Site icon Daily Pakistan

ویل ڈن محسن ویلکم روبینہ

ویل ڈن سی ایم پنجاب آپ واقعی محسن ہیں خاص طور پر ڈی جی پی آر اس ادارے کو اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنے کے لیے جو قدم آپ نے اٹھایا وہ لائق تحسین بھی ہے اور لائق تعریف بھی ڈی جی پی آر کو اپنے ادارے سے ہی سربراہ مل گیا اس ادارے کی افادیت کو آپ سے زیادہ کوئی سمجھ بھی نہیں سکتا یہ پنجاب حکومت کا آئینہ ہے جسے پچھلی حکومتوں نے دھندلا دیا تھا اور رہی سہی کسر اس ادارے میں موجود منافق قسم کے افسران نے پوری کررکھی تھی جو باہر سے آنے والے ہر نتھو خیرے کا یوں استقبال کرتے جیسے وہ انکے ادارے کا خالق ہو پاکستان کے مضبوط ترین اداروں میں پاک فوج سر فہرست ہے اور اسے یہاں تک لانے میں کسی باہر والے کا ہاتھ نہیں بلکہ اسی ادارے کا کمال ہے جہاں سے آرمی چیف آتا ہے ہماری عدلیہ جس ماحول میں کام کررہی ہے وہ ناقابل بیان ہے مگر اسکے باوجود انہوں نے اپنا ایک وقار اور اعتماد رکھا ہوا ہے جسے کہیں انصاف نہیں ملتا عدالتیں اس کا پورا پورا ساتھ دیتی ہیں پاکستان میں ہمارا عدالتی نظام پائیدار اور مضبوط ہے تو اپنے سربراہان کی وجہ سے جو اسی ادارے سے تعلق رکھتے ہیں اسی طرح ڈی جی پی آر بھی ایک مظبوط اور پائیدار ادارہ تھا جو اپنی مرضی سے خبریں لگواتا تھا اور چھپتے ہوئے اخبار سے خبر اتروا بھی دیتا تھا مگر جیسے ہی اس ادارے پر باہر سے آنے والے مسلط ہوئے یہ ادارہ اپنی شناخت کھونا شروع ہوگیا کچھ اختیارات پی آئی ڈی والوں نے چھین لیے اور کچھ انکی آپس کی لڑائی میں ختم ہوگئے۔
نگران وزیر اعلی پنجاب محسن نقوی کا تعلق خود بھی میڈیا انڈسٹری سے ہے اور انہوں نے کمال مہارت اور جانفشانی سے اپنے اداروں کو ملک میں الگ پہچان دلوائی امید ہے کہ پنجاب کے ہر ادارے کو وہ اسی طرح اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنے میں کوشش ضرور کرینگے خاص کر ڈی جی پی آر کو جو میڈیا انڈسٹری کی بحالی کا بھی ضامن ہے ڈائریکٹوریٹ جنرل آف پبلک ریلیشنز (DGPR) پنجاب حکومت کا بازو ہے جو 1940 کی دہائی میں ڈائریکٹوریٹ آف پبلک ریلیشنز (DPR) کے طور پر قائم کیا گیا تھااور پھر اسے 1984 میں ڈائریکٹوریٹ جنرل آف پبلک ریلیشنز کے طور پر اپ گریڈ کیا گیاشروع شروع میں اس ادارے نے خوب کام کیا مگر وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ کچھ نکمے اور کچھ کام چور افسران کی وجہ سے اس ادارے پر بیرونی افسران کی آمد شروع ہوئی تو اس کا حلیہ بگڑگیا باقی اداروں کی طرح یہاں پر بھی لوٹ مار کا سلسلہ شروع ہوگیا کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے کے اسکینڈل منظر عام پر آئے انٹی کرپشن نے بھی اس ادارے میں ڈیرے ڈالے رکھے کچھ افسران فرار ہو گئے کچھ نے ضمانتیں کروا لیں اور پھر وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ بات آئی گئی ہو گئی اس ادارے کے اتنے زیادہ کام ہیں کہ اگر انہیں کرنے پر آئیں تو ختم نہ ہو لیکن اب سوائے موج اور مستی کے یہاں کچھ نہیں رہا یہاں تک کہ حکومت کی پالیسیوں کو عوام تک پہنچائے میں بھی یہ ادارہ بہت حد تک ناکام رہا یہاں سیاست اس حد تک داخل ہو گئی کہ جونیئر افسران کو