوری نقد امداد کے طور پر اپنے وسائل سے 70ارب روپے فراہم کر رہی ہے ۔بینظیر انکم اسپورٹ پروگرام کے انتہائی شفاف نظام کے تحت اب تک 30ارب روپے تقسیم بھی کیے جا چکے ہیں۔ مزید یہ کہ سیلاب زدگان کے دو ماہ کے گیس اور بجلی کے بل بھی معاف کر دیے گئے ہیں۔ میں نے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں عالمی رہنماﺅں کو آگاہ کیا کہ تباہی کے درست پیمانے کا تعین کرنے کے لیے جلد مشترکہ سروے کرایا جائے گا۔ اس طرح نقصان کا تخمینہ مکمل ہو جانے کے بعد بہتر طریقے سے بحالی کا کام شروع کیا جاسکے گا ۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے رہنماﺅں کو اس بات سے بھی آگاہ کیا کہ سیلاب متاثرہ علاقوں میں ریسکیو اور ریلیف کیلئے پوری سول و عسکری مشینری اس وقت مصروفِ عمل ہے ۔اس وقت متاثرین سیلاب کی بحالی کیلئے حکومت کے ساتھ ساتھ ایس کے این ٹرسٹ اور دیگر سماجی تنظیمیں مصروف عمل ہے ، ان کی یہ خواہش ہے کہ جلد از جلد یہ کام مکمل کیا جائے ، ایس کے این ٹرسٹ کے رضاکار ملک بھر میں پھیلے ہوئے ہیں اور متاثرین سیلاب میں راشن ، ادویات ، گرم کپڑوں اور دیگر اشیاءخوردنی کی فراہمی میں مصروف ہیں ، اس ٹرسٹ کے پلیٹ فارم سے دکھی انسانیت کی خدمت کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ یہ گزشتہ تین دہائیوں سے یہ ذمہ داری نبھاتا چلا آرہا ہے ، تاہم حکومت کی جانب سے کئے جانے والے اقدامات بھی خوش آئند ہیں۔
آٹے کا مصنوعی بحران حکومت کیلئے لمحہ فکریہ
پاکستان میں آٹا زندگی کا ایک بنیادی اور ضروری جز ہے جس کے بغیر زندگی کا گزارنا محال اور دشوار ہے مگر پاکستان میں ایک ایسا مافیا موجود ہے جو ہر کسی آفت پر منافع کمانے کیلئے اشیاءخوردنی کی قلت پیدا کرنے میں ماہر ہے ، اب سیلاب کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس مافیا نے آٹے کا مصنوعی بحران کھڑا کردیا اور راتوں رات آٹے کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگ گئیں، غریب عوام کی دسترس سے آٹا دور ہوگیا ،اس وقت ملک کے مختلف شہروں میں آٹے کی قیمتیں آٹ آف کنٹرول ہو گئیں جس کے باعث لاہور کے متعدد علاقوں میں آٹا دستیاب ہی نہیں، عوام آٹے کیلئے مارے مارے پھرنے پر مجبور ہو گئے۔اوپن مارکیٹ میں گندم کی قیمت بڑھی تو چکی مالکان نے بھی آٹے کی قیمتوں میں اضافہ کردیا۔ملک میں آٹے کی قیمت 130 روپے کلو تک پہنچ گئی، کراچی میں آٹا ملک میں سب سے مہنگا ہے، ایک کلو کی قیمت 125سے 130روپے ہو گئی ہے۔80 کلو آٹے کی بوری 8 ہزار 8 سوروپے سے بڑھ کر 9 ہزار روپے ہو گئی جبکہ 20کلو آٹے کا تھیلا 2300 روپے میں فروخت ہو رہا ہے۔آٹا ڈیلرز کا کہنا ہے کہ پنجاب سے ترسیل شروع نہ ہوئی تو بحران کی کیفیت پیدا ہو جائے گی، صوبائی حکومت سے پنجاب سے ترسیل بحال کرانے کے لیے مدد کی اپیل کرتے ہیں۔دوسری جانب راولپنڈی میں بھی گندم اور آٹے کی قیمتیں بے قابو ہو گئیں، جہاں گندم کا سرکاری نرخ 3000 روپے من جبکہ عام مارکیٹ میں 3550 سے 3800 روپے میں فروخت ہو رہی ہے۔،فلور ملز نے آٹے کے اپنے اپنے ریٹ مقرر کر رکھے ہیں جو روزانہ کی بنیاد پر بڑھ رہے ہیں۔لاہور میں 110 روپے سے 116 روپے میں ایک کلو آٹا مل رہا ہے، اسلام آباد میں چکی کا آٹا 125 روپے میں فروخت ہونے لگا، کوئٹہ میں آٹے کی قیمت 120 روپے کلو ہوگئی، گوجرانوالہ میں چکی کا آٹا 130 روپے کلو فروخت ہو رہا ہے۔ غلہ منڈیوں میں قلت کے سبب فی من گندم 2 ہزار850 سے بڑھ کر3 ہزار800 روپے تک پہنچ چکی ہے، بجلی کے بھاری بل بھی ادا کر رہے ہیں، آٹا مہنگا کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔حکومت کو چاہیے کہ وہ اس مصنوعی قلت کو دور کرے اور گوداموں میں چھپائی گئی گندم اور آٹے کی بوریوں کو اپنے قبضہ میں لیکر اسے سرکاری سٹوروں پر مناسب نرخوں پر فروخت کرے۔
ایئر چیف کا پاکستانی فضاو¿ں کی حفاظت کا عزم
پاکستان کی فضائی افواج نہ صرف پاکستان کی فضاو¿ں کی نگہبان ہے بلکہ یہ پاکستان کا سرمایہ افتخار بھی ہے ، بھار ت کے ساتھ ہونے والی جنگوں میں اس فضائی فوج نے اس کا عملی مظاہرہ کرکے دکھایا ، اس فورس میں ایم ایم عالم جیسے طلسماتی کردار بھی رہے ہیں اور ابھی نندن جیسے مغرور کا غرور توڑنے والے شاہین بھی موجود ہیں جو دشمن کو اپنی گرفت میں لیکر اسے چائے پلاکر رخصت کرتے ہیں اور اس کی اوقات یاد دلادیتے ہیں ،پاک فضائیہ کے سربراہ ایئرچیف مارشل ظہیراحمد بابرسدھو نے کہا ہے کہ خطے کی موجودہ صورتحال کے پیش نظرہمیں کسی بھی بیرونی یا اندرونی سیکیورٹی چیلنج کا جواب دینے کےلئے ہمہ وقت تیار رہنا ہوگا، مادر وطن کی خود مختاری کو لاحق کسی بھی خطرے کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار ہیں۔ پاک فضائیہ کی جانب سے انفراسٹرکچر اور عسکری صلاحیتوں میں اضافہ آپریشنل صلاحیتوں کو توسیع دینے اور عسکری حکمت عملی میں اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے، خلائی، الیکٹرانک اور سائبر وارفیئر کے ساتھ ساتھ مخصوص تکنیکی علوم میں ترقی، آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ساتھ ملکر قومی سلامتی کے روایتی ماحول پر بھرپور طریقے سے اثرانداز ہو رہی ہیں۔ تمام لاحق خطرات کے پیش نظر محفوظ ماحول کی فراہمی اور تکنیکی صلاحیتوں کے اس خلا کو پر کرنے کےلئے پاکستان کی مسلح افواج تیز ترین انڈکشن پروگرامز کے ذریعے موجودہ صلاحیتوں میں جدت طرازی کی کوششوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاک فضائیہ دشمن کی اسلحہ سازی اورعسکری صلاحیتوں کے ذخیرے سے بالکل بھی خائف نہیں، پاک فضائیہ افواج پاکستان کے شانہ بشانہ مادر وطن کی خود مختاری کو لاحق کسی بھی خطرے کا مقابلہ کرنے کےلئے ہمہ وقت تیار ہے۔
متاثرین سیلاب کی بحالی کیلئے حکومتی کاوشیں
