Site icon Daily Pakistan

محمد نعیم ورک اور اردو ناول کا ثقافتی مطالعہ

اگرچہ جملہ اصناف ادب ہماری اجتماعی ذہنی سرگزشت کا روزنامچہ ہی ہوتی ہیں۔لیکن یہ امتیاز صرف ناول کو حاصل ہے کہ اس کے ذریعے زندگی کی اجتماعی ذہنی سرگزشت کو ایک ہی بڑے اور نہایت مرتب و منظم کینوس پر دیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے۔غزل کی طرح ناول محض اشارہ نہیں ، اختصار نہیں ، اخفا نہیں ، کسی غیرمرتب جذبے کی جھلک نہیں ، شاعری سے ناول تک کا سفر یوں سمجھیئے کہ نوعمری سے پختہ خیالی تک کا سفر قیاس کیا جا سکتا ہے ۔ناول زندگی کی جزوی نہیں ،کلی تفصیل و تشریح اپنے اندر رکھتا ہے ، یا اسے رکھنی چاہیئے۔کسی بھی معاشرے کی جملہ ذہنی و عملی سرگرمیوں کے محرک بننے والے تصورات، نظریات، عقائد و ایمانیات وغیرہ کو اس کے ثقافتی محرکات خیال کیا جا سکتا ہے ۔وہ تمام امور و افکار جو ایک معاشرے کے اقوال و افعال کے مادی اور عملی اظہار کا باعث بنیں ،انہیں اس معاشرے یا قوم کی ثقافت کے محرکات کہا جاتا ہے۔یوں ایک متعین زمانی مدت کے دوران تخلیق پانے والے ناولوں کا ثقافتی مطالعہ دراصل اس معاشرے یا قوم یا گروہ کی حقیقی اور مجازی ذہنی فضا اور محرکات اقوال و افعال کا تجزیاتی مطالعہ ہوتا ہے ۔ڈاکٹر محمد نعیم ورک نے1869 سے 1947 تک لکھے گئے اردو ناولوں کا ثقافتی مطالعہ کرتے ہوئے ایک زیر تشکیل و ترتیب ثقافت کے متنوع اظہار کی مفصل یا متناقص دونوں صورتوں کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی ہے ۔اٹھارہ سو ستاون کے بعد تشکیل پانے والی سیاسی ، سماجی ،معاشی اور اعتقادی فضا نے قلب و نظر میں بہت دورس تبدیلیاں پیدا کیں اور ان تبدیلیوں نے اپنے اظہار و ابلاغ کے نت نئے راستے بھی تلاش کئے۔ یہی وہ دور ہے جب اردو کی نثری صلاحیت کو منظم طور پر فزوں تر کرنے کے لیے سنجیدہ کوششیں بھی کی گئیں ۔جب زمانے کے انداز بدلے گئے تو ظاہر ہے کہ نئے سازکے ساتھ نئے راگ بھی سامنے آئے ۔سرکاری زبان فارسی تھی تو مقامیوں کی یکساں طور پر ادبی زبان اردو تھی ، اردو سبھی بولتے ، سمجھتے اور لکھتے تھے ۔رجحان ترتیب دئے گئے، نثر نگاری کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ تازہ نثری اصناف کی بھی حوصلہ افزائی ہوئی ، متنوع موضوعات پر مضامین لکھنے کا سلسلہ شروع ہوا، اسی طرح ایک نئی صنف ناول بھی اردو میں رائج ہوئی اور بہت تھوڑی مدت میں اردو ناول نے مقبولیت اور قبولیت کی منزلیں طے کر لیں۔میرے خیال میں ثقافت کے صفحات پر لکھی منظم و مرتب تحریر کا نام ناول ہوتا ہے ۔محمد نعیم ورک اسی اردو ناول کو ایک ثقافتی عمل کے طور پر مطالعہ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے وضاحت کرتے ہیں کہ "۔ثقافت حقیقت کی تشکیل کار ہے اور ناول اس حقیقت کو بیان کرنے اور مختلف افراد کےلئے اپنی تعبیروں کو متشکل کرنے کا ذریعہ ہے ۔ثقافت کا تعلق ایک طرف تصوراتی منطقے سے ہے ، دوسری طرف اس کا سرا سماجی زندگی کے عملی میدان سے جڑا ہے۔ ثقافت حقیقت کی تشکیل کار اس طرح سے ہے کہ یہ کسی بھی معاشرے کے افراد کے اقوال و افعال کے پس منظر میں کام کرنے والے تصورات ،نظریات یا عقائد و توجیہات کی بنیاد بنتی ہے۔جس دور کے(1869- 1947) ناولوں کا ثقافتی مطالعہ کیا گیا ہے ۔اس دور میں ایک عبوری یا متبادل ثقافت کی شعوری تشکیل و ترتیب و ترویج کا عمل بھی جاری تھا۔یاد رکھنا چاہیئے کہ کرہ ارض پر لگے درختوں میں شعوری طور پر کسی منصوبہ بندی کے تحت آگائے گئے درختوں کی تعداد بہت ہی کم ہے ، جبکہ کرہ ارض کے گھنے جنگلات خودرو درختوں اور پودوں سے بھرے پڑے ہیں۔اور انہی خود رو درختوں نے کرہ ارض کے موسمیاتی توازن کو سنبھال کر رکھا ہے۔اسی طرح کسی گروہ اور ہجوم کو ان کی قدرتی ذہنی اور ثقافتی زندگی سے جدا کر کے ، ان کے لیے ایک نیا اور بالکل دیگر ذہنی و عقلی پس منظر تشکیل دے کر ان کے رویوں میں بدلا کو ہی ان کی نیکی اور راست بازی قرار دینا کتنا سود مند ہے ، یہ دیکھنے اور سمجھنے والی بات ہے۔ڈاکٹر محمد نعیم ورک اس پر ایک دلچسپ بحث پیش کرتے ہیں۔”یہ کہنا کہ مسلمان ہندوستان میں باہر سے آئے،ادھورا سچ ہے ۔یہ بات کر کے،مقامی ہندوستانی آبادی،جس نے اسلام قبول کیا ۔ اس کو یکسر نظر انداز کیا جاتا ہے ،’ہندوستان سے مسلمانوں کا میل جول ‘ سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ تمام مسلمان باہر سے آئے ہوئے ہیں۔دوسری بات اس تصور سے یہ نکلتی ہے کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ اور ٹھوس شناختیں ہیں،جن کا تعین قدیم سے چلا آ رہا ہے۔اس کی قدامت۔ اتنی ہی ہے ،جتنی ان مذاہب کی۔اس تصور پر سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ کیا شناخت ایک ‘کامل’ اور ‘جامد’ مظہر ہے جس پر زمان و مکان اثر نہیں ڈالتے ۔ ہماری نظر میں جس طرح تاریخ بدلتی ہے، شناختیں بھی تبدیلی کے عمل سے گزرتی ہیں ۔” شناخت ، اور اس کے ذہنی اور مادی اظہار کو ایک مسلسل اور متغیر حیاتیاتی عمل کی طرح خیال کیا جا سکتا ہے۔ایسے متعیر حیاتیاتی عمل کے ارتقا کا بہترین اشاریہ اصناف ادب میں ناول خیال کیا جا سکتا ہے ۔کیونکہ اپنے عصر یعنی زمان، اپنے جغرافیے یعنی اپنے مکان اور ان کی جملہ شرائط سے نبردآزما کرداروں کے عمل اور ردعمل سے ایک بڑی تصویر بناتا یا بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ناول چٹان پر کندہ نقوش کی بجائے اس چٹان کے اطراف چلنے پھرنے اور رہنے سہنے والے لوگوں کی زندگی کا حال و مآل اور ان کے اعمال کے داخلی محرکات بیان کرتا ہے ۔اسی لیے جب ہم کسی قوم ، کسی تہذیب و تمدن ،کسی مکان اور کسی زمان کی ثقافت کا مطالعہ کرنا چاہیں یا کرداروں کے اعمال و افعال کے محرکات کا سراغ لگانا چاہیں تو ایک ناول ہمارا بنیادی ماخذ بن سکتا ہے۔ڈاکٹر محمد نعیم ورک کی’اردو ناول کا ثقافتی مطالعہ ‘ کے تین ابواب کلیدی حیثیت کے حامل ہیں ،تیسرا باب اردو ناول کی ثقافتی علامتیں، چوتھا باب ثقافتی کثرت ، اختیار اور سماجی تحرک،اور پانچواں باب بہ عنوان ماضی کی بازیافت ، تشکیل اور ثقافت۔