ایک بار پھر پانچ اگست کو دنیا بھر کے کشمیری یوم استحصال منا کر بھارت کو بالخصوص اور اقوام عالم کو بالعموم یہ واضح پیغام دیں گے کہ مودی کے تمام تر ظالمانہ اور استحصالی ہتکھنڈوں کے باوجود گزرے ماہ وسال کی طرح تحریک آزادی کشمیر آج بھی بدستور جاری وساری ہے ، ادھر مقبوضہ کشمیر میں آل پارٹیز حریت کانفرنس نے کشمیریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ پانچ اگست کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کیخلاف بھرپور احتجاج کرتے ہوئے عام ہڑتال کریں، یقینا اس حقیقت کو ہرگز جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ 5 اگست 2019کو بے جے پی سرکار نے نہ صرف بھارتی تاریخ کو مسخ کیا بلکہ کھلم کھلا اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بھی خلاف ورزی کی، یعنی وہ تنازعہ جسے بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہرلال نہرو اقوام عالم کے سامنے تسلیم کرچکے کہ بھارت کے زیر قبضہ کشمیر متنازعہ علاقہ ہے اور نئی دہلی کشمیریوں کو حق خود ارادیت دلوانے کیلئے اپنا کردارادا کرے گا، افسوس صد افسوس کہ بعد میں آنے والی بھارتی قیادت نے جواہرلال نہرو کی عالمی برداری کو کروائی جانے والی یقین دہانی سے یوں منہ موڈا کہ آج دہائیوں گزر جانے کے بعد بھی اہل کشمیر بدستور اپنے حقوق سے محروم ہیں، یہ خوش آئند ہے کہ آج بتدریج مسئلہ کشمیر کو پاکستان اور بھارت جیسی پڑوسی ایٹمی قوت کی حامل ریاستوں میں ایسی تنازعے کے طور پر دیکھا جارہا ہے جو کسی بھی ایٹمی تصادم میں بدل سکتا ہے ، اس ضمن میں حالیہ پاک بھارت جنگ نے نمایاں کردار اد کیا، مثلا مودی سرکار نے جس انداز سے سے پہلگام حملے کے چند گھنٹوں بعد ہی پاکستان پر الزام لگا دیا اس سے مودی سرکار کی عالمی سطح پر ساکھ بڑی حد تک مجروع ہوئی ،مثلا مہذب دنیا یہ سوچنے پر مجبور ہوگی کہ آخر کیوں اور کیسے24گھنٹوں سے پہلے بنا دہشتگردوں کی گرفتاری یا ٹھوس ثبوت کے بھارت نے پاکستان کو کٹہرا میں کھڑا کردیا ، مذکورہ معاملہ کی سنگینی کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان تسلسل کے ساتھ نئی دہلی کو یہ پیغام دیتا رہا کہ اگر بھارت کے پاس ایسے شواہد ہیں کہ پہلگام حملے میں کوئی پاکستانی ملوث ہے تو اس کے ثبوت اسلام آباد کے ساتھ شئیر کیے جائیں مگر مودی سرکار ٹس سے مس نہ ہوئی ، اس کے برعکس بھارت نے سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت 6 اور 7مئی 2025 کو پاکستان پر باقاعدہ حملہ کردیا ، اس بار ماضی کے برعکس مودی سرکار سرحدوں تک محدود نہ رہی بلکہ لاہور ، راولپنڈی اور بہاولپور سمیت پاکستان کے کئی شہروں کو نشانہ بنا ڈالا ، اس پر پاکستان نے بھارت کو ایسا فوری اور بھرپور جواب دیا کہ نئی دہلی امریکہ سے جنگ بندی کے لیے منت سماجت پر مجبور ہوگیا، مبصرین کے بعقول بھارت نے پاکستان کی عسکری صلاحیتوں کا غلط اندازہ لگایا چنانچہ چند گھنٹوں کی لڑائی نے ہی مودی سرکار کو گٹھنے ٹیکنے پر مجبور کردیا ، یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ بھارت کو پاکستان پر جارحیت کرنے کا دوہرا نقصان ہوا، مثلا ایک تو عسکری اعتبار سے نئی دہلی کو ایسی واضح شکست ہوئی کہ دنیا نے تماشہ دیکھا ، پاکستان ائرفورس نے جس طرح بھارت کے 5 طیارے مار گرائے اس نے مودی کو دن میں تارے دکھا دئیے ، ادھر تنازعہ کشمیر کے حوالے سے ایک بڑی پیش رفت یہ سامنے آئی کہ صدر ٹرمپ نے کھل کر تسلیم کیا کہ مسلہ کشمیر بین الاقوامی تنازعہ ہے جس کو حل کیے بغیر جنوبی ایشیا میں دیرپا قیام امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا، امریکی صدر نے یہی کہنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ آگے بڑھ کر اپنی اس خواہش کا اظہار بھی کر ڈالا کہ وہ پاکستان اور بھارت میں تنازعہ کشمیر کو حل کرنے میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہیں، یقینا صدر ٹرمپ کی مذکورہ تجویز مودی سرکار کیلئے ایٹم بم سے کم نہ تھی ، مثلا بھارت دہائیوں سے یہ واویلا کرتا چلا آرہا کہ مسئلہ کشمیر بین الاقوامی مسئلہ نہیں بلکہ انڈیا اور پاکستان میں باہمی تنازعہ ہے جس کا حل مناسب وقت پر کیا جاسکتا ہے،مودی سرکار کی پشمانی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ صدر ٹرمپ باربار دو باتیں کررہے ہیں ایک یہ پاک بھارت جنگ انھوں نے رکوائی اور دوسرا مسئلہ کشمیر کو حل کروانے کے حوالے سے وہ اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہیں، درحقیقت یہ تبدیل شدہ صورت حال مودی سرکار کے علاقائی اور عالمی بیانیہ کے برعکس ہوچکی، اب بے جی پی کو خود بھارت کے اندر مشکل صورت حال کا سامنا یوں سامنا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں نہ صرف پاکستانی فضائیہ کے ہاتھوں مارے جانیوالے 5 طیاروں کا حساب مانگ رہیں بلکہ صدر ٹرمپ کے حالیہ جنگ سے متعلق دعووں کی حقیقت بھی پوچھ رہی ہے ، اس پس منظر میں مودی حکومت کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ نئی تبدیل شدہ علاقائی اور بین الاقوامی صورت حال میں مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈال کر سب اچھا ہے کی گردان جاری رکھے ، اس میں دوآرا نہیں کہ شبہازشریف حکومت نے سفارتی محاذ پر بہترین کارڈز کھیلے جس نے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کی دعویدار ریاست کے کشمیر کو اٹوٹ انگ کہنے کا دعوے اڈا کررکھ دیا ، اس ضمن میں یہ امید کرنا بلاجواز نہیں کہ مستقبل قریب میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے عالمی رائے عامہ میں مزید اتفاق واتحاد ظہور پذیر ہوسکتا ہے ۔
پانچ اگست تجدید عہد کا دن
