Site icon Daily Pakistan

ہاں وہ نہیں خدا پرست، جا وہ بے وفا سہی

چند روز سے سوشل میڈیا پر معروف گیت نگار جاوید اختر اور مفتی شمائل احمد ندوی کے مابین وجود باری تعالی پر مناظرے کے چرچے ہو رہے ہیں۔بیس دسمبر بیس سو پچیس کو برپا ہونے والے اس منظم اور مربوط مناظرے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ہمارے ہاں یہ تاثر پھیلایا جا رہا ہے کہ ایک نوجوان اور تیز طرار مفتی نے عمر رسیدہ ، سرد گرم چشیدہ اور لزراں دست شاعر کو شکست فاش دے کر وجود باری تعالی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ثابت کر دیا ہے۔ اگر فریقین نے اردو کے نامور اور باکمال شاعر شاہد کمال کے اس شعر پر توجہ کی ہوتی کہ؛
ترے وجود پہ اقرار کی یہ حجت کیا
نہیں ھے تو،تو پھر انکار کی ضرورت کیا
تو شاید مناظر باز تفریح یا توجہ کا کوئی دوسرا راستہ اختیار کر لیتے ۔لیکن چلیئے ، مذہب اور عقیدے کا کاروبار بھی کم منافع بخش اور کم مقبولیت والا کاروبار نہیں ہے۔خود مجھے بھی تجسس کے باعث تقریبا دو گھنٹے طویل اس مناظرے اور سوال جواب کے سیشن کو دیکھنے اور سننے کی زحمت "واقعتا ” گوارہ کرنی پڑی ۔اور پھر تب سے اب تک مسلسل حیران ہو رہا ہوں کہ اس مناظرے میں مفتی شمائل احمد ندوی کی فتح پر شادیانے بجانے اور جھومر ڈالنے والے خود کوبلاوجہ کیوں تھکا رہے ہیں؟ ویسے تو میں لاہور میں منعقدہ فیض فیسٹیول کے موقع پر جاوید اختر کی ہرزہ سرائی پر کافی خفا ہوا تھا اور غصے میں ایک کالم "ایک ‘نادان محض’ کی ناواجب گفتگو” کے عنوان سے لکھا تھا۔ اس کالم میں جاوید اختر کے لیے میں نے تجویز کیا تھا کہ؛ "۔ جاوید اختر نے اگر منہ پر ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مار لیے ہوں ،اور گہریعنابی یا گہرے سبز رنگ کے پھول دار کرتے سے نکل آئے ہوں ،تو ان کیلئے پیغام یہ ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے ادیب ، شاعر ، نثر نگار اور فنکار دونوں ملکوں کے مابین محبت کے سفیر ہوتے ہیں۔پاکستان میں آکر کس سلیقے سے بات کرنی چاہیئے یہ ہنر دلیپ کمار سے سیکھیئے، یا پھر کنور مہندر سنگھ بیدی سحر ، گوپی چند نارنگ، پروفیسر قمر ریئس،جگن ناتھ ازاد، پروفیسر مسعود حسین خان کے سلیقے اور تہذیب کو ذہن میں لایئے ۔یا پھر ایک فون ملا کر الہ آباد کے پروفیسر ڈاکٹر علی احمد فاطمی صاحب سے بات کرنے کا طریقہ سیکھ لیں۔آپ ممبئی میں رہتے ہیں ،ممبئی بڑے مہذب ، دانشور اور زیرک لوگوں کا شہر ہے، سمجھ بوجھ اور گفتگو کرنے کے کچھ اسلوب ان سے ہی سیکھ لیں۔کیا پتا آپ کی نیت اور کیفیت بہتر اور مہذب ہو جائے،کیا پتا؟ .” اس سب کے باوجود یہی جاوید اختر اس بے سود ، غیر مفید اور قدرے تفریحی مناظرے میں ہارے ہوئے دانشور نظر نہیں آئے۔ہاں ایک غلطی انہوں نے کی اور وہ یہ کہ انہیں اس بحث میں پڑنا ہی نہیں چاہیئے تھا۔ میں سوچتا ہوں کہ جاوید اختر نے اگر اکبر الہ آبادی کے اس شعر کو ذہن میں تازہ کر لیا ہوتا تو اس مناظرے سے گریزکرتے، کیونکہ اکبر الہ آبادی نے تو بروقت سمجھا اور بتا دیا تھا کہ ؛
مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں
فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں
لیکن اگر انہوں نے ہندوستان میں رہتے ہوئے بھی اس شعر کی رمز کو نظر انداز کرنے کی ہمت یا جرات کی ہے ، تو مجھے اس ہمت یا جرات کی افادیت کچھ کچھ سمجھ آ رہی ہے۔جوان مفتی شمائل احمد ندوی نے روایتی مناظرہ باز علما والے تمام تر حربے مع انگریزی اصطلاحات و لفظیات کے خوب اور زور دار طریقے سے استعمال کئے۔حاضرین و مشاہدین مناظرہ میں ایک دور اندیش اور ہجوم شناس مفتی کے طور پر انہوں نے اپنے تالی باز بھی تعینات کر رکھے تھے ۔جو ان کے جوش خطابت پر خوب تالیاں بجاتے رہے۔اس سب کے باوجود جاوید اختر ، جنہیں مفتی یا "قیمتی” ہونے کا کبھی بھی دعوی نہیں رہا ، اس مناظرے میں ناکام نظر نہیں آئے ۔ یہ جانتے ہوئے کہ ایسے مناظروں پر حتمی فیصلے نہیں ہوا کرتے یا نہیں ہو سکتے۔ایسے مباحث صرف سوالات اٹھانے اور ان کے جوابات کی سطح جانچنے یا سمجھنے کے لیے کئے جاتے ہیں ۔ میرا تاثر یہ ہے کہ ؛ مفتی شمائل احمد ندوی جاوید اختر کے کسی جواب سے مطمئن ہوئے ہوں یا نہیں ، لیکن وہ جاوید اختر کے اٹھائے گئے کسی ایک سوال کا بھی انسانی سطح پر منطقی و متوازن جواب دینے میں ناکام رہے ہیں۔ہاں مگر یہ قیاس یقینی معلوم ہوتا ہے ،جس کی طرف میر تقی میر اشارہ کر چکے ہیں کہ؛
آ بیٹھتا تھا صوفی ہر صبح میکدے میں
شکر خدا کہ نکلا واں سے خراب ہو کر
تو ، یہ اندازہ کرنا بہر حال دشوار ہے کہ مناظرے کے بعد واپس جاتے ہوئے مفتی شمائل احمد ندوی کتنے صحیح یا کتنے خراب ہوکر نکلے۔لیکن اس بات کو سراہا جا سکتا ہے کہ انڈیا میں انٹرٹینمںٹ انڈسٹری پھل پھول رہی ہے اور عوامی تفریح کے نت نئے طریقے اور تازہ سلیقے پیش کئے جا رہے ہیں۔جہاں تک مولانا فضل الحق خیر آبادی کے خانوادے کے شاعر جاوید اختر کا تعلق ہے ،ان کے بارے میں زیادہ سے زیادہ یہی کہا جا سکتا ہے کہ؛
ہاں وہ نہیں خدا پرست، جا وہ بے وفا سہی
جس کو ہوں دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں؟

Exit mobile version