کالم

معرکہ حق و باطل میں ،حق ہمیشہ غالب رہتا ہے

riaz chu

ہمارے دوست، دانشور محترم منیر ابن رزمی کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ایک بہت بڑے خطیب ، معروف صحافی اور قادر الکلام شاعر ” آغا شورش کاشمیری ” نے ” سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ” کو ایک خط لکھاجس میں انھوں نے کہا ” مولانا! تاریخ انسانی میں ہمیشہ باطل کی فتح ہوئی ہے ! ! “۔مولانا مودودیؒ نے اس خط کے جواب میں جو لکھا ہے وہ پڑھنے کے لائق ہے:” حق کے متعلق یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ وہ بجائے خود ’حق‘ ہے، وہ ایسی مستقل اقدار کا نام ہے جو سراسر صحیح اور صادق ہیں۔ اگر تمام دنیا اس سے منحرف ہوجائے تب بھی وہ حق ہی ہے۔کیونکہ اس کا حق ہونا اس شرط سے مشروط نہیں ہے کہ دنیا اس کو مان لے ، دنیا کا ماننا نہ ماننا سرے سے حق و باطل کے فیصلے کا معیار ہی نہیں ہے۔ دنیا حق کو نہیں مانتی تو حق ناکام نہیں ہے بلکہ ناکام وہ دنیا ہے جس نے اسے نہ مانا اور باطل کو قبول کرلیا۔ ناکام وہ قوم ہوئی جس نے انھیں رد کر دیا اور باطل پرستوں کو اپنا رہنما بنایا۔اس میں شک نہیں کہ دنیا میں بات وہی چلتی ہے جسے لوگ بالعموم قبول کرلیں ، اور وہ بات نہیں چلتی جسے لوگ بالعموم رد کر دیں، لیکن لوگوں کا رد و قبول ہرگز حق و باطل کا معیار نہیں ہے۔ لوگوں کی اکثریت اگر اندھیروں میں بھٹکنا اور ٹھوکریں کھانا چاہتی ہے تو خوشی سے بھٹکے اور ٹھوکریں کھاتی رہے۔ ہمارا کام بہر حال اندھیروں میں چراغ جلانا ہی ہے، اور ہم مرتے دم تک یہی کام کرتے رہیں گے۔ ہم اس سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں کہ ہم بھٹکنے یا بھٹکانے والوں میں شامل ہو جائیں۔ خدا کا یہ احسان ہے کہ اس نے ہمیں اندھیروں میں چراغ جلانے کی توفیق بخشی۔ اس احسان کا شکر یہی ہے کہ ہم چراغ ہی جلاتے جلاتے مرجائیں۔ جناب رزمی کہتے ہیں کہ حق و باطل کے معرکے میں فتح ہمیشہ حق کی ہوتی ہے۔ حضرت امام حسین ؑنے حق کے لیے خاندان قربان کردیا مگر باطل کے سامنے سر نہیں جھکایا۔ اسوہ حسین ؑ پر عمل پیرا ہو کر ہی غلبہ دین کی منزل کو حاصل کیا جاسکتاہے۔ حضرت امام حسین ؑکی یہ قربانی نہ صرف مسلمانوں بلکہ پوری انسانیت کے لیے ہدایت اور رہنمائی کا سرچشمہ ہے۔ غیر سنجیدہ لوگ اقتدار پر مسلط ہوں تو عوام کی صدائیں کوئی نہیں سنتا۔اے مسلمانو! اللہ کی تقدیر کے مطابق معرکہ حق وباطل کی آگ کبھی تھمنے والی نہیں، ہدایت وگمراہی کی یہ جنگ کبھی ختم ہونے والی نہیں، کفر وایمان کا یہ مقابلہ کبھی نہیں رک سکتا، بلکہ یہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ زمین اور زمین میں جو کچھ ہے اس سب کا خود وارث نہ بن جائے۔یہ جنگ در اصل برائی کی تمام صورتوں اور شکلوں کے مقابلے میں خیر وبھلائی کی قوتوں کا اٹھ کھڑا ہوناہے۔ برائی کی شکلیں چاہے بہت مختلف ہوں، اس کے جھنڈے متعدد ہوں، اس کی تعداد زیادہ ہو، اس کا خطرہ بڑھ چکا ہو، بہر حال، اس کے مقابلے میں خیر وبھلائی اپنا کام کر دکھاتی ہے۔ اس لیے کہ یہ آج پیدا یا ظہور پذیر نہیں ہوئیں بلکہ تاریخ کے مختلف ادوار میں یکے بعد دیگرے آتی رہی ہیں۔ اللہ کی کتاب میں ان کا ذکر ہے، رب کریم ان کے متعلق ہمیں بتلاتا ہے، تاکہ عقل رکھنے والے عبرت حاصل کریں اور متقین ہدایت اور نصیحت اخذ کریں۔ ممتاز محقق ومصنف منیر ابن رزمی لکھتے ہیں کہ ازل سے باطل حق پر مختلف قسم کے حملے کرتا رہا ہے، لیکن اس کی چال بازی اور دھوکہ دہی کے تیروں میں سے شدید ترین حملہ، ایک شخص کو زندہ آگ میں پھینک دینا ہے لیکن اس کا یہ حملہ بھی کامیاب نہ ہو سکا اور اس میں بھی اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا اللہ تبارک وتعالیٰ نے واضح کر دیا کہ ہمیشہ کی زندگی اور فتح وکامیابی حق ہی کےلئے ہے جبکہ ناکامی اور مغلوبیت باطل کا نصیب ہے۔ اب ایک طرف آخری نبی اور رسولوں کے سردار سیدنا محمد ہیں اور دوسری طرف ابو جہل اور قریش کے سردار اور ان کے ساتھ قریش کے بد عمل حلیف ومددگار۔ جو اپنی کج فہمی اور بدبختی کی بنا پر یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھا دیں گے اور اس حق کا پھیلاﺅ روکنے میں کامیاب ہو جائیں گی جو ان کے گھروں تک جا پہنچا تھا۔تو دیکھئے کہ بالآخر اللہ کی تقدیر یہی تھی کہ دین غالب ہو جائے، دین کا لشکر کامیاب ہو جائے، ان کا دشمن ہلاک ہو جائے اور اس کی جڑ کٹ جائے۔ بالآخر ہمیں نبی اس مبارک حرم میں طواف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، اس گھر کے گرد رکھے بتوں کو توڑتے جاتے ہیں اور اپنے رب کریم کا قول پڑھتے جاتے ہیں :اور اعلان کر دو کہ "حق آ گیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے ہی والا ہے۔”(الاسراء)یوں اللہ کی تقدیر ہمیں نافذہوتی عیاں نظر آتی ہے۔
یہی حق وباطل کا معرکہ ہمیں آج کے دور میں بھی نظر آتا ہے۔ یہ جنگیں جو آج بر پا ہو رہی ہیں، یہ در اصل حق وباطل کے معرکہ کا ایک کڑا ہیں کیونکہ ان میں بھی ایک طرف حق نظر آتا ہے، جو اپنے دین اور اپنی مقدسات کی حفاظت کرنا چاہتا ہے، اپنی آزادی اور عزت وکرامت محفوظ رکھنا چاہتا ہے، جبکہ دوسری طرف باطل نظر آتا ہے جو غاصب، ظالم اور زیادتی کرنےوالا ہے، جو حرمتیں پامال کرنے والا ہے، جو مقدسات کو ناپاک کرنے والا ہے اور حد درجہ ظلم وستم کرنے والا ہے۔ اس کا ظلم وستم دیکھ کر تو زمین وآسمان بھی ہلنے لگے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے