زندگی میں کچھ حادثات ایسے ہوتے ہیں کہ پتھر سے پتھر دل کو بھی پگھلا کےرکھ دیتے ہیں اورتردامن انسان کو بھی سیدھا کردیتے ہیں لیکن ہمارے سیاستدان ہیں کہ انہیں کوئی حادثہ کوئی دکھ یا تکلیف سیدھا نہیں کرسکی قیام پاکستان کے بعد ملک بڑے حادثوں سے گذرا لیکن ہمارے سیاستدان درست راستوں کے راہی نہ بن سکے ملک دو لخت ہوگیا لیکن ہم ایک نہ ہوسکے- کئی سیلاب اور زلزلے آئے لیکن ہمارے سیاستدان اسی ڈگر پر چلتے رہے کہ جس پر چلتے ہوئے ہم عذاب الٰہی کو دعوت دیتے ہیں کہتے ہیں مرنے سے پہلے توبہ کا دروازہ کھلا ہے لیکن ہمارے لیکن ہمارے عاقبت نااندیش سیاستدانوں نے کبھی بھی اپنا قبلہ درست کرنے کی کوشش نہیں کی انہیں صرف اقتدار کے دروازے سے گذرکر کرسی ایوان پرمتمکن ہوناآتا ہے- ہر سیاسی جماعت کے قائد مسیحائی کا دعویدار ہے – اور پورے یقین سے عوام کو گمراہ کر رہا ہے اور اس بات کا ڈھنڈورا پیٹتا رہتا ہے کہ ملک کے حالات کواس کے علاوہ کوئی اور ٹھیک نہیں کرسکتا ہے اور ان دعو¶ں کی پرچھائی میں ہرسیاسی جماعت کا لیڈر اقتدار حاصل کرچکا ہے لیکن ملک کے حالات کسی سے بھی ٹھیک نہیں ہو سکے اس لیے کہ ان کی سوچ میں کجی ہے یہ ملک کے خیرخواہ نہیں ہیں یہ تو محض اپنی تجوریاں بھرنے آ ئیں ہیں کشتی کسی کی پار ہویا درمیاں رہے لیکن ہماری یہ خام خیالی اورخوش فہمی ہے کہ ہم انہیں پتوں پہ تکیہ کرتے ہیں جوہوادیتے ہیں ہم نے بھی قسم کھا رکھی ہے کہ ان لٹیروں اور غاصبوں سے جان خلاصی نہیں کروانی تو پھر شکوہ کیسا جو ہوگا دیکھا جائےگا- پاکستان بننے کے بعد ملک کی دوبڑی جماعتیں مسلم لیگ(ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی دوسروں کی نسبت زیادہ وقت ملک پر حکمرانی کرچکی ہیں اور حالات وہی خستہ اور شکستہ ہی رہے اور بقول ہمارے ایک سینئر تجزیہ نگار کے کہ نواز شریف کی وزارت عظمی کے آخری دور میں حالات کچھ بہتر ہوچلے تھے ملک میں توانائی بحران پر قابو پایا جا چکا تھا سی پیک کی صورت میں ملک کے بہتر مستقبل کی کرن نظر آنے لگی تھی کہ جناب عمران خان اپنی 22سالہ جدوجہد کا ثمر مل گیا حالانکہ یہ وہ وقت تھا جب چائنہ کے صدر کا دورہ پاکستان مضبوط پاکستان کی بنیاد رکھنے والا تھا، لیکن جناب عمران خان نے مسلم لیگ ن کی اس وقت کی حکومت کے خلاف ایسی یلغار کی کہ پاکستان کی معیشت کمزور ہونے لگی خان صاحب نئے انتخابات کا انتظار کئے بغیر نواز شریف سے استعفیٰ مانگ کر ملک میں انتخابات کا مطالبہ کرنے لگے کہا جانے لگا کہ ملک کے تمام مسائل کا حل ہی نئے انتخابات میں ہے عمران خان،نواز شریف سے استعفیٰ مانگتے ایڑھی چوٹی کا زور لگا بیٹھے لیکن نواز شریف سے استعفیٰ تو نہ لے سکے البتہ ملک کے مسائل میں اضافہ ضرور کرتے گئے ملک میں عمرانی دھرنوں کے باعث انتشار پیدا ہوا دنیا میں پاکستان کی ساکھ خراب ہوئی اس افراتفری میں بھلا ملک کے حالات اعتدال میں کیسے رہ سکتے تھے جناب عمران خان کی قیادت میں پاکستانی اداروں پر چڑھائی کر دی گئی دنیا نے پی ٹی وی پر حملہ ہوتے دیکھا ملک کی اہم عمارتوں پر سکھانے کے لئے کپڑے لٹکتے دیکھے پاکستان کی اہم سرکاری عمارتوں کی ایسی بے توقیری کبھی چشم فلک نے پہلے کبھی دیکھی نہ سنی پاکستان کی مخالف قوتیں پاکستان کے حالات پر ہنستی رہیں حالات کی اس کشیدگی میں مسلم لیگ ن کی حکومت جیسے تیسے اپنے پانچ سال توپورے کرگئی لیکن پاکستان پچاس سال پیچھے چلا گیا۔ نئے انتخابات کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بنی تو ایک موہوم سی امید بندھ گئی کہ اب ملک ضرور ترقی کرے گا کہ جناب عمران خان فرما چکے تھے کہ ان کے پاس تجربہ کاروں کی ایک ٹیم ہے اور وہ کسی سے قرض بھی نہیں لیں گے نوکریاں دیں گے نئے گھر بنائیں گے قانون اور انصاف کا پرچم بلند ہو گا لیکن عمران خان صاحب کی حکومت کے تقریباً چار سال بھی پاکستان یا پاکستانی قوم کو کچھ ریلیف نہ دے سکے عمران خان کو بھی آئی ایم ایف کے آگے جھکنا پڑگیا مافیاز کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑگئے اور لوڈ شیڈنگ جو تقریباً ختم ہوچکی تھی پھر سے شروع ہو گئی گیس کے بروقت معاہدے نہ کرنے سے گیس بجلی اور ہر چیز کی گرانی عوام کے لیے پہاڑ جیسی مشکلات لے کر آگئی ملک میں کرونا کی ہلاکت انگیزیاں بھی تحریک انصاف کی حکومت کے لئے بڑا مسئلہ بن گئیں عمران خان کی اپوزیشن نے عمران خان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دیا تو عمران خان ڈٹ گئے انکے خلاف تحریک عدم اعتماد کی باتیں ہونے لگیں تو خان صاحب فرمانے لگے کہ میں تو خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ یہ میرے خلاف تحریک عدم اعتماد لے کر آرہے ہیں اور جب تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی تو خان صاحب کا شکر جواب دے گیا جیسے کسی کا صبر جواب دے جاتا ہے اور عمران خان شکر کی بجائے شکوے کرتے دکھائی دئیے ملک میں اتحادی جماعتوں کی حکومت بن گئی تو عمران خان اس حکومت سے استعفیٰ مانگنے لگے اور کہا جانے لگا کہ ملک میں انتخابات ہی تمام مسائل کا حل ہیں خدا کے لیے ہمارے سیاستدان نئے انتخابات کا راگ الاپنا بند کردیں قیام پاکستان سے لے کر اب تک انتخابات ہی تو ہو تے آرہے ہیں لیکن آج تک پاکستان میں ہونے والا کوئی ایک انتخاب بھی ملکی مسائل کا کوئی حل تلاش کرسکا؟تو پھر آج نیا انتخاب ملک کو بحرانوں سے کیسے نکال پائے گا؟بس ثابت ہوا ملکی مسائل کا حل کسی نئے انتخابات کا متقاضی نہیں بلکہ سیاستدانوں سے معذرت کا خواستگار ہے ہر انتخاب فائدے کی بجائے پاکستان کو اربوں کا نقصان دے جاتا ہے اس لئے انتخابات کو اپنے مقررہ وقت پر ہی ہونا چاہیے تب تک پاکستان کی ہرسیاسی جماعت پر لازم ہوکہ وہ کسی بھی جبر کی بجائے صبر سے کام لے آج پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں مسائل اور دکھ درد کے گہرے نقش چھوڑ گئی ہیں ملک سو سال پیچھے چلا گیا ہے اور عمران خان اسلام آباد پر چڑھائی کی تیاریوں میں ہیں اس سے پھر سے بحرانوں کی دلدل میں پھنسے پاکستان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہی ہوگا عمران خان جانتے ہیں وہ نواز شریف سے بطور وزیراعظم اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود استعفی نہیں لے سکے تھے تو اب بھی انہیں کچھ حاصل ہونے والا نہیں، انہیں معلوم ہے انکے فوری انتخابات کا مطالبہ کوئی ماننے والا نہیں بس وہ حکومت کی مشکلات بڑھانا چاہتے ہیں میرے اس دوست کی رائے کو آپ تنقید برائے تنقید کے زمرے میں شامل نہیں کر سکتے یہ ایک بدیہی حقیقت ہے جس کا جواب شاید خان صاحب نہ دے سکیں رہی بات نئے آرمی چیف کی تو عمران خان اس کی فکر نہ کریں آرمی چیف کسی کا نہیں ہوتا وہ اپنی فوج کا چیف ہوتا ہے اور پاکستان کی محبت اسکے خمیر میں گوندھی گئی ہوتی ہے کوئی آرمی چیف عمران خان کو کوئی فائدہ دے سکتا ہے نہ کسی دوسرے حکمران کو اس لئے عمران خان حقائق کو تسلیم کرلیں دوسری طرف شہباز شریف کی حکومت بھی عوام پر ایسے ستم نہ ڈھائے کہ عوام اٹھ کھڑے ہوں بجلی کی قیمتوں میں ایسا اضافہ اس نحیف عوام پر ظلم ہے پچھلے دو تین ماہ میں عوام بجلی کے بل ادا کرکے اپنے بیگانوں کے مقروض ہوچکے اگر اتحادی جماعتوں کی حکومت عوام کو کچھ ریلیف نہیں دے سکتی تو پھر اسے عمران خان کا مطالبہ مان لینے میں لیت و لال سے کام نہیں لینا چاہیے اور فیصلہ عوام کو کرنے دینا چاہیے۔