اداریہ کالم

کفایت شعاری مہم ،حکومت کااچھااقدام

idaria

وفاقی حکومت نے اخراجات پرکمی پانے کے لئے کفایت شعاری مہم شروع کرنے کااعلان کیاہے اور وفاقی وزراءنے الاﺅنسز اورمراعات نہ لینے کافیصلہ کیاہے تاہم تنخواہیںوہ بدستورلیں گے جبکہ بڑی بڑی گاڑیاں واپس کرکے انہوں نے 1800سی سی تک کی گاڑی لینے کافیصلہ کیاہے ۔ ہم کافی عرصے سے یہی گزارشات کرتے چلے آرہے تھے کہ حکومت کو اپنے اخراجات سمیٹنے چاہئیں کیونکہ ملکی خزانے پراس کے باعث پڑنے والابوجھ تقریباً نصف سرکاری مراعات کے باعث ہوتا ہے مگر یہ بالادست طبقہ اپنی مراعات کم کرنے پرتیارنہ تھا۔وزیراعظم کایقینا یہ ایک ا چھا اقدام ہے کہ انہوں نے وزراءکو اس بات پرقائل کرہی لیاتاکہ قومی خزانے پرپڑنے والابوجھ کم کیاجاسکے ۔کیا یہ اچھا ہوتا کہ وزراءتنخواہیں نہ لینے کابھی فیصلہ کرتے کیونکہ تنخواہوں کی مد میں ہرمہینے بھاری رقوم کی ادائیگی قومی خزانے سے کی جاتی ہے ۔قومی اسمبلیوں میں آنے والے اراکین اوروزراءکے منصب تک پہنچنے والی شخصیات کوئی معمولی نہیں ہوا کرتیں بلکہ یہ نسل درنسل اربوں پتی چلے آتے ہیں ان کے لئے تنخواہوں کانہ لیناملک وقوم کے لئے مفید ثابت ہوگا۔ مگر یہ طبقات اپنی تنخواہیں چھوڑنے پرتیارنہیںجبکہ قوم کے غریب اورکم آمدنی والے طبقات کو یہ بچت اورکفایت شعاری کے بھاشن دیتے ہیں مگر خود جب اس پرعملدرآمدکرناپڑے توانہیں یہ مشکل نظر آتاہے تاہم الاﺅنسز نہ لینے کااقدام قومی خزانے پرکچھ نہ کچھ اثرضرورڈالے گا۔اس کے ساتھ ساتھ وفاقی وزرا ءاوراعلیٰ سرکاری ملازمین کو اس بات کاپابندبنایاجاناچاہیے کہ وہ صرف ایک گاڑی پراکتفا کریں کیونکہ یہ ایک عام روش ہے کہ وفاقی وزیر کے فورس میں پندرہ سے بیس گاڑیاں سرکاری کھڑی ہوتی ہیں اورآٹھ سے دس گاڑیاں ہرسیکرٹری صاحبان کے پورچ میں موجود ہوتی ہیں جن پرسرکاری پٹرول اورمینٹیننس کی مد میں ہرماہ کروڑوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں۔اگر کفایت شعاری مہم چلاناہی ہے تو پھرحقیقی بنیادوں پر کفایت شعاری کاچلن اختیار کرناہوگا ۔محض دکھاوے کےلئے یاسستی شہرت کے حصول کے لئے نہیں ہوناچاہیے۔گزشتہ روز وفاقی کابینہ نے ملکی معاشی حالات کے پیش نظرکفایت شعاری اقدامات کی منظوری دیدی ہے، وفاقی وزرا سرکاری گاڑیاں واپس کریں گے اورپٹرول کم کریں گے، وفاقی وزرا اپنی تنخواہیں بھی نہیں لیں گے، وزراءسرکاری دفاتر میں خزانے سے کوئی خرچ نہیں کریں گے، سرکاری دفاتر میں بجلی کا کم سے کم خرچ کرنےکا فیصلہ کیا گیا ہے، غیر ضروری غیر ملکی دوروں پر پابندی ہوگی، وزیراعظم آفس اور وزارتوں کے اخراجات بھی کم کرنےکا فیصلہ کیا گیا ہے، وزارت خارجہ کو فارن مشن کے اسٹاف کوکم کرنےکی ہدایت بھی کی گئی ہے، سرکاری افسران اور وفاقی کابینہ کے ممبران کےلئے بزنس کلاس سفر پر پابندی لگادی گئی ہے،کابینہ ممبران اور سرکاری افسران فائیو اسٹار ہوٹل میں نہیں ٹھہریں گے، سرکاری تقریبات میں ڈنر اور لنچ میں ون ڈش کی پابندی ہوگی جبکہ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ملک میں ابھی مزید مہنگائی ہوگی جبکہ وفاقی وزرا، وزیر مملکت، معاونین و مشیروں نے تنخواہیں، مراعات نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔کابینہ اجلاس کے بعد وفاقی وزرا اور معاونین کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ 75 سالوں میں اہل ثروت نے قربانی نہیں دی مگر اب ملک کی خاطر نہیں قربانی دینا پڑے گی، انشا اللہ ہم اجتماعی کوشش سے پاکستان کو مشکلات سے نکال دیں گے۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات آخری مراحل میں ہیں، معاہدے کے مطابق ہم پروگرام جاری رکھنے کے لئے تمام شرائط کو پورا کریں گے۔ ضمنی فنانس بل میں بڑی کمپنیوں پر ٹیکسز لگائے، بیشتر ٹیکس پرتعیش اشیا پر لگائے گئے ہیں جبکہ آئی ایم ایف کی شرط پر بعض سبسڈیز ختم کی جارہی ہیں۔ غریب طبقے کیلئے سبسڈیز برقرار رکھی جائیں گی، سنہ 1965 کی جنگ ہو، زلزلہ یا سیلاب ہمیشہ غریب اور متوسط طبقے نے ہی قربانی دی، اب تک 75 سالوں میں حکومتوں کے شاہی اخراجات غریب طبقے نے برداشت کیے، غریب خاندان کا ایک شخص متاثر ہوتو سارا خاندان متاثر ہوتا ہے جبکہ اشرافیہ کے بچوں کا بیرون ملک مہنگا علاج ہوتا ہے۔ امید ہے عدلیہ اور عسکری ادارے بھی کفایت شعاری مہم کا حصہ بنیں گے ،ضمنی مالیاتی بجٹ پاس ہوچکا ، جس میں تمباکو، لگژری آئٹمز پر ٹیکس لگائے ہیں، زیادہ تر ٹیکس پرتعیش اشیا پر لگائے گئے، منی بجٹ میں کوشش کی گئی کہ غریب پر اثر نہ پڑے،کفایت شعاری مہم سے سالانہ 200ارب روپے کی بچت ہوگی ،انگریز دو ر میں وفاق اور صوبوں میں بنائی جانے والی سرکاری رہائشگاہوں کا سائز کم کرکے باقی رقبہ نیلام کیا جائے گا۔
تحریک انصاف کی جیل بھروتحریک کاآغاز
بالآخرعمران خان کی خواہش پر ملک بھرکے کارکنان نے جیل بھروتحریک شروع کرہی دی ہے ۔ جیل بھرو تحریک کے سلسلے میں پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی، اسد عمر، سرفراز چیمہ، عثمان اکرم اور دیگر نے گرفتاریاں دے دیں۔پولیس اہلکار سپیکرپراعلانات کرتے رہے کہ جوکارکن گرفتاری دیناچاہتے ہیںوہ بڑے شوق سے گرفتاری دیدیں۔نگران حکومت پنجاب کے مطابق پی ایس ایل کے سلسلے میں دفعہ 144کا نفاذکیا گیا تھاسیاسی جماعت نے مال روڈ پر احتجاج کرکے دفعہ 144کی خلاف ورزی کی، گرفتارافراد کیخلاف قانون کے مطابق کارروائی ہوگی۔دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ عوام نے جیل بھرو تحریک اور عمران کان کی منفی سیاست کو مسترد کر دیا ہے۔عمران خان پی ٹی آئی کے معصوم کارکنوں کو اپنی سازش کیلئے استعمال کرنا چاہتا تھا لیکن جیل بھرو تحریک شروع ہونے سے پہلے ہی فلاپ ہو گئی، جیل بھرو تحریک کیلئے 300 سے 400 لوگ جمع ہوئے، حکومت نے 500 افراد کی گرفتاری کا بندوبست کر رکھا تھا، 3 گاڑیوں میں 80 کے قریب لوگ بیٹھے جنہیں حراست میں لیا گیا۔جیل بھروتحریک قیام پاکستان کے بعد تحریک نفاذختم نبوت کے موقع پرپہلی بارشروع کی گئی تھی اورقیام پاکستان سے پہلے تحریک خلافت کے موقع پرجیل بھروتحریک کاسلسلہ شروع ہواتھا اوراب تحریک انصاف نے اسے زندہ کردکھایامگراب سوال یہ ہے کہ اپنی خواہش پرجیل جانے والے کارکنان کتناعرصہ جیل میں گزاریں گے کیاوہ اپنی ضمانتوں کے لئے پھرعدالتوں سے رجوع کرینگے۔
وزیردفاع کاوفد کے ہمراہ دورہ افغانستان
افغانستان پاکستان کاہمسایہ برادرملک ہے مگر بدقسمتی سے پاکستان کے اندر ہونیوالی تمام تر دہشتگردی کے تانے بانے افغانستان سے جاکرملتے ہیں اوران دہشتگردو ں کے ہینڈلرز افغانستان میں موجود ہیں پاکستان کی خواہش ہے کہ افغانستان اپنی سرزمین کو پاکستان کیخلاف دہشت گردی میں استعمال نہ ہونے دے۔اس مقصد کےلئے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کی سربراہی میں اعلیٰ سطحی وفد نے افغانستان کا دورہ کیا۔ وفد نے افغان عبوری حکومت کی سینئر قیادت سے ملاقات کی۔ ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کی خیبرپختونخوا میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی جیسے معاملات پر بات چیت ہوئی۔ فریقین نے دہشت گردی سے نمٹنے کےلئے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ ملاقات میں مختلف شعبوں میں دوطرفہ تعاون میں اضافے پر بھی اتفاق کیا گیا۔
سانحہ بلوچستان۔۔۔ ملزمان کوکیفرکردارتک پہنچایاجائے
بارکھان میں قتل کی جانےوالی گراں ناز مری کے پانچ مغوی بچوں کی سردار عبدالرحمان کھیتران کے گھر میں موجودگی کی مبینہ تصاویر سامنے آگئیں۔سردار عبدالرحمان کھیتران کے بیٹے انعام کھیتران کا دعویٰ ہے کہ بڑی بیٹی بارکھان والے گھر اور بیٹے کوئٹہ والے گھر پر تھے، واقعے کیخلاف کوئٹہ میں جاں بحق افراد کے لواحقین اور مری قبیلے کے افراد کا دھرنا دوسرے روز بھی جاری رہا۔ مظاہرین نے روڈ بلاک کرکے ملزمان کیخلاف کارروائی کامطالبہ کیا۔ پاکستان میں سرمایہ دارانہ اورجاگیردارانہ نظام کاخاتمہ ذوالفقارعلی بھٹو نے 70ءکی دہائی میں کردیاتھااورزرعی اصلاحات کرکے بڑے جاگیرداروں کی کمرتوڑنے کی کوشش کی مگر ان جاگیرداروں نے ملکرذوالفقارعلی بھٹو کاخاتمہ کردیا۔بلوچستان میں پیش آنے والایہ سانحہ افسوسناک ہے جس کی غیرجانبدارانہ تحقیقات اورملزمان کو کیفرکردارتک پہنچاناضروری ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri