Site icon Daily Pakistan

وزیراعظم کا قیام امن کےلئے تنازعہ کشمیر کے حل پر زور

وزیراعظم شہباز شریف نے اقوام متحدہ میں اپنے پہلے خطاب کے بعد امریکی میڈیا سے بات چیت میں بھارت کو امن کے ساتھ رہنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ لیکن سلگتا مسئلہ کشمیر پرامن مذاکرات کے ذریعے حل کیے بغیر امن قائم نہیں ہوسکتا۔ امریکی خبرایجنسی کو انٹرویو میں وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ بھارت ایک ہمسایہ ہے، پاکستان ایک پرامن ہمسایہ کی طرح بھارت کے ساتھ رہنا چاہتا ہے۔ ہمیں اچھا لگے یا نہیں ہم ہمیشہ کے لیے پڑوسی ہیں لیکن چند مخصوص مسائل ہیں، دہکتا مسئلہ کشمیر پرامن مذاکرات سے حل ہونا چاہیے۔وزیراعظم نے کہا کہ جب تک ہم پرامن ہمسائیوں کی طرح مذاکرات کی میز پر تبادلہ خیال نہیں کریں گے تو ہم کبھی امن قائم نہیں کرپائیں گے جو شرم ناک ہے کیونکہ اس وقت ہمیں اپنے عوام کو خوراک، روزگار، صحت کے مواقع اور تعلیم دینے کےلئے وسائل کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ نہ تو بھارت اور نہ ہی پاکستان اسلحہ اور دفاعی آلات خریدنے کا متحمل ہوسکتا ہے۔خطے دوسرے اہم ترین ایشو افغانستان پر بھی انہوں پاکستان کے موقف کو واضح کیا۔میزبان نے پوچھا کہ افغان حکمران طالبان کو تسلیم کرنے اور دیگر اقدامات کے لیے امریکا کو کیا تجویز دیں گے تو وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان کے عوام کی بہبود کے لیے افغانستان میں امن اور ترقی یقینی بنانے کے لیے یہ ایک سنہری موقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ توقع ہے افغانستان کی عبوری حکومت دوحہ معاہدے پر مکمل عمل کرے گی اور وہ افغانستان کے عوام کے لیے برابری کے ساتھ مواقع فراہم کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سب کے لیے افغانستان کے عوام کے تمام اثاثے بحال ہونے چاہئیں، دنیا کو افغانستان کے عوام پر اعتماد کرنا چاہیے کہ وہ درست سمت پر گامزن ہوں گے۔پاک امریکا تعلقات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ پاکستان امریکا کے ساتھ اچھے اورپرجوش تعلقات چاہتا ہے۔ گزشتہ حکومت نے اس سلسلہ میں جو کچھ کیا وہ سب غیرضروری تھا اور یہ پاکستان کے خودمختار مفادات کیلئے نقصان دہ تھا ۔پاکستان میں سیلاب کی صورتحال کے پس منظر میںبتایا کہ میرے ملک کے عوام کو خراب صورت حال کا سامنا ہے 3 کروڑ 30 لاکھ لوگ براہ راست متاثر ہوئے اور سیکڑوں بچوں سمیت 1500 سے زائد افراد جاں بحق ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہماری غلطی نہیں ہے، یہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے بحران ہے، جن کے پاس وسائل اور صلاحیت ہے ان کو ہماری مدد، ریسکیو اور بحالی کی کوشش میں تعاون کے لیے آگے آنا چاہیے، جو بہت ضروری ہے۔ اقوام متحدہ اور دنیا کو بتایا ہے کہ موسمی اثرات کی وجہ سے جن سیلابی تباہ کاریوں کا پاکستان کو سامنا ہے کل یہ سانحہ کسی اور ملک کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جنرل اسمبلی میں شریک عالمی رہنماو¿ں پر زور دیا ہے کہ وہ اپنی آنے والی نسلوں کی حفاظت کےلئے لچک دار انفراسٹرکچر اور موافقت کےلئے ایک ساتھ کھڑے ہوں اور اسکے لیے وسائل اکٹھے کریں۔ وزیراعظم نے زمینی حقائق سے پردہ اُٹھاتے ہوئے واضح کیا کہ پاکستان پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات بہت زیادہ ہیں، سینکڑوں بچوں سمیت 1600 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے، چالیس لاکھ ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئیں، لاکھوں مکانوں کو نقصان پہنچا، ان کی زندگی کی جمع پونجی ختم ہوگئی، ہزاروں کلومیٹر سڑکیں تباہ ہوگئیں، ریلوے پل، ریلوے ٹریک، مواصلات کا نظام درہم برہم ہوگیا۔ اس سب کی بحالی کیلئے فنڈز درکار ہیں۔ پاکستان عالمی حدت کا سبب بننے والے عالمی حدت کا ایک فیصد سے بھی کم اخراج کا ذمہ دار ہے۔ایک سوال کے جواب میں شہباز شریف نے کہا کہ جون کے وسط میں سیلاب شروع ہونے سے پہلے پاکستان میں اناج کی قلت اور خام تیل کی آسمان کو چھوتی قیمتوں کی وجہ سے شدید چیلنجز کا سامنا تھا جو بنیادی طور پر روس یوکرین تنازع کی وجہ سے ہواتھا۔ آسمان کو چھوتی تیل کی قیمتوں کی وجہ سے اس کی درآمد ہماری استعداد سے باہر ہوگئی تھی، بڑے پیمانے پر سیلاب سے ہونے والی تباہی نے ان چیلنجز کو مزید بڑھا دیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ دنیا بھر سے ملنے والی امدادکو انتہائی مضبوط اور شفاف طریقہ کار کے تحت ضرورت مند لوگوں تک پہنچایا جائے گا ۔انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ اور ورلڈ بنک کے اعلی حکام سے ملاقات میں سیلاب کی صورتحال بہتر ہونے تک پاکستان کے ذمہ واجب الادا قرضوں کی ادائیگی اور دیگر شرائط کو موخر کرنے کی اپیل کی۔ اس کے پاکستان کی معیشت اورعوام پر اچھے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ اس ضمن میں وہ بہت معاون لگ رہے تھے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ زرعی زمین کی تباہی کی وجہ سے پاکستان کو تقریباً دس لاکھ ٹن گندم درآمد کرنا پڑ سکتی ہے۔ ملک کو کھاد کی ضرورت ہے کیونکہ کارخانے بند ہیں۔ پاکستان جس طرح بین الاقوامی کلاےمٹ کا شکا رہوا ہے ،اور اس کے نتیجے میں جس وسیع پیمانے پر تباہی کا شکار ہوا ہے،بین الاقوامی برادری کو اس کا احساس ہونا چاہیے بلکہ ذمہ داری بھی اٹھانی چاہئے ،ترقی پذیر ممالک کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ “کرے کوئی اور بھرے کوئی“ کے مصداق تباہیوں کا سامنا کریں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا فکر انگیز خطاب
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے نویں انٹرنیشنل جوڈیشل کانفرنس کے اختتامی سیشن کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے نہایت فکرانگیز انداز میں اہم ایشو پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے احترام ہی سے ملک آگے بڑھ سکتا ہے،خواتین کو ایگزیکٹیو،مقننہ اور عدلیہ کی فیصلہ سازی میں شامل کرنا ضروری ہے، مشترکہ کوششوں سے پاکستان میں قانون کی حکمرانی یقینی بنائی جا سکتی ہے،خوشحال پاکستان کیلئے ضروری ہے کہ عدلیہ تک ملک کے تمام طبقات کی مساوی رسائی ہو ، انہوںنے اپنے خطاب میں واضح کیا کہ عدالت محروم طبقات کے حقوق کے تحفظ کیلئے پرعزم ہے، حکومتوں اور عدلیہ کوتنازعات کا متبادل نظام( اے ڈی آر)اختیار کرنا ہو گا، پولیس اور پراسکیوشن کو اپنی کارکردگی اور باہمی تعاون کو بھی بہتر بنانا ہو گا،ان کا کہنا تھا کہ نظام انصاف کی بہتری کیلئے عدلیہ اور بارایسوسی ایشنز کو بھی اپنا قانونی علم بہتر کرنا ہو گا، خواتین ہماری آبادی کا پچاس فیصد ہے جنہیں فیصلہ سازی میں شامل کرنا ہو گا، آبادی میں اضافہ، موسمیاتی تبدیلی سمیت مسائل کا حل ضروری ہے، ایک ترقی یافتہ پاکستان کےلئے قانون کی حکمرانی ہی اصل حل ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ تنازعات کے حل کے متبادل نظام کیلئے قانون سازی ضروری ہے، عوام کو عدالتوں میں آنے کی بجائے ثالثی کے نظام سے رجوع کرنے کی آگاہی دی جانی چاہیے،عدالتوں میں غیر ضروری مقدمات کی وجہ سے مقدمات کا بوجھ بڑھ رہا ہے۔چیف جسٹس آف پاکستان عدلیہ کو درپیش بنیادی چیلنجز کو نہایت مفصل اور سراحت کے ساتھ بیان کیا ،ان کا یہ خطاب ایک طرح کی گائیڈ لائن بھی اور حکومت کو مشورہ بھی کہ حکومتوں اور عدلیہ کوتنازعات کا متبادل نظام اختیار کرنا ہو گا۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارا نظام عدل سیاسی تنازعات کے غیر ضروری بوجھ کے تلے دبا ہوا ہے لیکن خوش آئند امر یہ ہے کہ اس کی قیادت اسے حل کرنے کے لئے پوری طرح پر عزم ہے۔

Exit mobile version