یہ مباحث ،خصوصی طور پر ماضی کی بازیافت ،تشکیل اور ثقافت نہایت تفصیل اور عمدگی سے اس عقدہ مشکل کی کشود کرتے دکھائی دیتے ہیں۔محمد نعیم ورک نے اس تحقیق اور تجزیے میں ایک روشن دماغ ، جدت پسند اور پیشگی تعصبات سے ماورا محقق ہونے کا ثبوت فراہم کیا ہے۔انہوں نے زیر مطالعہ و تجزیہ ناولوں کی ” نیت” کو جس عمدگی سے عیاں کیا ہے ، اور جن نکات و مقامات کو تجزیے کی تیز روشن لکیر سے نمایاں کیا گیا ہے ، وہ منفرد اور مثالی معلوم ہوتا ہے ۔ہم جانتے اور سمجھتے ہیں کہ شناخت کا محض مذہبی بنیادوں پر استوار ہونا کسی بھی معاشرتی کردار کی متنوع شخصیت کا مکمل احاطہ نہیں کرسکتا ۔ اگر اس شناخت کو بنیاد بنایا جائے گا تو نتائج نامکمل اور یک رخے ہوں گے ۔مثلا انیسویں صدی کے نصف آخر اور بیسویں صدی کے نصف اول میں برصغیر کی مسلم معاشرت میں کرداروں کی بنتی بگڑتی تقدیر میں علت و معلول کو منہا کرنے کی وجہ بنیادی طور پر غلط طرح کے تصور جبر و قدر کو خیال کرنا چاہیئے۔جیسے غلط مذہبی تصورات کے تحت نیکی بدی کے اجر کو آخرت تک ملتوی کر کے گویا دنیا کو گہنگاروں کےلئے کھلا میدان بنا دینے کا رجحان ، تاکہ وہ اطمینان سے کھل کھیلیں۔ دوسرے تصور توبہ نے ہر طرح کے احتساب سے جان چھڑا دی۔اس سے جو ثقافت پیدا ہوئی ،وہ ایک متبادل ذہنی انتظام قیاس کی جا سکتی ہے۔ہمارے ابتدائی ناولوں میں ثقافتی عناصر کی تلاش اسی متبادل و متناقص اور عبوری ثقافت کی تلاش ہے۔ہمارے ناولوں کے کردار ذہنی طور پر اس خطہ ارضی کے کردار نہیں ۔ جو کردار اپنے حقیقی ذہنی رابطے کھو بیٹھے ، وہ اور اس کی ثقافت کیا۔ ایک بڑے ہجوم یا گروہ کو کسی ذہنی خلجان میں مبتلا کر کے ان کے اعمال کا ذمہ دار خود انہی کو قرار دینا ایک طرح کا ظلم ہی تو ہے۔ایسی اعلیٰ سطح کی نوسربازی کا تدارک آزاد علم ہی کر سکتا ہے ۔عقل اور فراست کی تجربی بنیادیں ہی مضبوط ہوتی ہیں ۔ جبکہ روحانی بنیادیں صرف عالم خواب میں ہی آسودگی کا اہتمام کر سکتی ہیں۔کسی بھی معاشرے کے پنڈت پروہت پجاری دراصل اس معاشرے کی شاہراہ علم کے اسپیڈ بریکر ہوتے ہیں ۔(اسپیڈ بریکر کے اوپر سے گزرتے ہوئے رفتار تھوڑی مدھم کر لینی چاہیئے ۔)ہمارے ہاں تدبیر پر تقدیر کو ، وصال پر ہجر و فراق کو اور سب سے غارت گر تصور یعنی دینا پر آخرت کو ترجیح دینے کے رجحان نے ہمارے اجتماعی شعور کو زخمی کر رکھا ہے ۔ ہمارے تاریخی ناولوں نے جس طرح ہمارے تاریخی شعور کو بے بنیاد اور بسا اوقات کاذب فصیلوں پر کھڑا کرنے کی ناکام کوشش کر رکھی ہے ،اس نے بھی ہماری ثقافتی بنیادوں کو کمزور کرنے اور دیگر ثقافتوں کے محاسن کو تسلیم نہ کرنے کے رویے کو پروان چڑھا کر ہمیں بالکل تنہا کر دیا۔ اردو ناول کا یہ دلچسپ اور چشم کشا ثقافتی مطالعہ ، تجزیاتی مطالعات کی ایک عمدہ مثال شمار کی جاسکتی ہے ۔محمد نعیم ورک نے اپنی تحقیقی روش اور تجزیاتی پختگی کی بنیاد پر ایک اہم اور حساس عہد کے اردو ناولوں کے دل اور دماغ دونوں ہمارے سامنے کھول کر رکھ دیے ہیں۔

Exit mobile version