مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے
کرہ ارض پر پانی، مٹی، ہوا اور حرارت جہاں زندگی کے لازمی جز ہیں وہیں اِن کی زیادتی یا کمی زندگی کو موت کی دہلیز پر لے جانے کا سبب بھی ہے۔ عقل انسانی نے کرہ ارض پر زندگی کو محفوظ بنانے کےلئے ہمیشہ سے تگ و دو کی ہے۔ کبھی ان عناصر کو خدا بنا کر پرستش کی ہے تو کبھی اِن عناصر کی ترتیب و ترکیب کو زندگی کی بقا کےلئے علم و عمل کے راستوں سے گزار کر انسانی شعور کو اجاگر کیا ہے۔ لیکن ہر صورت میں نتیجہ ایک ہی سامنے آیا ہے کہ اگرانسان قانونِ فطرت کے مطابق زندگی گزارتا رہے اور اہل زمین پر مہربان رہےتو قدرت بھی اس پر مہربان رہتی ہے لیکن جب بھی انسان نے قدرت کے ساتھ مقابلہ یا لڑائی کی تو سوائے ماحول کی ٹوٹ پھوٹ اور انسانی زندگی کی پسپائی کے عناصر و عوامل کےاور کچھ بھی ہاتھ نہیں آیا۔ اگر فلسفہ زندگی کو سائنسی بنیادوں پر جانچا جائے تو پاکستان میں ہونےوالی سیلاب سے تباہی کی کڑیاں بھی یہیں سے ملتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود میں یہی مانا جائے گا کہ اس ناگہانی آفت اور قیامت خیز تباہی میں سیلاب میں بہہ جانے والے ان پاکستانیوں کا کوئی قصور نہیں ہے اور نہ ہی ان غریبوں کا قصور ہے، جنہوں نے رہائش کے لیے مٹی کے ماحول دوست گھر بنائے، جانوروں، مویشیوں اور سبزے کو اپنے لیے اہم سمجھ کر ان کی بود و باش اور افزائش کی لیکن اس کے باوجود ان کے مال مویشی، بکریاں ، مرغیاں اور دیگر جانور اس طوفانی بارش اور جان لیواسیلابی ریلے میں بہہ گئے۔ یقینی طور پر یہ ان سادہ لوح افراد کا قصور نہیں ہے، جو سال بھر قطرہ قطرہ پانی احتیاط سے خرچ کرتے ہیں اور پھر بھی پانی کی بوندوں کو ترستے ہیں لیکن آج جب یہاں پانی آیا ہے تو ان کی زندگی کی تمام جمع پونجی بہا کر لے گیا ہے۔ ایسا کیوں ہوا ہے کہ جو لوگ قدرت اور فطرت کے عین مطابق زندگی گزار رہے تھے ان کے ساتھ قدرت نے یہ ناانصافی کیسے کر ڈالی اور ان کے سر سے چھت اور پاں سے زمین کھینچ کر بے یار و مددگار موت کی لہروں سے لڑنے اکیلا چھوڑ دیا۔ یہ کم علم اور غربت کا مارا طبقہ اس تباہ کن سیلاب کی سزا اس لیے کاٹ رہا ہے کہ ہمارے ملک اور دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے امرا، صنعت کار، تجارت پیشہ اور صاحب اقتدار طبقے نے ان غریبوں کی کم فہمی، غربت اور سادہ لوحی کی بنیادوں پر اپنی دکان چمکائی اور اِن حضرات نے انہیں آج اس موت کے سیلابی ریلے سے لڑنے کےلئے اکیلا چھوڑ دیا اور خود اپنی جیبیں بھرنے اور اپنی ترقی کی راہیں ہموار کرنے کے لیے ان کی بے بسی، اموات ، ڈوبے ہوئے مال و دیگر اسباب کو اشتہار بنا کر دنیا کی ہمدردی اور پیسہ بٹورا۔ صرف یہ ملک کا مفاد پرست طبقہ ہی اس سیلاب اور اس کی تباہ کاریوں کا باعث نہیں بلکہ اس تباہ کن سیلاب میں دنیا کے ان تمام ممالک کا بھی ہاتھ ہے، جنہوں نے پاکستان کے غریب، سادہ لوح اور بے علم و کمزور طبقے کو توانائی کی بچت اور ماحول دشمن عناصر کے استعمال کے بارے میں لاعلم رکھا اور ان کے کندھوں پر پاں رکھ کر اپنی ترقی کےزینے چڑھے۔ پاکستان میں آنے والی اس تباہی میں ان مغربی اور ترقی یافتہ ممالک کا بھی حصہ ہے، جو دنیا میں سب سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کا سبب بن رہے ہیں اور لاعلم اور سادہ لوح انسانوں کو اس کے نقصانات سے بے پرواہ رکھے ہوئے ہیں اور آسائش زندگی کے نام پر ایسی مضر اشیا وسائل کا بے دریغ استعمال کر رہے ہیں اور کروا رہے ہیں جو ان کی تباہی کا سبب ہیں۔ موسم اور آب و ہوا کی تبدیلی قدرت کی جانب سے ناگہانی آفات و حادثات کے اشارے ہیں لیکن اس موضوع پر کانفرنس، سیمینار اور تحقیق اور ان سے بچا کا تدارک یا ان کے مسائل کا حل صرف مغرب میں ہی پیش کیا جاتا ہے جب کہ ماحول دشمن اشیا کی بناوٹ اور استعمال کو جاہل اور غریب ممالک کے عوام میں استعمال کےلئے راغب کیا جاتا ہے تاکہ ان کے تجارتی مراکز اور کارخانے چلتے رہیں بھلے سے ان میں انسانی جانوں کا ایندھن جھونکا جائے یا ان ممالک کو ہی جھونک دیا جائے جہاں تعلیم اور تربیت کی حصولی کو وہ اپنی ترقی میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ یقینی طور پر پاکستان کے غریب اور کم علم عوام ان تمام ممالک کے عمل کی سزا بھگت رہے ہیں، جو زمین پر سالانہ تیس گیگا ٹن سے زائد مضر اور ماحول دشمن گیسوں کا اخراج کر رہے ہیں اور قدرتی ماحول کی توڑ پھوڑ میں مصروف ہیں۔ چاہے اسلحہ سازی کی بنیاد پر وہ یہ فیکٹریاں چلا رہے ہوں یا سامانِ تعیش اور آسائش زندگی کے حوالے سے ان کے کارخانے رواں ہوں لیکن ان کارخانوں کا فضلہ اور خارج شدہ گیس زمین پر زندگی کو مشکل اور کہیں کہیں ناممکن بنا رہی ہیں۔ ایک اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں انٹارکٹک کے بعد قدرتی برف کے سب سے بڑے ذخائر پاکستان میں موجود ہیں۔ پاکستان میں اس وقت سات ہزار سے زائد گلیشئرز ایسے ہیں جو کئی سالوں سے ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ لیکن اس کی بابت نہ عوام کو کوئی معلومات دی گئی ہے اور نہ ہی حکومتی و سیاحتی سطح پر اس بات پر توجہ دی گئی ہے کہ گلیشرز کا اس تیزی سے پگھلنا کسی بڑی تباہی اور آفت کا سبب ہوسکتا ہے۔اس کے علاوہ دنیا میں سب سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کرنے والے دو بڑے ممالک پاکستان کے ہمسائے ہیں۔جن میں چین سر فہرست ہے اور بھارت کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرنے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے۔ امریکہ دوسرا بڑا ملک ہے۔ لیکن اِن ممالک کے کارخانوں کے رواں رہنے اور مادی ترقی کو عروج پر پہنچانے میں پاکستان نادانستہ طور پر شامل ہے۔ ان ممالک کی اشیا ایک طرف پاکستان میں مقبول ہیں اور پاکستانی ان کی خریداری بے سوچے سمجھے کرتے ہیں اور دوسری جانب ان اشیا کی تیاری کےلئے اپنے موسم اور آب و ہوا کی تبدیلی کی قربانی بھی دیتے ہیں۔ یورپی یونین نے حالیہ سیلابی آفت کے متاثرین کی مدد کےلئے پاکستان کو دو اعشاریہ پندرہ ملین یورو کی امداد دینے کا اعلان کیا ہے۔ جو ہونےوالے نقصانات کی مد میں بہت کم ہے ۔ یورپی یونین کے معاشی مستحکم ممالک میں فرانس اور جرمنی سر فہرست ہیں۔ یہ دونوں ممالک ہی اپنی صنعتی ترقی کی بنیاد پر یورپ کے سب سے طاقتور ملک کہلاتے ہیں اور ان ممالک کے بیشتر کارخانے پاکستان سمیت کئی ایشیائی ممالک میں موجود ہیں جہاں لوگوں کو روزگار تو میسر ہے لیکن ماحول کے بچا سے متعلق کوئی معلومات نہیں ۔ جرمنی بھی اپنی صنعت کاری اور دیگر معاملات میں کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرنے والا دنیا کا چھٹا بڑا ملک بھی ہے جو کہ ماحول کی توڑ پھوڑ کا سبب شمار کیا جاسکتا ہے۔ جرمنی میں ہر انسان، جانور درخت حتی کہ حشرات الارض کے تحفظ کےلئے بھی منصوبہ سازی کی جاتی ہے اور ماحول بچا کے منصوبوں پر کام کیا جاتا ہے۔ لیکن افسوس کہ فضائی آلودگی اور ماحول دشمن گیس کی بڑھتی ہوئی پیداوار نے ان کمزور ممالک کو نشانہ بنایا ہے جو مٹی کے گھروں میں رہتے ہیں اور قدرتی نظام زندگی کو ہی اپناتے ہیں۔ ان سادہ لوح انسانوں کےلئے ماحول کے تحفظ اور ماحول دشمن عناصر کی پیداوار کے خاتمے اور ان کے نتیجے میں آنےوالی آفات کی بابت کوئی تعلیم و تربیت نہیں دی گئی ہے اور نہ ہی کوئی ان آفات سے بچا کےلئے منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ مغرب اور امیر ممالک کے طرز زندگی کو بحال رکھنے کی قیمت پاکستان سمیت دنیا کے وہ غریب ممالک ادا کر رہے ہیں، جو ماحولیاتی تبدیلیوں کے خطرے سے سب سے زیادہ دو چار ہیں ۔ تمام ترقی یافتہ ممالک یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ زمین پر کھینچی گئی یہ سرحدیں آسمان کی طرف جاکر اپنی حد کھو بیٹھتی ہیں اور زمین پر خارج کی گئی مضر گیس آسمان میں جاکر پھیلتی ہے اور بادلوں کی صورت میں اپناسفر جاری رکھتی ہیں ۔ پاکستان بھی ایسے ممالک کے صف اول کے ممالک میں شامل ہے جو دوسرے ممالک کی نقصان دہ گیس کے بادل اپنے سر پر اٹھائے ہوئے ہے۔ روس، جاپان، ایران، سعودی عرب اور جنوبی کوریا کا شمار کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرنے والے سر فہرست دس ممالک میں ہوتا ہے۔ عالمی سطح پر خارج ہونے والی گرین گیسوں کے اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم بنتا ہے لیکن پاکستان اس کے عوام اپنی بقا کی ایک بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں۔ غذا ، لباس، گاڑیاں ،گھریلو سامانِ اور دیگر آسائش زندگی کی سہولت کےلئے پاکستان کا مقابلہ کسی بھی طور مغرب کے طرز زندگی سے نہیں کیا جاسکتا ۔ جس ملک میں پہلے ہی ایک شخص کو دو وقت کی روٹی کےلئے اتنی تگ و دو کرنی پڑے کہ وہ وقت سے پہلے علاج و دوا کا بوجھ نہ سہار سکے اور اجل کا شکار ہوجائے یا دو کمرے کے گھر میں اپنے محدود وسائل کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہو یا وہ جس کا سرمایہ ہی اس کے سر کی چھت اور اناج و مویشی ہوں اس کو کسی بھی طور مغرب یا امیر ملک کے باشندے کے طرز زندگی سے مماثل قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ یہ غریب مغرب اور امیر ممالک کے باشندوں کو بھی ان کی امارت اور قسمت سے منسوب کرکے صرف خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں اور جب ان کی آنکھ کھلتی ہے تو سیلاب اور بارشیں ان کے خوابوں سمیت سب کچھ بہا لے جاچکے ہوتے ہیں۔