سینئر پر مسلط کردیا گیا جبکہ سینئر افسران تو پہلے اپنی نوکری پکی کرنے آتے تھے اس ادارے کے ذمہ جو کام ہیں ان میں پنجاب حکومت کی پالیسیوں، منصوبوں اور اقدامات کی تشہیر، حکومت اور قومی مفادات کے خلاف منفی پروپیگنڈے کا مقابلہ،حکومتی پالیسیوں، سرگرمیوںکے بارے میں قابل اعتماد اور مستند معلومات کی بر وقت ترسیل،حکومت پنجاب کے اقدامات، طویل اور قلیل المدتی منصوبوں اور منصوبوں کے ذریعے عام لوگوں تک رسائی الیکٹرانک ،سوشل اور پرنٹ میڈیا ونگزکے زریعے حکومت کے اقدامات، پالیسیوں، ترقیاتی اور غیر ترقیاتی کاموں کی آرٹیکل ،خبروں،اشتہارات ، ہینڈ آ¶ٹ، پریس ریلیزاور پریس نوٹ کے ذریعے خبروں کو پھیلانا،قومی، صوبائی اور علاقائی سطح پر ٹکرز، اور سوشل میڈیا پوسٹس کے زریعے حکومت کی تصویر کی تعمیر اور تاثر کا انتظام کرنا قومی اور سماجی ہم آہنگی کا فروغ ، سیمینارز، ورکشاپس اور سمپوزیم کے ذریعے ثقافتی سرگرمیوں کا فروغ ، اخبارات، کتابوں، رسالوں کے پمفلٹ، پوسٹرز سے متعلق پریس قوانین کا نفاذ، میڈیا کے رجحانات اور رائے عامہ کا جائزہ لینے کے لیے اخبارات اور رسالوں کو دیکھنا ، سرکاری میٹنگز اور تقریبات کے لیے پبلک ایڈریس سسٹم کی فراہمی ، ذرائع ابلاغ کے ذریعے عوامی اشتہاری مہمات کا اجرائ،صحافیوں اور میڈیا ہا¶سز کو جرنلسٹ سپورٹ کے ذریعے مالی مددفنڈ وغیرہ کی فراہمی ، گورنر، وزیر اعلیٰ، وزرائ، مشیروں اور خصوصی کےلئے تقاریر تیار کرنا گورنر، وزیر اعلیٰ، صوبائی وزرا کے ساتھ تعلقات عامہ کے افسران کا منسلک ہونا ،مشیر اور میڈیا کمیونیکیشن کےلئے معاون خصوصی وغیرہ اور پنجاب حکومت کا مثبت امیج عوام میں پیش کرنے کےلئے پالیسیاں اور اقدامات اٹھانا قومی مفادات کے خلاف ناپسندیدہ پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنا صوبہ بھر میںپریس کانفرنسز، پریس بریفنگ، سیمینارز اور میڈیا انٹرویوز کا اہتمام کرنا قابل ذکر عوامی مسائل پر مضامین، اداریوں، اور خصوصی ایڈیشنوں کی تیاری میں مدد فراہم کرنا صحافیوں کے بین الصوبائی دوروں کا اہتمام کرنا گورنر، وزیر اعلیٰ، صوبائی وزراءاور مشیروں کو لوگوں کی رائے کے متعلق فیڈ بیک فراہم کر نا حکومتی اقدامات، منصوبوں اور پالیسیوں کے حوالے سے میڈیا مہم شروع کرناسوشل میڈیا بشمول فیس بک، ٹویٹر، انسٹاگرام، یوٹیوب وغیرہ اور سات ساتھ گورنر، وزیر اعلیٰ، صوبائی وزرا کے سوشل میڈیا اکا¶نٹس کے لیے مواد تیار کرناگورنر، وزیراعلیٰ، صوبائی وزراءکی لائیو نشریات کے انتظامات کرنا سماجی مسائل پر عام لوگوں کے لیے آگاہی مہم شروع کرنا سوشل میڈیا پر اثر انداز ہونے والوں کے ساتھ رابطہ قائم رکھنا اور حکومتی اقدامات کو فروغ دینااس کے علاوہ اور بھی بہت سے کام ہیںجو اس ادارے میں نہیں ہو رہے کیونکہ یہاں پر کام لینے والا ہی کوئی نہیں اس ادارے میں روبینہ افضل کو ویلکم کرتے ہیں جو اب 40 ویںڈی جی پی آر ہے جنہوں نے 30 جنوری 2023 کو دوبارہ اس عہدے کا چارج لیا ہے وہ اس ادارے کواور ادارے والوں کو خوب سمجھتی ہیںامید ہیں وہ نگران وزیر اعلی محسن نقوی کی طرح اس ادارے کو ایک بار پھر سے ڈی جی پی آر بنانے میں اپنا اہم کردار ضرور ادا کرینگی ۔

Exit mobile version