کالم

نپاہ وائرس۔۔۔

نپاہ وائرس خلیوں میں داخل ہو کر انسانی جسم کو اندر ہی اندر تباہ کرتا ہے۔ جب یہ وائرس کسی جسم میں داخل ہوتا ہے تو وہاں خاموشی سے ایک ایسا محاذ قائم کرتا ہے کہ انسان کو بسا اوقات دیر تک اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ کس خوفناک دشمن کے سامنے بے بس ہو چکا ہے۔ وائرس خون میں شامل ہو کر دماغ، سانس کے نظام اور جسم کے باقی حصوں پر اپنا قبضہ جمانا شروع کرتا ہے۔ اس کی رفتار بہت تیز نہیں ہوتی مگر اس کی تباہ کاری بہت شدید ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی صحت کے ادارے اسے انتہائی خطرناک وائرسوں میں شمار کرتے ہیں۔انسانی جسم جب اس وائرس سے متاثر ہوتا ہے تو ابتدا میں ہلکی بخار جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں اور یہ علامات عام لوگ اکثر موسمی بیماری سمجھ کر نظرانداز کر دیتے ہیں۔ جسم میں تھکاوٹ، کمزوری، شدید سر درد، پٹھوں میں درد، بھوک میں کمی اور بیچینی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ انسان جب ان ابتدائی علامات کو سمجھنے میں تاخیر کرتا ہے تو وائرس اپنا اگلا حملہ شروع کردیتا ہے۔ اس کے بعد دماغ کی سوزش، ذہنی الجھن، بے ربط گفتگو، نیند کا غیر معمولی غلبہ اور شدید کمزوری بڑھنے لگتی ہے۔ سانس کے مسئلے شروع ہونے پر مریض کی حالت تیزی سے خراب ہوتی جاتی ہے۔ بعض افراد میں یہ وائرس اتنا طاقتور ثابت ہوتا ہے کہ چند ہی دنوں میں حالت قابو سے باہر ہونے لگتی ہے اور مریض کے جاں بحق ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ یہی وہ مرحلہ ہے جہاں طبی ماہرین اسے نہایت مہلک قرار دیتے ہیں۔نپاہ وائرس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ یہ جسم کے مرکزی اعصابی نظام پر حملہ آور ہوتا ہے۔ دماغ کی سوزش ایک ایسی کیفیت ہے جس سے بچنا طبی دنیا میں ہمیشہ بڑا چیلنج سمجھا جاتا رہا ہے۔ جب دماغ متاثر ہوتا ہے تو انسانی جسم اپنی بنیادی حرکات پر بھی قابو کھونے لگتا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ سانس کا نظام متاثر ہونے سے مریض کو شدید کھانسی، سانس میں رکاوٹ اور آکسیجن کی سطح میں کمی کا سامنا ہوتا ہے۔ جن مریضوں میں علامات شدت اختیار کرلیں وہاں اکثر اوقات مکمل ہوش میں واپسی بھی ممکن نہیں رہتی۔ کچھ مریض زندگی تو بچا لیتے ہیں مگر طویل عرصے تک معذوری، کمزوری یا ذہنی مسائل کا سامنا کرتے رہتے ہیں۔ یوں یہ وائرس نہ صرف جان لیتا ہے بلکہ زندہ بچنے والوں کی زندگیوں میں بھی نہ ختم ہونے والی مشکلات چھوڑ جاتا ہے۔نپاہ کے پھیلا کا سب سے اہم ذریعہ مخصوص چمگادڑیں ہیں۔ یہ چمگادڑیں پھل کھانے کی عادی ہوتی ہیں اور جب یہ کسی پھل کو کاٹتی ہیں یا اس کی سطح پر اپنا لعاب چھوڑتی ہیں تو وہاں وائرس بھی موجود ہو سکتا ہے۔ انسان جب ایسے پھلوں کو بغیر دھوئے استعمال کرتا ہے تو وائرس آسانی سے جسم میں داخل ہو جاتا ہے۔ دوسرا بڑا ذریعہ بیمار جانوروں کی موجودگی ہے۔ کچھ ممالک میں خنزیر اس وائرس کا سبب بنے اور وہاں سے یہ انسانوں میں پھیلا۔ بعض اوقات انسان سے انسان میں بھی یہ وائرس منتقل ہوتا ہے۔یہ وائرس چونکہ فضا میں موجود نہیں رہتا اس لیے عام طور پر یہ صرف قریبی رابطے سے ہی پھیلتا ہے مگر پھیلنے کی رفتار کم ہونے کے باوجود نقصان کی شدت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اسی لیے دنیا بھر کی طبی ماہرین اس وائرس کو انتہائی خطرناک مانتی ہے چونکہ اس وائرس کا کوئی مخصوص علاج موجود نہیں اس لیے ڈاکٹر صرف علامات کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مریض کی سانس کی بحالی، دماغ کی سوزش میں کمی اور جسم کی قوت مدافعت بڑھانے جیسے اقدامات کیے جاتے ہیں۔ علاج میں تاخیر اکثر مہلک ثابت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بروقت تشخیص کو اس وائرس کے خلاف سب سے بڑا ہتھیار سمجھا جاتا ہے۔ اس وائرس سے محفوظ رہنے کے لیے روزمرہ زندگی کی چھوٹی چھوٹی احتیاطیں بہت بڑا کردار ادا کرتی ہیں۔ پھل ہمیشہ اچھی طرح دھو کر استعمال کیے جائیں، ایسے پھل جن پر کاٹنے کے نشان ہوں یا وہ گرے ہوئے ہوں انہیں استعمال نہ کیا جائے۔ کھلی جگہوں پر رکھے ہوئے رس یا خوراک سے اجتناب کیا جائے۔ جہاں چمگادڑوں کی موجودگی زیادہ ہو وہاں رات کے وقت ان کے نیچے سے گزرتے وقت احتیاط برتی جائے کیونکہ ان کا فضلہ یا تھوک بھی وائرس کے پھیلا کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ بیمار جانوروں کے قریب جانا یا انہیں چھونا، دودھ یا گوشت کو بغیر مکمل پکائے کھانا بھی بیماری کا سبب بن سکتا ہے۔ انسانی سطح پر بچا کے لیے ضروری ہے کہ کوئی بھی فرد اگر بخار، بیچینی، ذہنی الجھن یا سانس میں تکلیف محسوس کرے تو فوری طور پر طبی معائنہ کرے دنیا میں کوئی بھی وبا محض حادثہ نہیں ہوتا بلکہ اس کے پیچھے ہمیشہ انسانی عادات، ماحول اور فطرت کا ایک خاص رشتہ ہوتا ہے۔ انسان جب فطرت میں موجود مخلوقات کے مسکن کو متاثر کرتا ہے تو ان کے ساتھ تعلق بھی غیر متوازن ہونے لگتا ہے اور یہی عدم توازن وائرسز کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ چمگادڑیں قدرت کا حصہ ہیں اور ان کا وجود ہمیشہ سے ہے مگر جب انسان اپنی سرگرمیوں سے ان کے ماحول میں بے جا مداخلت کرتا ہے تو بیماریوں کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اسی طرح صاف پانی، صاف خوراک اور صفائی کے اصولوں پر سمجھوتہ کرنے سے وائرسوں کو تقویت ملتی صحت کی اہمیت اجتماعی شعور کا نام ہے۔ اس شعور میں گھر کی صفائی، ہاتھ دھونے کی عادت، خوراک کے استعمال کے طریقے، جانوروں سے تعلق، ماحولیات کی حفاظت اور سماجی رویے سب شامل ہیں۔ انسان اگر روزمرہ زندگی میں معمولی سی بھی احتیاط اختیار کرلے تو بڑی سے بڑی وبا کا پھیلا روکا جا سکتا دنیا بھر میں نپاہ کی وجہ سے کئی ہلاکتیں ہوئیں، کئی خاندان اجڑے۔ بیماری کبھی دروازہ کھٹکھٹا کر نہیں آتی، وہ خاموشی سے داخل ہوتی ہے اور صرف انہی لوگوں کو محفوظ چھوڑ جاتی ہے جو احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ صفائی، صحت کا خیال، ماحول کا تحفظ اور مستند طبی مشورہ زندگی کی بقا کے بنیادی اصول ہیں۔ نپاہ کے بارے میں یہ حقیقت نہایت اہم ہے کہ اس کا پھیلا روکنا ممکن ہے، بس انسان کو اپنی زندگی میں ذمہ داری پیدا کرنا ہوگی۔ ہر فرد کو یہ سمجھنا ہوگا کہ بیماریوں کے خلاف لڑائی میں سب کا کردار اہم ہے۔ صفائی کا خیال رکھنا زندگی کی ضمانت نپاہ کا وجود ایک تلخ حقیقت ہے مگر اس حقیقت سے ڈرنے کے بجائے اس کا مقابلہ علم، آگاہی، احتیاط اور ذمہ داری سے کیا جا سکتا ہے۔ زندگی کی حفاظت صرف دواں سے نہیں ہوتی، یہ شعور سے ہوتی ہے۔ وہ قومیں جو احتیاط کو عادت بنا لیتی ہیں، صفائی کو تہذیب بنا لیتی ہیں اور صحت کے اصولوں کو اولین ترجیح دیتی ہیں، وہی دنیا کی بڑی بیماریوں کے سامنے مضبوطی سے کھڑی رہتی صحت کسی فرد کا ذاتی مسئلہ نہیں بلکہ پوری انسانیت کا مشترکہ اثاثہ ہے۔ اگر معاشرہ صحت کو اپنی ترجیح بنا لے تو نپاہ جیسے وائرس بھی بے بس ہو جاتے ہیں۔ انسان اپنے ماحول، خوراک، پانی کو محفوظ رکھے اور اپنے رویوں کو ذمہ دار بنائے۔ زندگی کی جنگ صرف ہسپتالوں میں نہیں لڑی جاتی، یہ جنگ گھروں، گلیوں، بازاروں، دفاتر، کھیتوں اور سکولوں میں بھی جاری رہتی ہے۔ جو معاشرے اس جنگ کا شعور رکھتے ہیں وہ وائرسوں سے نہیں ڈرتے کیونکہ احتیاط ان کا محافظ ہوتی ہے۔ فطرت کے قریب زندگی گزارو، صفائی کو اپنا، خوراک کو محفوظ رکھو اور بیماری کی ابتدائی علامات کو کبھی معمولی نہ سمجھو۔ یہی وہ راستہ ہے جو انسان کو ایک محفوظ، صحت مند اور پرسکون زندگی کی طرف لے جاتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے