کالم

”پرواز خاک” کتاب کی دوستی شمع روشن رہنی چاہیے

ہم میجر جنرل ریٹائرڈ سعد خٹک کی نئی جماعت پر کالم لکھنے کا احجاز حاصل کر چکے ہیں ۔ جنرل صاحب نے ایک کتاب ”پرواز خاک ”حال ہی میں لکھی ہے جو سیاسی اور قومی تاریخ کی نادر دستاویز ہے ۔ کتاب کی تقریب رونمائی رواں ہفتے اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں دھوم دھام سے ہوئی ، وہ ہر خوشی پر یاد رکھتے ہیں یہی ادا مجھے پسند ہے ۔ میرے نزدیک سیاسی جماعت وہ بھی ملکی سطح پر بنانا اور رجسٹرڈ کرانا آسان کام نہیں ۔ جنرل صاحب نے نئی جماعت عام آدمی مومنٹ بنائی اور اب کتاب بھی لکھ دی ہے دونوں کام کار نامہ سے کم نہیں ۔ پندرہ فروری کو” پرواز خاک” کی رونمائی تقریب اسلام اباد منعقد کی ۔جس میں ہم بھی بطور سپیکر موجود تھے۔ مہمان خصوصی سینٹر عرفان صدیقی مصروفیات کی وجہ سے آغاز میں خطاب کیا اور چل دئے۔ دوسرے اسپیکر ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے بھی مصروفیات کے باعث جلد خطاب کیا اور رخصت ہو گے ۔ یادش بخیر ہماری ملاقات عرفان صدیقی سے ڈاکٹر اجمل نیازی مرحوم کے ہمراہ انکی رہائش گاہ میں بیس سال قبل ہوئی تھی ۔ طویل عرصے کے باوجود وہ پہچان گئے حال احوال پوچھا کالم لکھنے کے سلسلہ کی توصیف کی۔اس موقع پرڈاکٹر اجمل نیازی کو یاد کیا گیا اس تقریب کی خوبصورتی اسٹیج سیکرٹری ڈاکٹر عبدالودود قریشی کا ہونا تھا ۔انہوں نے اس تقریب میں چار چاند لگائے اور محفل میں آئے ہوئے اسپیکر حضرات کو بولنے کا موقع دیا اور خود ضرورت کے مطابق ہی بولے۔ تمام اسپیکرز نے اپنا حق ادا کیا ۔ان میں پاکستان انسیٹیوٹ فار کنفلکٹ اینڈ سیکورٹی سٹیڈیڈیز کے ایم ڈی عبداللہ خان ، سابق وزیر مملکت میاں انوار الحق رامے،ڈاکٹر شازیہ ثوبہ پارلیمانی سیکٹری برائے صحت ،شگفتہ ملک سابق ممبر کے پی کے اسمبلی ، جنرل طاہر محمود قاضی نے اس کتاب پر اظہار خیال کیا ۔ اس تقریب میں جنرل قاضی صاحب سے ملاقات بھی ہوئی ۔انہوں نے دو خوبصورت کتابوں Witness To Carnage 1971 and The Stolen Victory کا تحفہ بھیجا ہے ۔ جنرل صاحب کتاب دوست ہیں کتابوں کا تحفہ اچھا لگا سر بہت بہت شکریہ۔پرواز خاک کی کتاب پر مشہور شخصیت مجیب الرحمن شامی لکھتے ہیں کہ پرواز خاک ایک ایسے پاکستانی کی آپ بیتی ہے جو عام سے گھر میں ایک عام آدمی کے ہاں ایک عام آدمی کے طور پر پیدا ہوا۔ سرکاری سکول میں ایک عام سے طالب علم کے طور پر پڑھا ،فوج میں بھرتی ہوا۔اور آگے بڑھتا گیا یہاں تک کہ میجر جنرل کے منصب پر فائز ہوا ۔اپنی محنت اور لگن اور اہلیت کی بنیاد پر اس نے اپنی زمین کو آسمان بنایا ۔ اس پر ایک درخت اور ستارے کی صورت میں چمکنے لگا۔ پاک فوج میں میرٹ کا جس طرح پاس کیا جاتا ہے وہ اس کی عملی تصویر ہے ۔میجر جنرل ختک کی زندگی کی کہانی خاص طور پر ان نوجوانوں کو پڑھنے کی ضرورت ہے جو اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کی تڑپ رکھتے ہیں ، جو ستاروں پر کمندیں ڈالنا چائتے ہیں ۔انہیں یقین رکھنا چائیے کہ رشوت اور سفارش کے بغیربھی ترقی کی جا سکتی ہے ۔ پاکستانی معاشرے میں نام اور مقام پیدا کیا جا سکتا ہے۔ہمیں بھی اس کتاب کو پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے ۔ اس کتاب میں خود ہی لکھتے ہیں کہ کتاب لکھنے کا خیال کیسے آیا ۔ لکھتے ہیں ویسے میں نہ تو کوئی لکھاری ، نہ تاریخ دان اور نہ ہی میرے پاس علم کا کوئی ذخیرہ ہے جسے میں بانٹ سکوں لیکن ایک ریڑھی والے کی طرح ،ایک ٹیکسی ڈرائیور کی طرح بلکہ کسی بھی متوسط طبقے کے ایک فرد کی طرح میری زندگی کی بھی ایک کہانی ہے ،مشاہدات ہیں ،تجربات ہیں ۔کچھ تلخ خوشگوار یادیں بس سوچا کہ قارئین کے ساتھ بانٹ لوں ایک سے چوبیس صفحہ تک کتاب پڑھ لی جائے تو پرواز خاک کے مصبف کے بارے میں سمجھنے میں آسانی ہو گی ۔ پروازخاک کے صفحہ نمبردو کے آخری پہرے میں مصنف لکھتے ہیں کہ میرے ددھیال کا ایک تاریخی منظر بھی ہے۔ہماری دادی بی بی حوا جس کا تعلق پپبی سے تھا ۔انہیں شادی میں باقی جہیز کے ساتھ ایک چیڑ اور کھجور کا پودا بھی ملا تھا۔ چیڑ کے پودے کو گاﺅں کی مسجد میں لگایا گیا تھا جبکہ کھجور کا درخت ہمارے مشترکہ گھر میں لگایا گیا تھا۔ہمارا گھر کھجور والا اور مسجد چیڑ والے درخت سے جانے جاتے تھے۔ان کی زندگی کے بے شمار دلچسپ واقعات پرواز خاک میں پڑھنے کو ملیں گے۔ایک فوجی سے یہ ظاہر تھا کہ یہ دلیر ہیں لیکن کتاب لکھ کر سیاسی پارٹی بنا کر ثابت کر دیا کہ ہاں میں فوجی کے علاوہ عام شہری کے بھی دلیر ہوں۔یہ کسی چیز کو چھپاتے نہیں۔اپنے ماضی کو کھل کر پیش کیا ۔ ان کی شخصیت ایک کھلی کتاب کی مانند دکھائی دیتی ہے۔ کتاب کے لکھنے سے قد بڑا ہے ۔شخصیت میں نکھار آیا ہے ۔ایسے لوگوں کی اس ملک کو ضرورت ہے ۔پرواز خاک لکھنے پر آپ کے تمام ساتھیوں اور لائف پاتنر کو خصوصی داد دیتے ہیں جھنوں خاک پرواز کو لکھنے اور عوام تک پہنچانے میں اپ کا ساتھ دیا اہم رول ادا کیا۔جنرل صاحب کا کمال یہ ہے کہ سب کو ساتھ لے کر چلے اور کتاب کو منظر عام پر لانے میں کامیاب ہوئے ۔ آپ سب مبارک باد کے مستحق ہیں ۔ہر ایسی شخصیت جو کبھی بھی اہم عہدے پر رہی ہو ، انہیں چائیے کہ اپنے تجربات کی روشنی میں کتاب لکھیں ۔ جو کہتے ہیں کہ اب الیکٹرانک کا دور ہے پرنٹ میڈیا کا نہیں رہا ۔یہ سوچ غلط ہے ۔ کتاب صدیوں تک شخصیات کو زندہ رکھتی ہے ۔تمام ترقی یافتہ ممالک میں پرنٹ میڈیا آج بھی زندہ ہے ۔ قارئین سے گزارش ہے کہ اگر آپ کے اردگرد ایسی شخصیات ہیں تو انہیں لکھنے کا مشورہ دیں ۔ ابراہیم لنکن نے کہا تھا اگر میرے پاس ایک ڈالر ہے تو تمہارے پاس بھی ایک ڈالر ہو تو آپس میں ایک دوسرے سے ایک ایک ڈالر تبدیل کر لیں تو پھر بھی ہم دونوں کے پاس ایک ایک ڈالر ہی ہو گا لیکن اگر ایک خیال میرے پاس ہو اور ایک خیال آپ کے پاس ہے اور وہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ تبدیل کریں تو دونوں کے پاس دو دو خیال ہو جائیں گے ۔ زندگی کے حوالے سے اپنے تجربات مشاہدات اور خیالات شیئر کرتے رہا کریں ۔ہو سکتا ہے کہ آپ کا آئیڈیا کسی انسان کی روح میں جان ڈال دے ۔ اس لئے گزارش ہے کہ لکھنے والوں کی قدر کریں ان کی حوصلہ افزائی کیا کریں۔ کتاب یا کالم کی پہلی لائن لکھنا ہی مشکل ہے پھر قلم کی سیاہی اپنا راستہ پانی کی طرح خود بنا لیتی ہے جیسے پرواز خاک کی کتاب سامنے ہے ۔لکھاری زندہ باد کتاب دوستی پائندہ باد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے