پاکستان میں وسائل کی کمی سے ہم اربوں ڈالر کا نقصان کررہے ابھی ملک میں سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں جو پانی ہماری لیے وبال جان بنا ہوا ہے اگر اس کو محفوظ بنانے کے لیے ڈیم بنائے ہوتے تو ہم آج امداد کے لیے دوسروں کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے نہ دیکھ رہے ہوتے گذشتہ روز وفاقی وزیر برائے آبی وسائل سید خورشید احمد شاہ نے لاہور چیمبر آف کامرس میںتاجروں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں ہر سال 10 سے 15 ارب ڈالر کا پانی ضائع ہورہاہے جب کہ ہم 2 ارب ڈالر کی امداد کے لیے دنیا کی طرف دیکھتے ہیں پاکستان میں پانی کی کپیسٹی 140 ملین ایکڑ فٹ ہے لیکن ذخیرہ کرنے کی گنجائش صرف 13 ملین ایکڑ فٹ ہے سیاست دانوں نے کہا کہ ڈیم ان کی لاشوں پر بنائیں گے آج ان کے پاس 1200 سے زائد لاشیں ہیں اس لیے مزید تاخیر کیے بغیر ڈیم بنائے جائیں سیلاب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید تباہ کن ہوتا جارہا ہے پہلے سیلاب اور بعد میں خشک سالی ملک کے ساتھ تباہی مچاتی ہے ایران مصنوعی جھیلوں کے زریعے سے پانی بچا رہا ہے جبکہ ہم اسے سمندر میں ضائع کر رہے ہیںخورشید شاہ نے درست کہا ہے کہ ہم ڈیم نہ بنا کر اربوں ڈالر کا نہ صرف نقصان کررہے ہیں بلکہ دن بدن موت کے منہ میں بھی جارہے ہیں زرعی ملک ہونے کے باوجود گندم پوری نہیں ہوتی ہر چیز کے لیے ہم دوسروں کے مرہونمنت ہیں درآمدات میں آئے روز اضافہ ہورہا ہے اور اس میںکمی کے بغیر معاشی استحکام ناگزیر ہے پاکستان کا تجارتی خسارہ 17فیصد اضافے سے مالی سال 2021-22میں 48.38ارب ڈالر تک پہنچ گیا جبکہ گزشتہ مالی سال 5.5 ٹریلین روپے کا ریکارڈ بجٹ خسارہ ہوا تھاغیر ملکی سرمایہ کاری میں 61 فیصد کمی واقع ہوئی ،۔ویلتھ پاک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے بڑے معاشی مسائل اس کے بڑھتے ہوئے درآمدی بل سے پیدا ہوئے ہیں اور موجودہ اقتصادی ڈھانچے کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے جو اچھی طرح سے کام نہیں کر رہا ہے ترقی کی راہ میں دوسری سب سے اہم رکاوٹ افرادی قوت کو ہنر مند بنانے میں کم سرمایہ کاری ہے پاکستان میں انسانی وسائل میں ترقی حوصلہ افزا نہیں ہے مفیدمعاشرہ اپنے لوگوں کی مہارتوں، تعلیم اور پیداواری صلاحیتوں کو بڑھاتا ہے اقوام متحدہ کے انسانی ترقی کے انڈیکس ایچ ڈی آئی 2020 میں پاکستان 189 ممالک میں 154 ویں نمبر پر ہے ہمارا تیسرا سب سے اہم مسئلہ مالی خسارہ ہے جس کے تحت حکومت کے اخراجات ایک سال میں اس کی آمدنی سے زیادہ ہو جاتے ہیں پاکستان نے گزشتہ مالی سال 2022 میں تقریبا 5.5 ٹریلین روپے کا ریکارڈ وفاقی بجٹ خسارہ درج کیا جو غلط مالیاتی پالیسیوں کا نتیجہ ہے اور سالانہ ہدف سے 1.1 ٹریلین روپے زیادہ ہے مالیاتی نظم و ضبط پر سختی سے عمل کرنے کی ضرورت ہے اور تمام اضافی اخراجات کی مالی اعانت مکمل طور پر ٹیکس اقدامات سے کی جانی چاہیے پاکستان میں معاشی غیر یقینی صورتحال نے مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے اعتماد کوبھی ٹھیس پہنچائی ہے موجودہ حالات میں سرمایہ کاراور تاجر برادری اپنی سرمایہ کاری ملک سے نکال رہے ہیں اسٹیٹ بینک کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق 2021-22 میں پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں سال بہ سال 61 فیصد کمی واقع ہوئی ہے اس وقت ہمیں بڑے معاشی چیلنجز میں بھاری بیرونی اور ملکی قرضہ جات، رقم کا بڑے پیمانے پر اخراج، بڑھتی ہوئی غربت ،بے روزگاری، بلند مالیاتی خسارہ اور کم سرمایہ کاری ہیں حکومت کو ان معاملات پر توجہ دینی چاہیے اب چونکہ ہمارے آئی ایم ایف سے بھی معاملات طے پاچکے ہیں جسکے بعد حکومت کی اولین ترجیح مہنگائی میں کمی ہونی چائیے کیونکہ گزشتہ چار ماہ سے مہنگائی حیران کن رفتار سے بڑھ رہی ہے جس نے عوام کی کمر توڑ ڈالی ہے اورپاکستان میں مہنگائی کا پچاس سالہ ریکارڈ ٹوٹ چکا ہے اور اگر اس سلسلہ کے آگے بند نہ باندھا گیا تو مہنگائی کے نئے ریکارڈ قائم ہو جائیں گے صرف سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ٹرانسپورٹ 63 فیصد، غذا 31 فیصد، کرائے اور بل 27.6 فیصد، ملبوسات وغیرہ 17.6 فیصد، تعلیم 10 فیصد اور صحت کی سہولیات 11.8 فیصد مہنگی ہو چکی ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان میں اوسط افراط زر 19.9 فیصد رہے گا جبکہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق یہ 18 سے 20 فیصد کے درمیان رہے گا آئی ایم ایف اور مرکزی بینک کے اندازے اپنی جگہ مگر کاروباری برادری کے تخمینہ کے مطابق افراط زر کم ازکم 25 فیصد رہے گااور کروڑوں افراد کے لئے دو وقت کے کھانے کا انتظام کرنا ایک چیلنج ہو گا گزشتہ کئی سال سے مہنگائی کی وجہ سے عوام کا معیار زندگی مسلسل گر رہا ہے اور وہ ریلیف کے منتظر ہیں جس کے صرف وعدے کئے جا رہے ہیں تعلیم کے شعبہ میں ہم بہت پیچھے تو پہلے ہی تھے اب سیلاب ہمارے کمزور سرکاری تعلیمی نظام کو بھی بہا کر لے گیا ہے ہزاروں سکول صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں جس سے لاکھوں بچے تعلیم سے محروم ہو سکتے ہیں اور اگر مہنگائی کم نہ ہوئی تو بہت سے والدین اپنے بچوں کو پڑھانے کی بجائے کمانے پر لگا دینگے جو ملک کے مستقبل کے لئے انتہائی خطرناک ہو گا باقی صوبوں کی نسبت پنجاب میں تعلیم کا نظام پھر بھی کچھ بہتر ہے وزیر اعلی چوہدری پرویز الہی نے گریجویشن تک تعلیم مفت کررکھی ہے باقی صوبوں کو بھی اب ایسا ہی کرنا چاہیے ہمارا ماضی کوئی انتا خوشگوار نہیں ہے جہالت اور بے روزگاری نے ہمیں ڈیم بنانے سے روکا سکول بنانے سے روکا جو پڑھ گئے وہ بھی ذہنی طور پر مزدور ہی رہے خدارا تعلیم کو مفت اور عام کردیں کیونکہ یہی ہماری ترقی کا راستہ ہے ۔