رحیم یار خان ، صادق آباد اور راجن پور سے ملحقہ کچے کے علاقے میں، نیشنل سکیورٹی کونسل کے حکم پر ڈاکو¶ں کے خلاف گرینڈ آپریشن کیا گیا ، جس میں پنجاب پولیس کی 11 ہزار سے زائد نفری اور افسران نے حصہ لیا۔ سب میں بڑی بات اس میگا آپریشن کو خود آئی جی پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور نے بطور فرنٹ مین کمانڈ کیا، اس موقع پر انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ” تمام منظم گینگز اور ان کے سہولت کاروں کو جلد قانون کی گرفت میں لایا جائے گا، اورکریمینلز اور ملک دشمن عناصر کا مکمل طور پر خاتمہ کیا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ آپریشن کے لیے تمام سیاسی و عسکری قیادت ایک پیج پر ہیں، جلد ہی سندھ پولیس بھی اپنے علاقوں میں میگا آپریشن کا آغاز کر رہی ہے“ ۔ پاکستان کے اہم ترین دریا دریائے سندھ کے دونوں اطراف مٹی کی موٹی دیواریں ہیں جوکہ دریا کا پانی باہر نکلنے سے روکتی ہیں، دریا کے دونوں اطراف کی دیواروں کے درمیان والے علاقے کو کچا کہا جاتا ہے ۔ ان دیواروں کے درمیان دریا کا فاصلہ کہیں دس کلومیٹر ہے تو کہیں دو کلومیٹر۔ دریائے سندھ جیسے جیسے جنوب کی جانب بڑھتا ہے اس کی موجوں کی روانی سست اور اس کی وسعت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے ۔ جون اور جولائی کے بعد جب مون سون بارشیں ہوتی ہیں تو دریا کی پوری چوڑائی پانی سے بھری ہوتی ہے مگر سردیوں میں دریا صرف درمیان میں ایک پتلی لکیر کی طرح بہتا ہے اور باقی علاقہ خالی رہتا ہے ۔ شمالی سندھ کے قریب کچے کا علاقہ عرصہ دراز سے ڈاکو¶ں کی پناہ گاہ بنا ہوا ہے ، جوکہ یہاں پناہ گاہیں بنا کر آس پاس کے علاقوں میں دہشت پھیلاتے اور پولیس کی دسترس سے دور یہاں پناہ بھی لیتے اور وقت پڑنے پر قانون نافذ کرنے والوں کا مقابلہ بھی کرتے ہیں۔ ڈکیتی ، اغواءبرائے تاوان اور ملکی سلامتی کونقصان پہنچانے جیسے سنگین جرائم میں ملوث ان جرائم پیشہ عناصر نے نہ صرف صادق آباد، رحیم یار خان، راجن پور، تونسہ، ڈیرہ غازیخان، مظفر گڑھ ، ملتان بلکہ پاکستان بھر کے شہریوں کی زندگی اجیرن بنارکھی ہے۔ کچے کے علاقے میں عرصہ دراز سے سنگین جرائم میں ملوث ڈاکو¶ں کے پاس نہ صرف جدید اسلحہ، بلٹ پروف جیکٹس موجود تھیں، بلکہ سرویلنس اور پولیس کی پوزیشن معلوم کرنے کے لیے ڈرون کا بھی استعمال کرتے تھے۔ ماضی میں متعدد بار یہاں آپریشن کئے گئے، پولیس کی بکتربند گاڑیوں میں جانے والے پولیس افسران بھی بچ نہ سکے اور ڈاکو¶ں سے مقابلہ کرتے ہوئے کئی پولیس افسران شہید ہوگئے ۔ ان ڈاکو¶ں کے پاس ایسے جدید ہتھیار تھے جن کے سامنے بلٹ پروف گاڑیاں بھی بے کار ہوجاتیں۔ ماضی میں پولیس نے آپریشن کے بعد ان ڈاکو¶ں کے قبضے سے اینٹی ایئر کرافٹ گن بھی برآمد کی تھی جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شمالی سندھ کے ڈاکو¶ں کے خلاف آپریشن کرنا کس قدر مشکل تھا ۔ شمالی سندھ کے ڈاکو نیشنل ہائی وی پر ناکہ لگا کر ایک ہی رات میں سینکڑوں مسافر بسوں کو لوٹ لیتے تھے ۔ جس کے بعد اس علاقے میں رات میں سفر کرنا مشکل ہوتا تھا اور بعد میں پولیس موبائلوں کے سا تھ قافلہ بنا کر مسافر بسوں کو یہاں سے گزارا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ ڈاکو بیوپاریوں اور کاروباری لوگوں کو بھتے کی پرچی بھیجتے اور بھتہ نہ دینے پر ان کو قتل کردیا جاتا۔ ماضی میں شمالی سندھ کے امیر ترین سمجھے جانے والے ہندو ان ڈاکو¶ں کے پسندیدہ شکار تھے جس کے باعث گذشتہ کچھ سالوں میں شمالی سندھ سے ہندو¶ں کے بڑی تعداد کراچی منتقل ہوگئی ۔ اسی طرح جنوبی پنجاب میں ڈیرہ غازی خان اور راجن پور اضلاع میں دریائے سندھ کے کچے کا علاقہ جو صوبہ سندھ تک تقریباً ڈیڑھ سو کلومیٹر تک پھیلا ہے ، جہاں ایک دہائی سے زائد عرصے تک ”چھوٹو گینگ “کا راج تھا۔ اس گروہ کا سرغنہ غلام رسول عرف چھوٹو تھا، جس نے جنوبی پنجاب اور شمالی سندھ تک اغوا برائے تاوان اور لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ یہ گینگ کچا جمال اور کچا مورو کے نزدیک 2010 ءکے سیلاب کے بعد ظاہر ہونے والے دس کلومیٹر لمبے اور تین کلومیٹر چوڑے ” چھوٹو جزیرے “ پر منتقل ہو گیا تھا اور یہ جزیرہ تمام فورسز کےلئے کئی سالوں تک نوگو ایریا بنا ئے رکھا۔ اپریل 2016 ءمیں راجن پور سے متصل کچے میں پاک فوج کی جانب سے جدید ہتھیاروں اور فوجی ہیلی کاپٹروں کے ساتھ 23 روز تک کئے جانے والے آپریشن ”ضرب آہن “ میں چھوٹو گینگ کے سربراہ غلام رسول عرف چھوٹو نے اپنے 13 ساتھیوں سمیت ہتھیار ڈال دیے تھے ۔ اس آپریشن کے بعد پاکستانی فوج نے ملزمان کے پاس موجود24 مغوی پولیس اہلکاروں کو بھی باحفاظت بازیاب کروا لیا تھا۔ گزشتہ دنوں کچے کے علاقے میں ڈاکوو¿ں کے خلاف آپریشن کے دوران آئی جی پنجاب کے قافلے پر حملہ اور پولیس ٹیم پر فائرنگ کی گئی ، اس دوران فائرنگ کے تبادلے میں آر پی او بہاولپور کا گن مین زخمی ہوا جسے ابتدائی طبی امداد کی فراہمی کے بعد مزید بہتر نگہداشت کیلئے لاہور منتقل کردیا گیا ، جبکہ فائرنگ کے تبادلے میں ایک ڈاکو ہلاک، 6 ڈاکو گرفتار کرلئے گئے ۔ سندھ اور پنجاب کی سرحد پر شہریوں اور انتظامیہ کےلئے درد سر بنے ڈاکو آپریشن کے دوران ڈاکو اپنی کمین گاہیں چھوڑ کر فرار ہوگئے ، اور کچے کے علاقے میں کریمنل گینگز کا مکمل صفایا کرکے قانون کی رٹ قائم کردی گئی ہے۔ علاقے میں پولیس چوکیاں مکمل بحال کردی گئی ہیں جبکہ اندرونی علاقوں کو کلیئر کرانے کیلئے پیش قدمی جاری ہے۔ اس گرینڈ آپریشن پر جنوبی پنجاب کی عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے اور قوی امید کی جارہی ہے کہ برس ہا برس سے دہشت گردوں کے زیر تسلط یہ علاقہ بہت جلد امن کا گہوارہ بنے گا۔
رحیم یار خان ، صادق آباد اور راجن پور سے ملحقہ کچے کے علاقے میں، نیشنل سکیورٹی کونسل کے حکم پر ڈاکو¶ں کے خلاف گرینڈ آپریشن کیا گیا ، جس میں پنجاب پولیس کی 11 ہزار سے زائد نفری اور افسران نے حصہ لیا۔ سب میں بڑی بات اس میگا آپریشن کو خود آئی جی پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور نے بطور فرنٹ مین کمانڈ کیا، اس موقع پر انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ” تمام منظم گینگز اور ان کے سہولت کاروں کو جلد قانون کی گرفت میں لایا جائے گا، اورکریمینلز اور ملک دشمن عناصر کا مکمل طور پر خاتمہ کیا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ آپریشن کے لیے تمام سیاسی و عسکری قیادت ایک پیج پر ہیں، جلد ہی سندھ پولیس بھی اپنے علاقوں میں میگا آپریشن کا آغاز کر رہی ہے“ ۔ پاکستان کے اہم ترین دریا دریائے سندھ کے دونوں اطراف مٹی کی موٹی دیواریں ہیں جوکہ دریا کا پانی باہر نکلنے سے روکتی ہیں، دریا کے دونوں اطراف کی دیواروں کے درمیان والے علاقے کو کچا کہا جاتا ہے ۔ ان دیواروں کے درمیان دریا کا فاصلہ کہیں دس کلومیٹر ہے تو کہیں دو کلومیٹر۔ دریائے سندھ جیسے جیسے جنوب کی جانب بڑھتا ہے اس کی موجوں کی روانی سست اور اس کی وسعت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے ۔ جون اور جولائی کے بعد جب مون سون بارشیں ہوتی ہیں تو دریا کی پوری چوڑائی پانی سے بھری ہوتی ہے مگر سردیوں میں دریا صرف درمیان میں ایک پتلی لکیر کی طرح بہتا ہے اور باقی علاقہ خالی رہتا ہے ۔ شمالی سندھ کے قریب کچے کا علاقہ عرصہ دراز سے ڈاکو¶ں کی پناہ گاہ بنا ہوا ہے ، جوکہ یہاں پناہ گاہیں بنا کر آس پاس کے علاقوں میں دہشت پھیلاتے اور پولیس کی دسترس سے دور یہاں پناہ بھی لیتے اور وقت پڑنے پر قانون نافذ کرنے والوں کا مقابلہ بھی کرتے ہیں۔ ڈکیتی ، اغواءبرائے تاوان اور ملکی سلامتی کونقصان پہنچانے جیسے سنگین جرائم میں ملوث ان جرائم پیشہ عناصر نے نہ صرف صادق آباد، رحیم یار خان، راجن پور، تونسہ، ڈیرہ غازیخان، مظفر گڑھ ، ملتان بلکہ پاکستان بھر کے شہریوں کی زندگی اجیرن بنارکھی ہے۔ کچے کے علاقے میں عرصہ دراز سے سنگین جرائم میں ملوث ڈاکو¶ں کے پاس نہ صرف جدید اسلحہ، بلٹ پروف جیکٹس موجود تھیں، بلکہ سرویلنس اور پولیس کی پوزیشن معلوم کرنے کے لیے ڈرون کا بھی استعمال کرتے تھے۔ ماضی میں متعدد بار یہاں آپریشن کئے گئے، پولیس کی بکتربند گاڑیوں میں جانے والے پولیس افسران بھی بچ نہ سکے اور ڈاکو¶ں سے مقابلہ کرتے ہوئے کئی پولیس افسران شہید ہوگئے ۔ ان ڈاکو¶ں کے پاس ایسے جدید ہتھیار تھے جن کے سامنے بلٹ پروف گاڑیاں بھی بے کار ہوجاتیں۔ ماضی میں پولیس نے آپریشن کے بعد ان ڈاکو¶ں کے قبضے سے اینٹی ایئر کرافٹ گن بھی برآمد کی تھی جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شمالی سندھ کے ڈاکو¶ں کے خلاف آپریشن کرنا کس قدر مشکل تھا ۔ شمالی سندھ کے ڈاکو نیشنل ہائی وی پر ناکہ لگا کر ایک ہی رات میں سینکڑوں مسافر بسوں کو لوٹ لیتے تھے ۔ جس کے بعد اس علاقے میں رات میں سفر کرنا مشکل ہوتا تھا اور بعد میں پولیس موبائلوں کے سا تھ قافلہ بنا کر مسافر بسوں کو یہاں سے گزارا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ ڈاکو بیوپاریوں اور کاروباری لوگوں کو بھتے کی پرچی بھیجتے اور بھتہ نہ دینے پر ان کو قتل کردیا جاتا۔ ماضی میں شمالی سندھ کے امیر ترین سمجھے جانے والے ہندو ان ڈاکو¶ں کے پسندیدہ شکار تھے جس کے باعث گذشتہ کچھ سالوں میں شمالی سندھ سے ہندو¶ں کے بڑی تعداد کراچی منتقل ہوگئی ۔ اسی طرح جنوبی پنجاب میں ڈیرہ غازی خان اور راجن پور اضلاع میں دریائے سندھ کے کچے کا علاقہ جو صوبہ سندھ تک تقریباً ڈیڑھ سو کلومیٹر تک پھیلا ہے ، جہاں ایک دہائی سے زائد عرصے تک ”چھوٹو گینگ “کا راج تھا۔ اس گروہ کا سرغنہ غلام رسول عرف چھوٹو تھا، جس نے جنوبی پنجاب اور شمالی سندھ تک اغوا برائے تاوان اور لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ یہ گینگ کچا جمال اور کچا مورو کے نزدیک 2010 ءکے سیلاب کے بعد ظاہر ہونے والے دس کلومیٹر لمبے اور تین کلومیٹر چوڑے ” چھوٹو جزیرے “ پر منتقل ہو گیا تھا اور یہ جزیرہ تمام فورسز کےلئے کئی سالوں تک نوگو ایریا بنا ئے رکھا۔ اپریل 2016 ءمیں راجن پور سے متصل کچے میں پاک فوج کی جانب سے جدید ہتھیاروں اور فوجی ہیلی کاپٹروں کے ساتھ 23 روز تک کئے جانے والے آپریشن ”ضرب آہن “ میں چھوٹو گینگ کے سربراہ غلام رسول عرف چھوٹو نے اپنے 13 ساتھیوں سمیت ہتھیار ڈال دیے تھے ۔ اس آپریشن کے بعد پاکستانی فوج نے ملزمان کے پاس موجود24 مغوی پولیس اہلکاروں کو بھی باحفاظت بازیاب کروا لیا تھا۔ گزشتہ دنوں کچے کے علاقے میں ڈاکوو¿ں کے خلاف آپریشن کے دوران آئی جی پنجاب کے قافلے پر حملہ اور پولیس ٹیم پر فائرنگ کی گئی ، اس دوران فائرنگ کے تبادلے میں آر پی او بہاولپور کا گن مین زخمی ہوا جسے ابتدائی طبی امداد کی فراہمی کے بعد مزید بہتر نگہداشت کیلئے لاہور منتقل کردیا گیا ، جبکہ فائرنگ کے تبادلے میں ایک ڈاکو ہلاک، 6 ڈاکو گرفتار کرلئے گئے ۔ سندھ اور پنجاب کی سرحد پر شہریوں اور انتظامیہ کےلئے درد سر بنے ڈاکو آپریشن کے دوران ڈاکو اپنی کمین گاہیں چھوڑ کر فرار ہوگئے ، اور کچے کے علاقے میں کریمنل گینگز کا مکمل صفایا کرکے قانون کی رٹ قائم کردی گئی ہے۔ علاقے میں پولیس چوکیاں مکمل بحال کردی گئی ہیں جبکہ اندرونی علاقوں کو کلیئر کرانے کیلئے پیش قدمی جاری ہے۔ اس گرینڈ آپریشن پر جنوبی پنجاب کی عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے اور قوی امید کی جارہی ہے کہ برس ہا برس سے دہشت گردوں کے زیر تسلط یہ علاقہ بہت جلد امن کا گہوارہ بنے گا۔
کالم
کچے میں ڈاکوں کیخلاف گرینڈ آپریشن
- by Daily Pakistan
- اپریل 13, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 290 Views
- 2 سال ago