(گزشتہ سے پیوستہ)
ہائر ایجوکیشن کمیشن اور ڈیپارٹمنٹ نے آج تک مالی بدنظمی کا شکار کسی یونیورسٹی کا فنانشل اور اکیڈمک آڈٹ نہیں کرایا، ہائر ایجوکیشن کمیشن اور ڈیپارٹمنٹ نے آج تک کسی نو منتخب وائس چانسلر سے اسکے اثاثوں کی مصدقہ تفصیل حاصل نہیں کی ،اور نہ ہی ٹینیور پورا کرنےوالے کسی وائس چانسلر کے ذاتی اثاثوں کا فنانشل آڈٹ کروایا ہے۔پنجاب میں ایسے کئی وائس چانسلر پینٹ کوٹ میں پھنسے اکڑ اکڑ کر چلتے پھرتے نظر آ جائیں گے ، جو حد درجہ کمزور پس منظر کے باوجود، آج ہر چھٹی کے روز اپنے ہم پیشہ و ہم مشرب دوستوں کےساتھ بیٹھ کر ایک دوسرے کی پلاٹ شماری کیا کرتے ہیں۔ کرپشن کی اس قسم کی طرف کسی کی توجہ نہیں جاتی۔ہمارے ہاں کی یونیورسٹیوں کے بعض نومولود وائس چانسلرز اپنے ٹینیور کا آغاز مخبران جامعہ کے اکساوے پر صبح 8 بجے دفتروں میں چھاپے مار کر اپنی فرض شناسی ، راست بازی اور پابندی وقت کی دھاک بٹھانے سے بھی کرتے ہیں۔ انکے دل و دماغ سے پرائمری اسکول کے پی ٹی ماشٹر جی کا تصور نہیں نکلتا۔وہ سرکاری ٹرانسپورٹ پر صبح 8 بجے آنے والے ایل ڈی سی یا سپریٹنڈنٹ اور شام پانچ چھ بجے تک یونیورسٹی کے تدریسی ، تحقیقی اور انتظامی امور میں مصروف رہنے والے پروفیسرز میں امتیاز کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ایک نئے آنےوالے وائس چانسلر نے بڑے فخر سے بتایا تھا کہ انہیں ایک سینئر نے راز کی ایسی بات بتا رکھی ہے جس سے آپ کسی بھی اجنبی یونیورسٹی یا ادارے میں جا کر فوراً مکمل کنٹرول حاصل کر سکتے ہیں۔پوچھا وہ راز کیا ہے؟ ہلکا سا شرما کر بولے کہ اپنے دفتر کے پی اے کو ساتھ ملا لیں،وہ پورے سسٹم اور ہر چیز سے واقف ہوتا ہے ۔ نئے مقرر ہونےوالے تمام وائس چانسلرز کی پیہم تعریف و توصیف چونکہ اب شعار دینی کا لازمی حصہ بن چکی ہے۔اس لیے یہ بندر ہمیشہ خود کو انسان سمجھتے رہتے ہیں ۔ ایک اور منظر لاہور کی ایک بڑی یونیورسٹی کے نئے نویلے وائس چانسلر کے دفتر کا ہے، یہ دفتر یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی بجائے کسی وڈیرے کا ڈیرہ یا کسی مافیا ڈان کا دربار لگ رہا ہے۔اعلیٰ تعلیمی اداروں کے مناظر ایسے نہیں ہوتے۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں اب یونیورسٹیوں میں بھی دربار داری اور مزار پرستی کا وقت شروع ہو چکا ہے ۔ یہاں پنجاب کی سب سے قدیم یونیورسٹی میں ایک صاحب کرامت مگر پینٹ کوٹ پوش بزرگ کو مسلسل پانچویں بار وائس چانسلر بنا دیا گیا ہے۔ اس حیرت انگیز کرامت کی وجہ سے وہ سوتے وقت بھی مسکراتے رہتے ہیں۔وہ باقی عمر بھی کسی نہ کسی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہی رہیں گے۔ملک میں سیاسی حکومت ہو ،یا عسکری بندوست ، اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بھوت پریت کی اجارہ داری جاری و ساری رہتی ہے ۔ وائس چانسلر کے نہایت درجہ محترم کردار کو تماشا بنانے میں ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کا بنیادی کردار ہے ۔ ہمارے یہاں ایچ ای سی کے کردار اور حدود کار کے بارے میں کافی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ایچ ای سی کے قیام کا بنیادی مقصد پاکستان میں اعلی تعلیم کی مقدار ومعیار اور تسلسل کو مجروح کرنا رہا ہے۔یہ ایک طرح سے کنڑولنگ اتھارٹی بننے کا ڈرامہ کئے جا رہا ہے۔ اب تو خیر یونیورسٹیوں میں نہ تو ذمہ دار وائس چانسلرز رہے ہیں اور نہ ہی ایسے پروفیسرز جو اپنی یونیورسٹی کی خودمختاری کی حفاظت کےلئے ایچ ای سی کے مکمل طور پر نااہل اور پرائیویٹ سیکٹر کی یونیورسٹیوں کے مافیاز کے ملازم عہدے داروں سے اختلاف کر سکیں۔کوئی وائس چانسلر یہ آواز نہیں اٹھاتا کہ ایچ ای سی یونیورسٹیوں کی جاری کردہ ڈگریوں کی تصدیق کا اختیار نہیں رکھتی۔یہ اس اختیار ڈگری جاری کرنےوالی یونیورسٹی کا ہے۔اسی طرح ایچ ای۔ سی کسی مضمون کو ختم کرنے کا اختیار نہیں رکھتی ۔انہوں نے پاکستان اسٹڈیز کےساتھ بھی حرکت کی تھی اور ایک نیا ڈسپلن بنایا تھا، کہیں سے چانٹا پڑا یا چٹکی کٹی ،تو ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے خط لکھ کر پاکستان اسٹڈیز کا مضمون بحال کر دیا۔ یونیورسٹیوں کو اپنی خودمختاری کو پریکٹس کرنا چاہئے۔اردو کو گریجویشن کی سطح پر ختم کرنے سے انکار کرنا ہر یونیورسٹی کا اختیار ہے۔باقی غیر قانونی توسیع ملازمت حاصل کرنے والے چیئرمین کو ایجوکیشن کی اسٹینڈنگ کمیٹی میں بلا کر جواب طلبی کی جانی چاہیئے۔سمجھنے کی بات یہ ہے کہ یونیورسٹیاں مکمل طور پر خود مختار تعلیمی ادارے ہوا کرتی ہیں۔اس خود مختاری کے معنی یہ ہیں کہ؛ یونیورسٹی اپنا تعلیمی نصاب اور تعلیمی ترجیحات متعین کرنے میں مکمل طور پر آزاد ہوتی ہیں۔وہ اپنے ٹیچرز اور دیگر ملازمین از خود اپنے سلیکشن بورڈز کے ذریعے بھرتی کر سکتی ہے ۔ اسے کسی پبلک سروس کمیشن کی طرف نہیں دیکھنا پڑتا۔ یونیورسٹی اپنے مالی معاملات کی ذمہ دار خود ہی ہوتی ہے ،اسے آڈیٹر جنرل آڈٹ اینڈ اکاﺅنٹس کے ڈسپلن کی پابندی نہیں کرنی پڑتی ۔ ہاں سالانہ آڈٹ میں اے جی پی آر کے آڈیٹرز کی دلداری اور طے شدہ ناز برداری ضرور کرنی پڑتی ہے۔ خود مختاری کے ان تمام امور کی تفصیل ، حدود ،طریقہ کار اور مختلف اندرونی کنٹرولنگ باڈیز ، اتھارٹیز کی ترتیب اور اختیارات یونیورسٹی کے پارلیمان سے منظور شدہ ایکٹ میں رقم ہوتا ہے ۔ یونیورسٹیاں اپنا ذہنی و اخلاقی ماحول اپنی تعلیم و تربیت ، اپنے نصابات اور اپنے اساتذہ کے ارفع تعلیمی و تحقیقی معیار سے بناتی ہیں ۔ اپنے طالب علموں پر لباس پہننے کی پابندیوں سے نہیں۔مجھے بتایئے کہ اگر یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر ہمہ وقت پینٹ کوٹ اور ٹائی میں ملبوس رہ کر بھی "نیک ، رفیق، ہم خیال اور بھائی” رہ سکتے ہیں، تو طالب علموں کےلئے نام نہاد ڈریس کوڈکے ناروا ہدایت نامے کیوں ضروری خیال کئے جاتے ہیں؟ کیا لاہور کی پرائیویٹ سیکٹر کی یونیورسٹیوں کے ڈریس کوڈ اور ماحول پر کوئی بات کرتا ہے؟یہ جانتے ہوئے کہ پرائیویٹ سیکٹر کی ان یونیورسٹیوں کے مالکان ایک مذہبی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں تو ان کا ہر فعل سراسر اخلاقی اور صحیح شمار کیا جائے۔؟جب تک خوش قسمتی سے ایچ ای سی پر مسلط کردار بیرون ملک شفٹ نہیں کئے جاتے، ملک کے تعلیمی حالات درست نہیں ہو سکتے ۔ چیئرمین ایچ ای سی دو سال کےلئے دوسری بار منتخب ہونے اور مدت مکمل کرنے کے بعد تیسری بار کےلئے ایک سال کی مزید توسیع حاصل کر چکے ہیں۔پس ثابت ہوا کہ اس ملک کے اداروں پر نحوست کے گہرے بادل چھائے رہیں گے اور نوجوان بیرون ملک شفٹ ہوتے رہیں گے۔جہاں تک لنڈے کے وائس چانسلروں کا تعلق ہے، ان کا کاروبار چلتا ، پھلتا پھولتا اور وسیع ہوتا چلا جا رہا ہے ۔
کالم
پنجاب میں وائس چانسلروں کا لنڈا بازار
- by web desk
- اکتوبر 4, 2024
- 0 Comments
- Less than a minute
- 281 Views
- 10 مہینے ago