کالم

پاکستان اور ترکیہ کے بڑھتے تجارتی تعلقات

بلاشبہ ترکیہ کے صدر کا دورہ پاکستان کئی لحاظ سے اہمیت کا حامل رہا ، طیب اردوان کی آمد دو طرفہ معاہدوں اور بین الاقوامی مشترکہ پالیسی کے لحاظ سے دونوں ملکوں کو مذید قریب لانےکا باعث بنی ، پاکستان اور ترکیہ کا تجارتی حجم پانچ ارب ڈالرز تک بڑھانے اور دوطرفہ تعلقات کا اسٹریٹجک شراکت داری میں تبدیل کرنے کا عزم دوررس اثرات کا حامل ہوسکتا ہے ، ترکیہ کے صدر کے دورے کے اختیتام پر مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان 24 اہم معاہدوں اور ایم او یوز پر دستخط کیے گے ، صدر اردوان نے نہ صرف صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم شبہازشریف سے الگ الگ ملاقاتیں کیں بلکہ پاکستان ترک برنس اینڈ انویسٹمنٹ فورم سے بھی خطاب کیا ،ترکیہ کے صدر نے دورے پاکستان میں ایک بار پھر مسلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کی حمایت کی ، پاکستان اور ترکیہ کے تعلقات کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ دونوں بردار ممالک بیشتر علاقائی اور عالمی مسائل کے حوالے سے ایک موقف رکھتے ہیں، مثلا گذشتہ سال 7 اکتوبر 2023سے اسرائیلی جارحیت اور فلسطینوں کی منعظم نسل کشی کے خلاف دونوں ہی علاقائی اور عالمی سطح پر غزہ میں جنگ رکوانے اور مظلوم فلسطینوں کی امداد کے حوالے سے پیش پیش رہے ہیں، پاکستان اور ترکیہ کا موقف ہے جب تک ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں نہیں آجاتا اس وقت تک مشرق وسطی میں قیام امن کا خواب کسی طور شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا، مسلہ کشمیر کے حوالے سے ترکیہ کا دلیرانہ موقف ایک طرف پاکستان کے ساتھ غیر مشروط گہرے بردانہ تعلقات کا ثبوت ہے جب کہ دوسری طرف مسلم دنیا کو درپیش مسائل کے حل کے حوالے سے صدر طیب اردوان کی غیر معمولی جرات اور عزم کا اظہار بھی ہے ، یہ امر حوصلہ افزا ہے کہ پاکستان اور ترکیہ میں تجارتی حجم بھی بتدریج بڑھ رہا ہے ۔
بلامبالغہ پاکستان اور ترکی کے درمیان بھائی چارے اور دوستی تادم تحریر مثال ثابت ہوئی ہے ، مثلا دونوں ملکوں کے درمیان ہزاروں میل کا فاصلہ ضرور ہے لیکن پاکستانیوں اور ترکوں کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں، کہنے کو ترکی اور پاکستان کے پرچموں کے رنگ الگ الگ سہی مگر ان پرچموں میں ستارہ اوربلال بالکل ایک جیسے ہیں ۔ تاریخی طور پر پاکستان اور ترکی نے ہر موقع پر ایک دوسرے کی بھرپور انداز میں مدد کر کے وفاداری کا ثبوت پیش کیا ۔ ملکی اور بین الااقوامی سطح پر دونوں ممالک کی سوچ اور خیالات ایک جیسا ہونا مسلمانوں میں اتفاق اور اتحاد کی عملی مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے ، ترکییہ اور پاکستان ہمیشہ ایک دوسرے کی ترقی میں معاون کا کردار نبھاتے رہے ہیں۔ ایک دوسرے کے دکھ درد تکلیف میں دونوں ممالک کے سربراہان ممملکت ہی نہیں بلکہ عوام بھی جذباتی لگاو رکھتے ہیں۔
شاید یہی وجہ ہے کہ ترک پاکستان کو اور پاکستانی ترکی کو اپنا دوسرا گھر تسلیم کرتے ہیں۔ اب تک دونوں ممالک میں آزمائش کی کوئی بھی گھڑی جیسے زلزلہ یا پھر سیلاب آئے دونوں ممالک کے عوام یک جان یک قلب کی بنیادوں پر ایک دوسرے کی مدد کو آموجود ہوتے ہیں۔ پاکستان نے قبرص کے معاملہ پر ہمیشہ ترکیہ کے موقف کی حمایت کی ہے۔ پاکستان اور ترکی کے درمیان بہترین سیاسی تاریخی اور ثقافتی تعلقات کی وجہ سے ترک پاکستانیوں کو کاردیش یعنی بھائی کہہ کر پکارتے ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان ترکیہ کے ساتھ تعلقات کو نئی بلندیوں سے ہمکنار کرنے کے کا عزم رکھتے ہیں، شبہازشریف ایک سے زائد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کو ترکیہ کی ترقی سے سیکھ کر عصر حاضر کے تقاضوں کی تکمیل کرنے کی ضرورت ہے ، قابل زکر یہ ہے کہ بطور وزیر اعظم میاں نوازشریف نے بھی ہمیشہ پاکستان اور ترکی کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوشش کی ، برصغیر پاک وہند کے مسلمانون کے دلوں میں ترکیہ کے لیے محبت اور جذبات کی تاریخ خاصی پرانی ہے ، ۔
سچ تو یہ ہے کہ جب پاکستان وجود میں بھی نہیں آیا تھا تب بھی متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں کی بھر پور حمایت خوشی کا اظہار سلطنت عثمانیہ کے لیے نمایاں تھا ، یہی وہ پس منظر ہے جس میں دونوں ممالک کے عوام نسل درنسل باہمی محبت اور اپنا ئیت کے جذبات رکھتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ متحدہ ہندوستان کے جو مسلمان پاکستان بنانے کی تحریک میں نمایاں رہے انھوں نے ہی پہلی جنگ عظیم کے فورا بعد شروع ہونےوالی ترک جنگ آزادی میں ترکوں کی حمایت کی اور مدد کی ، ماضی قریب میں اس سلسلے کی دوسری مثال 1999 میں ترکی میں آنیوالا زلزلہ تھا جس میں پاکستان نے ترکوں کی بھرپور امداد کی۔ دوسری طرف یہ بھی سچ ہے کہ ترکیہ نے بھی پاکستان میں آنے والی قدرتی آفات مثلا زلزلے اور سیلاب می اہل پاکستان کی پر دل کھول کر مدد کی ۔ خارجہ پالیسی اور سیکورٹی معاملات میں انقرہ اسلام آباد میں تعاون کی تاریخ نہ صرف پرانی ہے بلکہ اسے بجا طور پر مثالی بھی کہا جاسکتا ہے ، ترکیہ اور پاکستان کی افواج کے مابین انتہائی مضبوط تعلقات استوار ہیں یہی وجہ ہے کہ صدر طیب اردوان کے حالیہ دورے پاکستان میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ان کی گرم جوش ملاقات ہوئی،اس سلسلے میں دونوں ممالک کی افواج میں دو طرفہ بڑھانے کے عزم کا بھی پختہ اظہار کیا گیا ،ترکیہ بجا طور پر پاکستان کے ان دوستوں میں شامل ہے جس کے ساتھ دوستانہ تعلق سدا بہار کہاجاسکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے