ملکی معیشت کا جو حال ہو چکا ہے ،اس پہ سنجیدہ حلقوں کے علاوہ عام آدمی بھی پریشان اور دلگرفتہ ہے،یہ سابق حکومت کی مایوس کن کارکردگی کا ہی نتیجہ ہے کہ مہنگائی کا سونامی ہر چیز کو ہڑپ کرتا جا رہا ہے ،روز کھانے پینے کی بنیادی اشیاءکی قیمتیں عام آدمی کی زندگی اجیرن اور پالیسی سازوں کا منہ چڑا رہی ہوتی ہیں۔آٹا دال گھی کی قیمتوں کے بعد 90روپے والی چینی کی قیمت بے لگام ہو چکی ہے ۔ کئی شہروں میں ڈبل سنچری ہو چکی ہے یعنی 200روپے کلو تک بازار میں بک رہی ہے ،شوگر مل مالکان کا ایک بھاری نیٹ ورک چونکہ سیاست میں جڑ پکڑ چکا ہے لہٰذا ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ وہ اسی صورت کرتے ہیں کہ جب چاہتے ہیں وہ امپورٹ ایکسپورٹ کی راہ کھول کر بحران پیدا کر دیتے ہیں،سابق شہباز حکومت میں چینی مافیا کے دباو¿ پر چینی برآمد کرنے کی متفقہ اجازت دی گئی اور اب درآمد کی راہ کھولی جا رہی ہے،اس طریقہ واردات کا ہر زاویئے سے فائدہ یہ شوگر مل مالکان کا گروہ¿ سیاست کاراں ہی اٹھا رہا ہے۔ان سب کو پتا تھا کہ چند ماہ بعد الیکشن لڑنا ہے جس پر اربوں روپے خرچ ہونگے تو ان اخراجات کا پیشگی بندوبست کر لیا جائے ۔بس یوں عوام کی کھال ادھیڑی جا رہی ہے۔اس گٹھ جوڑ کا تدارک ناممکن ہے،حکومت بڑھتے نرخ روکنے میں ناکام ہی رہے گی کیونکہ سب کے مفادات مشترکہ ہیں۔ مہنگائی نے پریشان حال عوام کی چیخیں نکال دی ہیں۔ حکومت کے دکھاوے کے اعلانات اور نوٹسز منافع خوروں کو لگام نہ ڈال سکے اورنہ ڈال سکیں گے۔ اب سابق حکومت کی دو بڑی سیاسی اتحادی جماعتیں آپس میں الجھ رہی ہیں،ایک دوسرے پر مدعا ڈال رہی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ دونوں ہی عوام کے مجرم ہیں۔تفصیل اس وبال کی یہ ہے کہ ملک طول ارض میں ہائے مہنگائی ہائے مہنگائی کی دوہائی ہے،یہ دوہائی اگر عوام تک پوری طرح عیاں نہیں ہو رہی تو اس میں الیکٹرانک میڈیا بھی شریک جرم ہے،جس کی زباں بندی پر پوری توجہ دی جا رہی ہے۔اب ذرا جائزہ لیتے ہیں کہ کہاں کہاںکیا لٹ مار مچی ہے۔ کوئٹہ میں چینی کی 205روپے فی کلو ہوگئی جبکہ ایک ہفتے کے دوران کوئٹہ میں چینی کی فی کلو قیمت میں 35 روپے کا اضافہ ہوچکا ہے۔ کراچی میں چینی کی قیمتوں میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے، اور ہول سیل مارکیٹ میں چینی کی قیمت 178روپے کلو جبکہ ریٹیل مارکیٹ میں 185روپے کلو تک پہنچ گئی ہے۔پشاور میں بھی چینی کی قیمتوں میں غیرمعمولی اضافہ دیکھا گیا ہے، پشاور کی عام مارکیٹوں میں 100روپے فی کلو ملنے والی چینی اب 200روپے میں فروخت ہونے لگی ہے۔پی ڈی ایم حکومت نے ہی چینی کی برآمد کی اجازت دی تھی، اب سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ملک میں چینی کے وافر ذخائر ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور چینی کی قیمت میں اضافے کی وجہ ناقص گورننس اور بے ایمان کاروباری طریقوں کو قرار دیا ہے لیکن اپنی نااہلی کی بات نہیں کر رہے ۔ دوسری جانب مہنگائی کی چکی میں پسنے والے عوام بے بس ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ دو وقت کی روٹی پانی کے اخراجات کو پورا کرنا دشوار ہوگیا ہے جبکہ اوپر سے بجلی بلوں کی شکل میں جو بم گرایا گیا ہے وہ بھی عوام کو زندہ درگور کرنا ہے ۔ گلی محلوں اور بازاروں میں سبزیوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں ۔ ادھر 20کلو آٹے کا تھیلا 2800کا ہوگیا ہے جبکہ ماش کی دال 600روپے تک جا پہنچی ہے۔ اتوار بازاروں میں بھی اشیائے خورد و نوش کی زیادہ قیمتوں نے غریب عوام کے ہوش اڑا دیئے ہیں۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ غریب مر رہا ہے، کسی کو ان کی فکر نہیں۔مہنگائی کا جن بدستور بے قابو ہے اور اشیا خورد نوش کی قیمتوں میں روز بروز پر لگ رہے ہیں، جب کہ چینی کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔پاور سیکٹر میں سرکاری اداروں کی جانب سے استعمال کیے جانے والی مفت بجلی کے یونٹس کی کل لاگت 22 ارب سے 25 ارب روپے سالانہ کے درمیان ہے جبکہ دیگر سرکاری محکموں کے گریڈ ایک سے 22 تک کے ملازمین کو دیے جانے والے الانس بھی اربوں روپے کے ہیں، اس کا اقتصادی بوجھ کوصارفین پر ڈالا جا رہاہے۔ عوام کو زندہ درگور کرنے میں سب برابر کے شریک جرم ہیں۔اشرافیہ کی چاروں گھی اور سر دھڑ کڑاھی میں ہے، عوام اب کسی لالی پاپ میں نہیں آنے والی،عوام اب اس با ت کو اچھی طرح جان چکی ہے کہ سب پاکستان میں دیہاڑی لگاتے ہیں اور پھر بیرون ملک جا بستے ہیں۔ یہ گزشتہ ڈیڑھ سالہ یک طرفہ ٹریفک کا ہی نتیجہ ہے کہ عوام کے غیض و غضب کا پیمانہ اونچے درجے کے سیلاب کی مانندٹھاٹیں مار رہا ہے،حفاظتی بند کسی بھی وقت ٹوٹ سکتے ہیں، وقت کی نزاکت کو نہ سمجھا گیا تو پھرطاقتور بھی پچھتائیں گے اور وہ گروہ¿ سیاستکاراں بھی سر چھپاتے پھریں گے جو آج بہتی گنگا میں ہاتھ دھو چکے ہیں یا دھو رہے ہیں۔
ہندوتواشدت پسندی اقلیتوںکے لئے سنگین خطرہ
مودی کے ہندوستان میں بڑھتی ہندوتوا شدت پسندی اقلیتوں کےلئے سنگین خطرہ بن چکی ہے ۔ دو ہزارچودہ کے نتخابات میں مودی کی قیادت میں بی جے پی کی جیت کے بعد سے ہندو قوم پرستی میں اضافہ ہوا۔ بھارت میں مذہبی شدت پسندی اورعدم برداشت کے بڑھتے واقعات مودی کی نفرت انگیز پالیسیوں کا نتیجہ ہیں۔ ہندوستان میں اقلیتوں کے حقوق کی کھلے عام خلاف ورزی جاری ہے۔ بیجے پی کی کھلے عام اقلیتوں کو دھمکی مودی کی سوچی سمجھی سازش ہے۔ بی جے پی رہنما نے دھمکی دی ہے کہ ہندوستان میں اگرکوئی ہندوں کو للکارے گا تواس کی بھارت میں کوئی جگہ نہیں۔صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ سکھ اورعیسائی برادری بھی مودی سرکارکے عتاب کا نشانہ رہی ہے۔ پچھلے کچھ عرصے میں بھارت میں نہ صرف مساجد بلکہ کئی گرجا گھروں کوبھی مسمار کیا گیا ۔ گائے کا گوشت لے جانے کے شبے میں مسلم نوجوان کوبیہمانہ تشدد کرکے موت کے گھاٹ اتاردیا گیا۔ آدتیہ ناتھ یوگی کا کہنا ہے مسلمان اورہندوکبھی ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔ بھارت میں کشیدگی کے بڑھتے واقعات آنے والے انتخابات میں مودی کی کامیابی کے ہتھکنڈے ہیں ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بھارت ایک سیکولر ریاست کی بجائے آج عملاً ہندو انتہاءپسند ریاست میں تبدیل ہو چکا ہے جس کیلئے ہندو انتہاءپسندوں کی نمائندہ بی جے پی کی موجودہ مودی سرکار کی جانب سے بنیادی کردار ادا کیا گیا ہے اور آر ایس ایس اور شیوسینا جیسی ہندو انتہاءد تنظیموں کی سرپرستی کرکے انہیں بھارت کی غیرہندو قوموں اور آبادیوں بالخصوص مسلمانوں اور انکی اکثریت والے بھارتی علاقوں میں پرتشدد حملے کرنے، مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانے اور انہیں مذہبی فرائض کی ادائیگی سے روکنے کی کھلی چھوٹ دی جاتی ہے۔ چنانچہ بھارت میں مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کا عرصہ حیات انتہاءپسند ہندوﺅں کے ہاتھوں عملاً تنگ ہو چکا ہے۔ ہندو لیڈروں نے اکھنڈ بھارت والے توسیع پسندانہ ایجنڈے کے تحت ہی مسلم اکثریتی آبادی پر مشتمل ریاست جموں و کشمیر پر فوجی تسلط جما کر اس کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہیں ہونے دیا تھا تاکہ وہ پاکستان کو کمزور کرکے اسے بھارت میں واپس آنے پر مجبور کر سکے مگر پاکستان کے ساتھ الحاق کی تمنا رکھنے والے کشمیریوں نے اپنی بے پایاں جدوجہد کے تحت بھارت کے خواب ہمیشہ چکناچور کئے ہیں۔ بھارت کی مودی سرکار تو اپنے ہندو انتہاءپسندی کے ایجنڈے کے تحت ہی ہندوﺅں کی ہمدردیاں حاصل کرکے دوبار اقتدار میں آئی جس کے دوران اس نے مسلمانوں کیخلاف ہندو جنونیت کو فروغ دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ بھارت اپنی بربریت کو جس نہج تک پہنچا چکا ہے‘ اس پر تشویش یا مذمتی بیانات ہی کافی نہیں‘ بلکہ جارح بھارت کیخلاف ٹھوس عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اگر بھارت کو بروقت نکیل نہ ڈالی گئی تو خطہ ہی نہیں‘ پورے کرہ ارض پر بھی امن کی ضمانت نہیں دی جاسکے گی۔ دوسری جانب مقبوضہ کشمیر کے ضلع رمبان کی فوجی بیس میں سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے اہلکار نے خود کو سرکاری رائفل سے گولی مار کر اپنی زندگی کا خاتمہ کیا ۔ پولیس کا کہنا ہے کہ جائے وقوعہ سے خودکشی نوٹ ملا اور نہ ایسی کوئی چیز سے ملی ہے جس سے خودکشی کی وجہ کا تعین کیا جا سکے۔ لاش کو ضروری کارروائی کے بعد آبائی گاوں منتقل کردیا گیا۔سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے ترجمان نے بتایا کہ واقعے کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی تشکیل دیدی گئی۔ یاد رہے کہ بھارتی فوجیوں کی کم ہمتی اور ذہنی دباو کے باعث خودکشی کے واقعات میں اضافہ ہوا اور کسی بھی واقعے کی تحقیقات کےلئے بنائی گئی کسی کمیٹی کا کبھی کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