اداریہ کالم

ملک محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہو سکتا

idaria

چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے ہفتے کی شب لاہور میں ایک بار پھر ایک بہت بڑا جلسہ عام کیا اور اپنے آئندہ کا لائحہ عمل عوام کے سامنے رکھا،اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ آج میں آپ کو بتاو¿ں گا کہ ہم نے اپنے ملک کو کس طرح دلدل سے نکالنا ہے جس میں ایک سازش کے تحت ہماری حکومت گرائی گئی تھی اور اس ملک کے بڑے بڑے جرائم پیشہ لوگوں کو ہم پر مسلط کیا گیا یہاں انہوں نے ایک بڑا سوال یہ بھی کیا کہ اگر کسی نے فیصلہ کیا ہوا ہے کہ عمران خان کو جیتنے نہیں دینا اور اقتدار میں نہیں آنے دینا،تو اقتدار میں نہ آنے دیں لیکن یہ بتائیں کیا آپ کے پاس ملک کو اس تباہی سے نکالنے کا کوئی پروگرام ہے، جو لوگ آج اقتدارمیں بیٹھے ہیں ان کو یہ پیغام جانا چاہیے کہ لوگوں کا جنون رکاوٹوں سے نہیں رک سکتا، کنٹینرز نہیں روک سکتے، آپ نے جلسہ ناکام بنانے کےلئے ہمارے دو ہزار کارکنوں کو جیل میں ڈال دیا لیکن جب اللہ لوگوں کے دلوں میں ایک سوچ ڈال دیتا ہے تو کوئی کنٹینر، کوئی پولیس اور کوئی رینجرز ان کو نہیں روک سکتی۔ چیئرمین تحریک انصاف نے پمجاب پولیس کے ہاتھوں اپنے قتل ہونے والے کارکن ظل شاہ کو بھی یاد کیا اور کہا کہ وہ ایک ملنگ اور خصوصی بچہ تھا، انہوں نے اس کو مارا ہو گا، پوسٹ مارٹم کے مطابق انہوں نے اس پر 26 جگہ تشدد کیا اور اس کے زخم سارے سوشل میڈیا پر عیاں تھے کسی آزاد ملک میں یہ نہیں ہو سکتا، یہ صرف غلام ملکوں میں ہوتا ہے۔ ہر دوسرے دن میرے اوپر ایک نیا کیس آجاتا ہے، قوم 50سال سے مجھے جانتی ہے، کیا قوم مانے گی کہ عمران خان دہشت گرد ہے، قتل کا کیس ہے، دہشت گردی کا کیس ہے، توہین مذہب کا کیس ہے، غداری کا کیس ہے، جو لوگ اس ملک سے پیسہ لوٹ کر باہر گئے وہ آج فیصلے کررہے ہیں۔ سابق وزیر اعظم نے کہا کہ جن لوگوں نے فوج کے خلاف امریکا کو میموگیٹ کا معاملہ کیا کہ ہمیں فوج سے بچا لو، وہ آج فیصلے کررہے ہیں، نواز شریف جس نے ڈان لیکس میں فوج کی شکایتیں بھارت کو کیں، وہ آج فیصلے کررہا ہے، عمران خان جس کا جینا مرنا پاکستان میں ہے ، جس کی باہر نہ کوئی جائیداد یا دولت ہے۔ انہوں نے پمجاب کے الیکشن کے التو بارے بھی تفصیل سے بات کی اورکہا کہ اب 30اپریل کا الیکشن ملتوی کردیا ہے، ملک میں جنگل کا قانون آ گیا ہے، جب آئین کہتا ہے کہ 90دن میں الیکشن ہونا ہے، جب سپریم کورٹ کہتا ہے کہ 30اپریل کو الیکشن ہونا ہے تو کس منہ سے الیکشن کمیشن نے کہا کہ اکتوبر میں الیکشن ہو گا، یہ کہتے ہیں ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں، الیکشن کمیشن مجھے یہ بتائے کہ ملک کا دیوالیہ نکلتا جا رہا ہے تو اکتوبر میں پیسے کیسے آئیں گے تو اس کا مطلب کبھی الیکشن ہوں گے ہی نہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ الیکشن سے بھاگو، آئین توڑنا پڑتا ہے تو توڑو، ایک ایجنڈا ہے کہ کسی طرح عمران خان الیکشن جیت کر نہ آجائے، اس کے لیے ہم عدالت میں جا چکے ہیں اور میں پاکستان کی تمام قانونی برادری سے اپیل کررہا ہوں کہ اگر آج آپ آئین کے ساتھ کھڑے نہ ہوئے، تو اس کے بعد ملک میں آئین ختم ہو جائے گا اور جو طاقتور چاہے گا وہی قانون ہو گا، تو پاکستانیوں ہمیں سپریم کورٹ اور پاکستان کے آئین کے ساتھ کھڑا ہونا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنے سارے پاکستانیوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ اگر ہم نے ابھی اس ملک کو نہ سنبھالا تو یہ سب کے ہاتھ سے نکل جائے گا، یہ الیکشن میں التوا، میرے گھر پر حملے اور گرفتاریوںکا ایک ہی مقصد ہے کہ ہم نے عمران خان کو اقتدار میں نہیں آنے دینا۔ چیئرمین تحریک انصاف نے اقتدار میں بیٹھے ہوئے لوگوں کوچیلنج کیا کہ جو لوگ اوپر بیٹھے ہیں نہ ان کے پاس کوئی اہلیت ہے، نہ ان کے پاس نیت ہے، ان سب کے پیسے تو باہر پڑے ہیں، تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہم جس تیزی سے نیچے جا رہے ہیں تو کیا یہ ملک کو سنبھال سکیں گے، یہ تو نہیں ہو گا تو کیا آپ کے پاس کوئی پروگرام ہے، اگر یہ کہیں گے کہ ہمارے پاس یہ پروگرام ہے اس لیے آپ کو نہیں آنا چاہیے تو میں کہوں گا کہ ٹھیک ہے کیونکہ میری سیاست تو ملک کےلئے ہے ۔ پاکستان جدھر آج پہنچ گیا ہے تو اس کو اس مشکل سے نکالنے کا کوئی آسان راستہ نہیں ہے، اب سارے مشکل فیصلے کرنے ہیں لیکن مشکل فیصلے وہ کر سکتا ہے جسکے پاس مینڈیٹ ہو کیونکہ جب ایک عوامی مینڈیٹ کی حامل حکومت پانچ سال کےلئے آئے گی تو ہی کاروباری برادری کو اعتماد آئے گا کہ سیاسی استحکام آ چکا ہے ۔ انہوں نے کچھ سخت فیصلوں کا اشارہ بھی دیا کہ پاکستان کو ٹھیک کرنے کےلئے اس کی سرجری کرنی پڑ گی، گورننس سسٹم ٹھیک کرنا پڑے گا، اس کے لیے قانون کی حکمرانی لانی پڑے گی، ملک کا ماحول ٹھیک کرنا پڑے گا، جس طرح سے ہم حکومت چلاتے ہیں یہ بالکل ٹھیک کرنا پڑے گا۔ ملک میں ڈالر درآمدات کے ذریعے لانے میں وقت لگے گا لیکن بیرون ملک پاکستانیوں کے ذریعے ملک میں فوراً پیسہ آ سکتا ہے ملکی معیشت کی بہتری اور ڈالر کا بہاو¿ یقینی بنانے کےلئے درآمدات، سیاحت، معدنیات، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں، زراعت کے فروغ کےساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ ٹیکس جمع کرنے کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ملک کو اس دلدل سے نکلنے کےلئے صاف اور شفاف الیکشن کے سوا کوئی پروگرام نہیں ہے، یہاں صاحب اقتدار لوگوں کے ذہن میں صرف ایک ہی بات ہے کہ عمران خان کو باہر کیسے رکھنا ہے۔ ہمارے پاس وقت کم ہے، انہوں نے کہا کہ ہم اپنی عدلیہ کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ قوم آپ کے ساتھ کھڑی ہے، آپ نے اس ملک کے آئین کی حفاظت کرنی ہے اور ہم ملک کو ایک عظیم قوم بنائیں گے۔عمران نے اپنے خطاب میں کئی اہم ایشو پر بات کی ملک سنجیدہ حلقوں کو ان پر غور کرنا ہو گا ملک کسی بھی طرح کی محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہو سکتا،ملک کے کئی حلقوں میں یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ اگر الیکشن کمیشن آف پاکستان کو متعلقہ فنڈز اور سکیورٹی دستیاب نہیں تھی، تو اس نے پہلے 30 اپریل کی تاریخ کیوں دی تھی۔ ہ تاریخ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے صلاح مشورے کے بعد ہی دی تھی۔اب انکار کے بعد اس تاثر کو ہوا مل رہی ہے کہ الیکشن کمیشن نے یہ فیصلہ حکومتی دبا و¿پر کیا ہے۔
سیلاب متاثرین، جنیوا وعدوں پر عمل درآمد میں تاخیر
پاکستان کو سیلاب متاثرین کیلئے جنیوا میں کیے گئے وعدوں پر عمل درآمد میں تاخیر کا سامنا ہے ۔ 3سال میں 10ارب ڈالر کی فنانسنگ کے وعدے کئے گئے تھے ، امسال ڈیڑھ ارب ڈالر ملنے کی توقع ہے تاہم ابھی تک ساڑھے 12 کروڑ ڈالر ملے ہیں۔پاکستان کو سیلاب متاثرین کے لیے جنیوا ڈونرز کانفرنس میں کیے گئے وعدوں پر عمل درآمد میں تاخیر کا حیران کن ہے۔ جنیوا کانفرنس میں پاکستان کے لیے بھاری فنانسنگ کاوعدہ تاحال پورا نہیں کیا جا رہا، حکومت کو اس آنے والے جون تک ایک سے ڈیڑھ ارب ڈالر حاصل ہونے کی توقع تو ہے تاہم تاخیر سے متعلقہ علاقوں زندگی تباہی کی جانب بڑھ رہی ہے، جنیوا میں ہونے والی ڈونرز کانفرنس میں پاکستان کا ساتھ دینے پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی عالمی رہنماوں کا شکریہ ادا کیا تھا ۔اب یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ انسانیت پر سیاسی الجھنوں میں نہ پڑیں اور پاکستان کی کی کھل کر امداد کے وعدوں پر عملدرآمد کر کے دکھائیں۔
گلگت بلتستان پولیس پرپابندی نا مناسب فیصلہ
وفاقی حکومت نے گلگت بلتستان پولیس پر صوبے سے باہر جانے پر پابندی لگا دی ہے، وزارت داخلہ کے مطابق اعلیٰ شخصیات کو صوبے سے باہر دورے پر متعلقہ صوبہ سکیورٹی فراہم کرے گا۔ اس فیصلے کو اچھی مثال نہیں کہا جا سکتا، وفاقی وزارت داخلہ نے گلگت بلتستان کے گورنر اور وزیراعلی کی سکیورٹی سے متعلق مقامی پولیس کے صوبے سے باہر جانے پر پابندی لگا دینا نامناسب فیصلہ ہے ،کہا گیا ہے کہ اب ان شخصیات کو صوبے سے باہر دورے پر متعلقہ صوبہ سکیورٹی فراہم کرے گا۔وفاقی حکومت کو اس پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے،جی بی ایک حساس علاقہ ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri