کالم

متحرک خارجہ پالیسی کے تقاضے اور شمبے گرفتار!

اسے ملکِ عزیز کی سیکورٹی فورسز کی بڑی کامیابی قرار دیا جانا چاہیے کہ کالعدم بلوچ نیشنل آرمی کے بانی اور انتہائی مطلوب دہشتگرد گلزار امام کو دھر لیا گیا۔ ذرائع کے مطابق بی این اے، بلوچ ریپبلکن آرمی اور یونائیٹڈ بلوچ آرمی کے انضمام سے وجود میں آئی تھی، بلوچ نیشنل آرمی پنجگور اور نوشکی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملوں میں ملوث رہی ہے۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ گلزار امام عرف شمبے 2018 تک بلوچ ریپبلکن آرمی میں براہمداغ بگٹی کا نائب بھی رہا ۔اس صورتحال کا جائزہ لیتے ماہرین نے کہا ہے کہ کسی بھی باوقار معاشرے میں رواداری خشت اول کی حیثیت رکھتی ہے اور ہر طرح کے گروہی تعصبات سے اوپر اٹھ کر ہی یہ مقصدِ عظیم حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہاں اس امر کا تذکرہ بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ بحیثیت مجموعی پاکستانی سوسائٹی اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود بہت اچھی شکل میں موجود ہے البتہ بہتری کی گنجائش چونکہ ہمیشہ موجود ہوتی ہے لہذا اس ضمن میں مزید کوشش کی جانے چاہیے۔ مگر اس بابت یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ ” خود احتسابی“ اگرچہ بہت اچھی چیز ہے مگر اس ضمن میں ”خود مذمتی“ اور ”خود احتسابی“ کے مابین موجود بظاہر چھوٹے لیکن بے انتہا وسیع حدِ فاصل کو پیش نظر رکھا جانا اشد ضروری ہے کیونکہ پاکستانی معاشرے کا ایک حصہ دانستہ یا غیرشعوری طور پر گذشتہ خاصے عرصے سے اس کوشش میں مصروف ہے کہ پاکستانی قوم کو ”خود مذمتی“ اور خود ملامتی کی علامت میں تبدیل کر دیا جائے تا کہ یہ بجائے تمام پہلوﺅں کا جائزہ لینے اور ان کی بہتری کیلئے اقدامات کرنے کے ، احساس کمتری کا شکار ہو کر ہر ضمن میں معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے پر مجبور ہو جائے ، یوں بحیثیت مجموعی قوم کے مورال کو پست کیا جا سکے اور اس بابت ہر طرح کے حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ اس صورتحال کا جائزہ لیتے ماہرین کا کہنا ہے کہ خود احتسابی اور اپنا محاسبہ کرنا اگرچہ بہترین حکمت عملی اور شاید تقاضائے وقت بھی ہے، مگر ایسا کرتے ہوئے خود مذمتی کی روش کسی طور اختیار نہ کی جائے ۔ یہاں اس امر کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ داخلی سیاست کی بھول بھلیوں میں کھو کر خارجہ محاذ پر پاکستان کیلئے میسر مواقع کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ یہ بات اہم ہے کہ گذشتہ چند روز میں عالمی سیاسی منظر نامے پر تہلکہ خیز پیش رفت ہوئی ہے اور چین کی ثالثی کے نتیجے میں ایران اور سعودی عرب نے اپنے سفارتی تعلقات کی بحالی کا اعلان کر دیا ہے۔ ایران سعودی عرب تعلقات کی طویل تاریخ کو دیکھا جائے تو دونوں ممالک کے مابین تعلقات مدوجزر کا شکار رہے جہاں تعلقات بہتر ہوتے وہیں کوئی ایک چھوٹا سا واقعہ امن کی تمام کوششوں کو سبوتاژ کردیتا تھا۔ سبھی جانتے ہیں کہ پاکستان نے چین کی ثالثی میں ایران سعودی عرب معاہدے کا خیرمقدم کیا ہے کیونکہ یہ ڈیل نہ صرف خطے بلکہ پاکستان کے لیے بھی انتہائی خوش آئند ہے۔ کس علم نہیں کہ پاکستان ہمیشہ تمام ممالک کیساتھ دوستانہ تعلقات کا خواہاں رہا ہے اور اس ڈیل میں شامل تینوں ممالک ” چین، سعودی عرب اور ایران “ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ہمیشہ سے اہم رہے ہیں۔ چین اور ایران پاکستان کے پڑوسی ہیں تو سعودی عرب ہر مشکل وقت کا ساتھی رہا ہے۔ایک ایسے وقت میں کہ جب پاکستان مشکل ترین معاشی صورتحال سے گزر رہا ہے اور آئی ایم ایف سخت شرائط عائد کر رہا ہے، خطے میں اس نئی پیش رفت کے دور رس اور مثبت اثرات پاکستان پر بھی پڑیں گے۔اس امر سے بھی انکار ممکن نہیں کہ وطن عزیز میں یقینا بہت سے سکم اور جھول موجود ہیں جن کی اصلاح کیے بنا باوقار ڈھنگ سے آگے بڑھنا مشکل ہی نہیں بلکہ نہ ممکن بھی ہے ۔ عدم رواداری اور عدم برداشت ایسے عنصر ہیں جو کسی معاشرے کو دیمک کی مانند چاٹ جاتے ہیں اور اگر ان کو روکنے کے لئے ٹھوس اور بروقت اقدامات نہ کیے جائیں، تو معاشرے دھیرے دھیرے بد ترین انتشار اور شکست و ریخت میں مبتلا ہو کر رہ جاتا ہے۔ لیکن یہ امر بہرحال خاصا اطمینان بخش ہے کہ پاکستانی قوم نے بحیثیت مجموعی اپنی بہتری کی جانب بہت سی ٹھوس پیش رفت کی ہے ۔ کسے علم نہیں اسلامی تعلیمات کسی بھی طور اس بات کی اجازت نہیں دیتیں کہ مذہب کو بنیاد بنا کر کسی بھی طبقے کے خلاف جبر و استبداد کا طرز عمل اختیار کیا جائے، لہذا ماضی میں اگر کسی جانب سے اس قسم کی روش اپنائی بھی گئی ہے تو اسے کسی طور قابل ستائش نہیں قرار دیا جا سکتا بلکہ ہر سطح پر اس کی حوصلہ شکنی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اس ضمن میں یہ بات خصوصی طور پر پیش نظر رہنی چاہیے کہ تمام علمی اور تحقیقی پلیٹ فارم پر شعوری کوشش کی جائے کہ سول سوسائٹی کے تمام حلقوں کی طرف سے قومی سطح پر ایسا بیانیہ تشکیل پا سکے جس کے نتیجے میں باہمی منافرت، فرقہ وارانہ اور گروہی تعصبات کی حوصلہ افزائی کی بجائے ان کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔ اس حوالے سے ” کرتار پور راہداری“ کا قیام پاکستان کی بہترین سفارتی کامیابی اور رواداری کی اعلیٰ کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے، لیکن یہ بات بھی اہم ہے کہ تاحال اندرونی معاشی، معاشرتی اور سیاسی مسائل کے باعث پاکستان اس بہترین کامیابی سے خاطر خواہ ڈھنگ سے فائدہ نہیں اٹھا پایا۔ یوں ایسا ”متبادل بیانیہ“ تیار ہونا چاہیے جس کے ذریعے اس امر کو اس کی تمام تر جزئیات کے ساتھ واضح کیا جائے کہ اسلام میں تشدد، جبر اور انتہا پسندی کسی بھی لحاظ سے قطعاً نا قابل قبول ہیں اور کوئی بھی معاشرہ یا ریاست اس طرز عمل کے فروغ کی اجازت نہیں دے سکتی، کیونکہ یہ قومی ریاست کی تشکیل کے بنیادی اصولوں کے منافی ہے۔ ایسے میں خصوصی طور پر پاکستانی معاشرے کا فرض اولین ہے کہ وہ تمام تر کوششوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ”متبادل بیانیے“ کی تشکیل کو بنیادی ترجیحات میں شریک رکھے۔اس تمام صورتحال میں وطن عزیز کے متعلقہ اداروں کو سعودی عرب ایران تعلقات میں بہتری کو ایک موقع کے طور پر دیکھنا چاہیے اور چین سعودی عرب اور ایران کے اس اتحاد کا حصہ بننے کی جانب پیش رفت کرنی چاہیے تاکہ معاشی کیساتھ بلوچستان و دیگر خطوں میں بد امنی کے مسائل پر بھی قابو پایا جا سکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri