کالم

وفاقی حکومت اور فوج میدان عمل میں؟

حکومت اور پاک فوج ایک بار پھر سینہ سپر ہونے چلے ہیں کہ بس بہت ہوچکا۔اب دہشت گردوں کے لئے پاکستان میں کوئی جگہ نہیں،دہشتگردوں کے لئے اب کہیں جائے اماں اور قرار نہیں کہ ان کا سر اب شدت سے کچل دیا جائے گا۔پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادتیں سر جوڑ کر بیٹھی ہیں کہ اب کی بار دہشت گردوں کا شیرازہ جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے گا۔حالیہ دنوں میں قومی سلامتی اور وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیر اعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا یکسو ہو کر غورو فکر کرنا بتاتا ہے اب جرائم پیشہ جھتوں اور جنگجو جیشوں کی خیر نہیں۔
پاکستان کو دو عشروں سے ہی دہشت گری کا سامنا ہے۔اریب قریب بیس سالوں کے دوران فوج نے دہشت گردی ختم کرنے کے لئے جو قربانیاں دی ہیں،وہ عظیم الشان اور لازوال ہیں۔رہتی دنیا تک پاک فوج کی جرات و جوانمردی کے فسانے سنائے جاتے رہیں گے،فوجی جوانوں کی دلیری اور بہادری کے ترانے گائے جاتے رہیں گے کہ ماں کے سپوتوں نے دھرتی سے دشمن کو بچانے کےلئے بے دریغ اپنی جانیں قربان کر ڈالیں۔آپریشن ضرب عضب ہو یا آپریشن ردالفساد،نواز شریف وزیر اعظم ہو جنرل راحیل شریف آرمی چیف ،شہباز شریف ہوں یا جنرل عاصم منیر ان سب کی تمام تر محنت و جرات اور شجاعت وحشمت کا مقصد پاکستان کو جنگجو جتھوں سے پاک کرنا ہی رہا ہے۔طالبان نے جنگ بندی کے بعد جو خون ریز اور سفاک کاروائیاں کی ہیں،جس طرح قبائلی علاقوں میں خون بہایا اور جنگ وجدل کی ہے اس کے مدنظر ضروری ہو گیا ہے کہ حکومت اور فوج اپنی رٹ قائم کرے۔
وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں دہشت گردوں کو پاکستان کا دشمن قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے پاکستان کو للکارنے والوں کو پوری قوت سے جواب دیا جائے گا اور پاکستان کے قومی مفادات پر کوئی آنچ نہیں آنے دی جائے گی۔قومی سلامتی کمیٹی نے اپنے اعلامیے میں کہا ہے انٹیلی جنس اداروں نے ملک میں امن و امان کی مجموعی صورت حال پر بریفنگ دی ہے اور دہشت گردی کی حالیہ لہر سے متعلق عوامل اور ان کے سدباب کے اقدامات سے حکومتی عمائدین کوآگاہ کیا ہے۔پاکستان کی بقا، سلامتی اور ترقی کے بنیادی مفادات کا نہایت مستقل مزاجی اور ثابت قدمی سے تحفظ کیا جائے گا۔
آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے نیول اکیڈمی کراچی میں کمیشن پاسنگ آوٹ پریڈ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا خوب کہا کہ معیشت اور دہشت گردی کے چینلجز سے نمٹنے کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز میں قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔پاکستان اپنے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے اور اس کے لیے قومی اتفاق رائے سےان چینلجز کا مقابلہ کیا جائے گا۔جنرل عاصم منیر نے بلند آہنگ دہرایا کہ امن کے دشمنوں اور ملکی سلامتی کے مخالفوں سے کوئی رعایت نہیں برتی جائے گا۔فوج ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لئے تما م دشمنوں سے بے رحمیکے ساتھ نبٹے گی۔انہوں نے پختونخوا اور خصوصا قبائلی علاقوں میں دہشت گردانہ کارروائیوں کے ضمن میں کہا شر پسندوں اور دہشتگرودوں کےلئے پرامن پاکستان میں کوئی جگہ نہیں بچے گی۔
حکومت اورکالعدم تنظیم تحریک طالبان کے درمیان مذاکرات کی معطلی اور پھر جنگ بندی کے خاتمے کے بعد شدت پسندوں کی جانب سے گذشتہ ایک ماہ میں60 سے زیادہ حملے کیے گئے، ان میں 70 سے زیادہ افراد جاں بحق ہوئے ہیں اور ان میں سے بیشتر پولیس اور سکیورٹی اہلکار تھے۔اصل میں یہ پختونخوا کی صوبائی حکومت کی ناکامی ہے کہ وہ اپنا فرض ادا کرنے میں ناکام رہی ہے۔بلکہ اس صوبائی حکومت کے کئی وزیر اور مشیر تو باقاعدہ طور پر دہشت گردوں کو بھتہ دیتے آئے ہیں جس کی قومی پریس تک میں مذمت کی گئی ہے۔پختونخوا کی صوبائی حکومت دہشت گردی تو کیا ختم کرتی الٹا اس نے جنگجو جرائم پیشہ افراد کے ساتھ سمجھوتے کئے ہیں۔وہاں کی اپنی عوام کو صوبائی حکام نے دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔سوات،مٹہ،پشاور،چترال اور دیگر علاقوں میں وہاں کے عوام نے دہشت گردوں اور صوبائی حکومت کے خلاف مظاہرے کئے ہیں۔اسی وجہ سے وفاقی حکومت اور فوج کو آپریشن کرنے کا سخت اور کڑا فیصلہ کرنا پڑا۔
دہشت گردوں نے اس لئے بھی سر اٹھایا ہے کہ پختونخوا کی حکومت کو عمران خان کے ناز و نخرے اٹھانے اور سیاسی مخالفوں کو گالیاں دینے سے فرصت نہیں۔ادھر عمران خان بھی کاغذی شیر بنے ہوئے ہیں۔وہ لفظوں کے تیر برساتے اور انگارے اگلتے ہیں۔ان کی زبان اور شر پسندی سے اور تو اور فوج تک محفوظ نہیں۔انہوں نے وتیرہ بنا لیا ہے کہ فوج کے خلاف محاذ آرائی کریں اور اپنے پی ٹی آئی کے کارکنوں کو گمراہ کریں۔وہ ہر روز پرانے قصے کہانیاں سناتے ہیں کہ ہائے ہائے فوج سیاسی میدان میں نیوٹرل کیوں ہو گئی۔انہیں آج تک تحریک عدم اعتماد کا زخم نہیں بھولا ،حالانکہ وہ ایک خالصتا آئینی اقدام تھا جس کے نتیجے میں انہیں گھر بھیجا گیا۔پختونخوا میں آٹھ سال ہونے کو آئے ہیں کہ وہ وہاں حکمران ہیں،مگر مجال ہے انہوں نے دہشت گردوں کے خلاف کو ئی موثر و مجرب آپریشن کیا ہو۔وہاں کی عوام کے جان ومال کی حفاظت اور دشمنوں کا قلع قمع کرنے کے باب میں ان کی جیب اور جھولی خالی ہے۔ان کی بس باتیں ہی تھیں جس وجہ سے اب وفاقی حکومت اور فوج میدان عمل میں رزم آرا ہوئی ہے ۔اب وہ دن دور نہیں جس دن دہشت گرد اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے