سیاست دانوں کی باہمی کشمکش کا نتیجہ ہے کہ ملک میں سیاسی افراتفری اور معاشی بد حالی ہے اور سیاست دانوں کی رسہ کشی نے عوام کا جینا
محال کر دیا ہے ۔ ہر لمحہ ایسا محسوس کیا جاتا ہے کہ شاید اب کچھ ہونے والا ہے۔ملک ہر طرف سے مشکلات کے دلدل میں پھنستا چلا جارہا ہے اندرونی بیرونی سازشوں نے ملک کو خطرات سے دوچار کر دیاہے پورے ملک میں افراتفری کا ماحول پایا جاتا ہے ہر رات خوف میں ڈھلتی ہے تو ہر صبح ملک میں سیاسی ہنگامہ
برپا کر تی ہے اور اسی خوف میںعوام کی زندگی تمام ہوتی ہے ۔اور عملی طور پر یہ ثابت ہو گیا ہے کہپاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں شخصیات اپنی من مانی کے لئے نظام کو تہس نہس کر دیتی ہیں۔ ہمیں آزاد ہوئے پچہتر سال ہو چکے ہیں مگر ہم آج بھی یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ پوری دنیا میں اہمیت نظام کی ہے فرد کی نہیں اور جو قومیں نظام کے بجائے افراد کو اہمیت دیتی ہیں وہاں انارکی بھی ہوتی ہے اور افراتفری بھی اور اس کے نتائج ہولناک ہوتے ہیں۔حالانکہ اصل مسئلہ بے روزگاری اور مہنگائی ہے، صحت و تعلیم ہے جس پر حکومتی سطح پر ناکامی نظر اتی ہے۔اور عام آدمی کی مشکلات میں اضافہ ہورہاہے اورڈپریشن اور ذہنی امراض کی شرح دن بہ دن بڑ رہی ہے ۔ حکومتی ترقی کے دعوے بے معنی اور بے سود نظر آتے ہیں طبقات پر مبنی وراثتی، وڈیرے، جاگیر دار اور سردار شہنشاہی جمہوریت سے عوام تک ،کیا دے پائے ہیں۔ ترقی ، جمہوریت اور ووٹ کے تقدس کی پامالی کا نعرہ لگاتے شرماتے بھی نہیں کہ خود آمروں کی گود میں پل کر جواں ہوئے ہیں۔ملک کے اندر ہوں یا باہر، دولت کے انبار، مجھے کیوں نکالاکی رٹ جیسے کسی بچے کو کثرت غیر حاضری پر سکول سے نکالاگیا ہو اور وہ منت و سماجت کر رہا ہوکہ مجھے کیوں نکالا؟۔ گزشتہ ستتر برسوں سے تماشہ لگا ہے عوام یہ سنتے آ رہے ہیں کہ ملک خطرے میں ہے، ہم حالت جنگ میں ہیں، خزانہ خالی ہے، اور ہمیں اقتدار میں رہنے کی ضروت ہے، یہی وہ جملے ہیں جو ہر آنے والا حاکم دہراتا ہے
معاشی تباہی!
