کالم

چیف جسٹس آف پاکستان کی مثالی کارکردگی

xپاکستان کی تاریخ میں شاید پہلی بار عدالتی نظام میں کچھ بہتری کے آثار نظر آئے ہیں اور انشااللہ مزید بہتری کی امید بھی پیدا ہوئی ہے کیونکہ سپریم کورٹ میں ریفارمز کے حوالے سے بہت سے اہم اقدامات اٹھائے جا چکے ہیں۔ عدالتی نظام میں اصلاحات سے کیسز کے بیک لاگ میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے اور سپریم کورٹ میں قلیل مدت میں بفضل اللہ 8ہزار سے بھی زیادہ مقدمات کو بطریق احسن نمٹا دینا بلاشبہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے اور ماشااللہ خوش آئند بات ہے کہ ججز خوشگوار ماحول میں اور ایک اجتماعی سوچ کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں ۔ میرے خیال میں اس کامرانی کا کریڈٹ بالخصوص چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس یحییٰ آفریدی جی کو ہی جاتا ہے جو اپنی سوچوں کو کبھی بھی دوسروں پر مسلط نہیں کرتے اور ان کا یہ کہنا ہے کہ ہم سب ججز آپس میں بھائی بھائی ہیں، میں اپنی رائے کسی ساتھی دوست پر مسلط نہیں کرتا، میری رائے ہے کہ متفقہ اور مشترکہ وزڈم کے ساتھ آگے چلنا چاہیے، مقدمات کی وجہ سے گزشتہ چند سال سخت تھے مگر وہ وقت گزر گیا جب ججز نے ایک دوسرے کے خلاف پوزیشن لی ہوئی تھی، ججز کو وقت دیں، وقت کے ساتھ ساتھ چیزیں ٹھیک ہو جائیں گی۔ موصوف جب چیف جسٹس آف پاکستان بنے تھے تو تب میری طرف سے ان کے لیے نہ صرف دعائیں تھیں بلکہ انتہائی نیک تمنائیں بھی تھیں اور میرے قلم نے انہیں اپنا ایک شعر نذرانہ بھی پیش کیا تھا کہ :
تو آس ہے کل کی اور امید ہے آج کی
تو حرمت و توقیر ہے اس دیس و سماج کی
گزشتہ دنوں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی نے پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرا ویژن ہے کہ سپریم کورٹ میں کیس فائل ہو تو سائل کا واٹس ایپ نمبر لیا جائے تاکہ اسے کیس کے حوالے سے تمام معلومات ملتی رہیں، ارجنٹ درخواستوں کی سماعت کا میکنزم بنا رہے ہیں تاکہ انصاف کی فراہمی میں بہتری آئے، فوجداری، ٹیکس مقدمات اور انتخابی عذرداریوں کو سننے کے لیے اسپیشل بینچز بنا چکے ہیں۔ لاپتہ افراد کے کیسز نے ہلا کر رکھ دیا، سپریم جوڈیشل کونسل میں ججز کے خلاف شکایات پر کارروائی چل رہی ہے، اے ڈی آر پر جسٹس منصور علی شاہ نے بہت کام کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ججز پر تنقید ہونی چاہیے لیکن تعمیری تنقید ہو۔ میری نظر میں چیف جسٹس آف پاکستان کی یہ بات صد فیصد درست ہے کیونکہ مثبت اور تعمیری تنقید ہر چیز کے حسن و خوبی کو اجاگر اور نمایاں کرتی ہے جبکہ تنقید برائے تنقید اور منفی تنقید محاذ آرائی اور رسوائی کے سوا کچھ نہیں لیکن ہم لوگ بولنے سے پہلے کچھ تولتے نہیں ہیں یعنی سوچتے نہیں ہیں کہ ہم کیا کہنے جا رہے ہیں۔ بانی کی بہن علیمہ خان فرماتی ہیں کہ ہمت ہے تو عمران خان کو سزا سنا کر دکھائیں ، جج صاحب کو بہت مشکل پیش آئے گی جب وہ سزا کا فیصلہ لکھیں گے۔ میرے خیال میں یہ بی بی صاحبہ سمجھتی ہیں کہ ججز نے ابھی فیصلہ لکھا ہی نہیں ہے۔ بیرسٹر علی ظفر فرماتے ہیں کہ عمومی طور پر فیصلوں سے لوگ ڈرتے ہیں لیکن عمران خان سے فیصلہ ڈر رہا ہے۔ معلوم نہیں ایسی باتیں کر کے یہ لوگ کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔ پیارے پاکستان کو مسائلستان بنا کر بھی ہم بدگمانی اور بد زبانی سے باز نہیں آ رہے ہیں، سوچنا یہ ہے کہ ہمارا مستقبل کیا ہوگا۔؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب ایک دوسرے کو تسلیم کریں دوسروں کا احترام و تکریم کریں اور ملک و قوم کا سوچیں، آئیں ہم امن و محبت کو عام کریں، سب کچھ دیس کے نام کریں کیونکہ عہدِ موجود میں ہمیں اتفاق و اتحاد اور یکجہتی و اجتہاد کی اشد ضرورت ہے۔ خیبرپختونخوا کی مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر سے ملاقات میں دہشتگردی کے خلاف متفقہ سیاسی آواز اور عوامی حمایت کی ضرورت پر زور دیا اور اس بات پر اتفاق کیا کہ انتہاپسند فلسفے کے خاتمے کے لیے سیاسی اختلافات سے بالاتر ہو کر اتحاد ضروری ہو گیا ہے۔ سیاسی و سماجی نمائندوں نے دہشت گردوں کے خلاف قوم کی جنگ میں مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی غیر متزلزل حمایت کا عزم ظاہر کیا۔ اس موقع پر وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور وزیراعلی خیبرپختونخواہ علی امین گنڈا پور بھی موجود تھے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب عصری تقاضوں کو سمجھیں اور زمینی حقائق کو جان کر جیں اور ملی و قومی یکجیتی کے ساتھ اخلاص و ہمدردی اور ایک محبت و امن کا بیانیہ بنائیں تاکہ ملک میں ایک حقیقی و دائمی سیاسی و معاشی استحکام آئے۔ ISPR کے مطابق آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے پشاور کا دورہ کیا، پاک فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی قربانیوں اور عزم کو سراہتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کی خلاف جنگ میں ہمارے سیکیورٹی اداروں کی مثالی کامیابیاں قوم کے لیے باعث فخر ہیں۔ سپہ سالار کی یہ بات بالکل بجا اور برحق ہے کہ ہماری فورسز بےمثال جرات، پیشہ ورانہ مہارت اور قربانیوں کے ذریعے دہشت گردوں کو موثر طریقے سے کمزور کر رہی ہیں۔ اسی لیے تو سب کہتے ہیں خاص و عام تمام ، پاک فوج کو سلام ، میرا اپنا ہی ایک شعر ہے سپہ سالار اور پاک فوج کے نام :
ایک مسلم سا کسی کا اوج نہیں ہے
پاک فوج جیسی کوئی فوج نہیں ہے

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے