کالم

پھول اور پھولوں جیسے لوگ

rohail-akbar

پاکستان پھول جیسا ملک ہے اور ہم نے بھی اس کے ساتھ وہی کیا جو پھولوں کے ساتھ کرتے ہیں توڑتے ہیں مسلتے ہیں روندتے ہیں اور پھر پھینک دیتے ہیں اس پھول جیسے ملک میں کچھ لوگ بھی پھولوں کی مانند ہیں جو ہمیں کانٹوں کی طرح کھٹکتے ہیں مگر من حیث القوم ہم وہ لوگ ہیں جو کسی کو ترقی کرتا دیکھ نہیں سکتے اگر کوئی کرجائے تو اسکی ٹانگیں کھینچنا اپنا فرض سمجھتے ہیں بات پھولوں کی ہورہی ہے تو پھول ان مصنوعات میں ایک ہے جو کم وقت میں زیادہ منافع دیتا ہے مگر ہم اس پر توجہ دینے کی بجائے فضول میں اپنا وقت اور پیسہ ضائع کرتے رہتے ہیں ہمارے پاس ایک ایسے پھول کی کاشت بھی ہوتی ہے جسے ہم اپنی کمائی کا زریعہ بنا سکتے ہیں اس پھول کو ہم نے درباروں،مزاروں پر چڑھانے کے بعد ضائع کرنے میں کمال رکھا ہوا ہے مخصوص لوگ ہیں جو اس پھول کی کاشت میں دلچسپی رکھتے ہیں میری مراد گلاب کے پھول سے ہے جو پھولوں کا سردار بھی ہے لاہور بھی کبھی پھولوں اور باغوں کا شہر ہوا کرتا تھا مگر وقت کے سات ساتھ کچھ بے قدرے لوگوں کی وجہ سے اس شہر کو بھی نظر لگ گئی اب تو دھول ،مٹی اور دھواں ہے جو ہر وقت شہر اور شہریوں کے آگے پیچھے رہتا ہے ہم آج بھی لاہور کو خوبصورت اور پھولوں کا شہر بنا سکتے ہیں اور اسکے لیے کرنا صرف یہ ہے کہ ہر شہری اپنے گھر کی خوبصورتی کےلئے ایک یا دو پودے پھولوں کے لگا لے ہماری گلیاں اور محلے خوشبو سے مہک اٹھیں گے اور جو پھول پی ایچ اے نے پارکوں میں لگائے ہوئے ہیں انہیں ٹوڑنے کی بجائے انکی خوبصورتی سے خود بھی لطف اندوز ہو اور دوسروں کو بھی ہونے دیں ہمیں اپنی اس عادت سے نجات دلانی چاہیے کہ چلتے چلتے جو چیز ہاتھ میں آئے اسے توڑ دیا اور پھر مسل کر نیچے پھینک دیا یہی جہالت کی نشانی ہے اسی وجہ سے تو ہم دنیا کے 154نمبر پر ہیں اس وقت سوئٹرز لینڈلٹریسی کے حوالہ سے پہلے نمبر پر ہے وہاں کسی کے ہاتھ سے کسی جاندار کو نقصان پہنچنا تو بہت دور کی بات ہے وہاں کسی بے جان کو بھی نہیں ہلایا جاتا سڑک یا فٹ پاتھ پر کوئی چیز گری ہوئی کسی کو نظر آجائے تو وہ ہماری طرح آنکھ بچا کرنکلتا نہیں بلکہ اسے اٹھا کر ڈسٹ بن میں پھینکے گا خواہ اس کیلئے اسی کتنی ہی دور پیدل کیوں نہ چلنا پڑے ہم تو وہ لوگ ہیں جو پھولوں کو بھی مسلتے ہیں تو بے دردی کے ساتھ اور تو اور ہم اپنی شاعری میں بھی گلابوں کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں اگر ہم حقیقی پھولوں کی طرف توجہ دیں تو پاکستان گلاب کی کاشت اور اس کی ویلیو ایڈڈ مصنوعات کو فروغ دیکر قیمتی زرمبادلہ حاصل کر سکتا ہے،عالمی منڈی میں روز آئل کی قیمت 5ہزار ڈالر فی کلو گرام تک ہے لاہور، قصوراورچوآسیدن شاہ سمیت پنجاب کے مختلف علاقوں میں گلاب کے پھول کی کاشت ہوتی ہے دوسرے صوبوں میں اس کی کاشت کم پیمانے پر کی جاتی ہے گلاب کی کاشت اور اس کی ویلیو ایڈڈ مصنوعات کو فروغ دینے سے پاکستانی کسانوں کو اچھا منافع ملنے کے ساتھ ساتھ ملک کوبھی شاندار زرمبادلہ کمانے میں بھی مدد مل سکتی ہے ایک کلو خالص تیل نکالنے کےلئے تقریبا چار ٹن گلاب کے پھولوں کی ضرورت ہوتی ہے۔گلاب کے تیل کی قیمت 595 ڈالر سے 5,000ڈالرفی کلوگرام تک ہوتی ہے اس وقت تقریبا 90فیصدگلاب کے پھولوں کو گلاب کا تیل نکالنے کےلئے اور صرف4فیصدتک گلاب کا عرق حاصل کیا جاتا ہے گلاب کے پھول کوجام، جیلی، کھانے کا ذائقہ، کھانا پکانے، چائے ، کاسمیٹکس اور پرفیومز میں بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے گلاب کے بیج بھی خوشبودار مسالے کے طور پر استعمال ہوتے ہیں مہمان نوازی کی صنعت ، مزارات اور سجاوٹ میں بھی گلاب کا استعمال بڑی مقدار میں ہوتا ہے گلاب کی پنکھڑیوں کو تیل تیار کرنے کےلئے استعمال کیا جاتا ہے جس کی ضمنی پیداوار گلاب کا عرق ہے جو بھاپ کشید کے ذریعے حاصل کیے جاتے ہیں یہ خوشبودار نوٹ اور ادویات تیار کرنے کےلئے بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ سینیول وہ جز ہے جو گلاب کی مخصوص خوشبو کا سبب بنتا ہے اور مصنوعی شکل میں بھی دستیاب ہے 1سے 2 ملی لیٹر تیل حاصل کرنے کےلئے کافی مقدار کی ضرورت ہوتی ہے۔ صرف خالص ضروری تیل کو دواں کے مقاصد کےلئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ ان مرکبات کی صحیح مقدار کا صرف ہم آہنگی کا اثر ہی حقیقی دواوں کے اثرات دیتا ہے گلاب کی ایک اور پیداوار گلاب ہپ آئل ہے، جسے ہائیڈرو ڈسٹلیشن کے ذریعے نکالا جاتا ہے۔ اسے کھانے کے اجزا یا دیگر مقاصد کےلئے بھی استعمال میں لایا جاتا ہے عام طور پر مارکیٹ میں دستیاب گلاب کے تیل کو اس کی پنکھڑیوں کو ٹوئنز میں دبا کر اور پروسیس کر کے نکالا جاتا ہے۔ گلاب کا خالص ترین تیل نکالنے کا کام صرف سپر کریٹیکل کاربن ڈائی آکسائیڈ نکالنے والے یونٹ کے ذریعے کیا جاتا ہے جو ایک اوسط سرمایہ کار کےلئے بہت مہنگا ہو سکتا ہے تاہم حکومت گلاب کی کاشت والے علاقوں کے قریب کے علاقوں میں ایسے یونٹ لگا سکتی ہے ایسے منصوبوں کےلئے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کو بھی حکومت اپنے ساتھ شامل کرسکتی ہے تازہ گلاب کے پھول کی دلکش خوشبو اور اسکا فائدہ اپنی جگہ خشک گلاب کی اہمیت بھی بہت زیادہ ہے اگراس کو پولٹری فارمز پر بائیولوجیکل لیٹر کے طور پر استعمال کیا جائے تو یہ اینٹی بیکٹیریل کے طور پر کام کرتا ہے زیادہ تر پھولوں کی ایک بڑی مقدار ضائع ہو جاتی ہے جسے پرندوں کے پنجروں اور کھیتوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے عالمی سطح پر گلاب کو اس کی حقیقی یا پروسیس شدہ شکل میں ایک قیمتی پیداوار سمجھا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے کاشتکار اسکی معاشی قدر سے بخوبی واقف نہیں ہیں اور خاص کر بلوچستان اور گلگت بلتستان میں ایسے علاقوں کے رہائشی لوگ جو خشک اور سرد جگہ رہتے ہیں وہ اس کام کو سمجھیں اور شروع کردیں تو بہت سے مالی فوائد حاصل کرسکتے ہیں بلخصوص بلوچستان اورایسی جگہیں جہاں پانی کی کمی ہے ان علاقوں میں گلاب کی کاشت کو فروغ دیکر ہم لاکھوں روپے کما سکتے ہیں جبکہ خشک ٹھنڈے علاقے اس کےلئے مثالی ہیں محکمہ زراعت کاشتکاروں کو گلاب کی قیمتی مصنوعات حاصل کرنے کےلئے ان کے علاقوں میں چھوٹے پلانٹس لگانے میں مدد کرسکتا ہے ان دنوں گلاب کے پھول تقریبا 150روپے فی کلو اور گلاب کی پتیاں 100روپے فی کلو فروخت ہورہی ہیں خشک پھو ل اور پنکھڑی 4000روپے سے 6000روپے فی من فروخت ہوتی ہے وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کی ہدایت پر محکمہ زراعت اس وقت کسانوں کےلئے کافی متحرک ہوا ہے اور جس طرح صوبہ میں کسانوں کی خدمت کرنے میں مصروف ہے اسی طرح باقی صوبوں کی زراعت سے متعلقہ محکمے کام شروع کردیں تو کسانوں کے حالات بدلنے میں دیر نہیں لگے گی حکومت کسانوں کو اس کی کمرشل ویلیو، ویلیو ایڈیشن، سیلز پروموشن، مارکیٹنگ، ایکسپورٹ کے بارے میں مناسب آگاہی فراہم کرے کاشتکار انتہائی خوشبودار اور زیادہ پیداوار دینے والی اقسام کاشت کر کے شاندار منافع کما سکتے ہیں کاش ہم پھولوں کی کاشت کے ساتھ ساتھ پھول اور پھول جیسے لوگوں کی قدر کرنا بھی سیکھ جائیں اور یہ سب کچھ تعلیم کے بغیر ممکن نہیں اور جو لوگ تعلیم کو عام کرنے میںمصروف ہیں وہی پھولوں جیسے لوگ ہیں۔ ان میں سر فہرست وی سی اسلامیہ یونورسٹی بہاولپور ڈاکٹر اطہر محبوب ہیں جنہوں نے پسماندہ ترین علاقوں میں علم کی شمع سے وہ روشنی پھلا دی ہے کہ آنےوالے وقت میں اب یہ علاقہ ترقی کی شاہراہ پر سب سے آگے ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri