کالم

ہمارے قونصل خانے

پاکستان سے باہر قدم رکھتے ہی انسان اپنے آپ کو بدلا ہوا محسوس کرتا ہے خاص کر ایسے پاکستانی جو محنت مزدوری کی خاطر پاکستان سے باہر نکل کر پھر وہیں کے ہو جاتے ہیں انکے اندر جو درد اور دکھ پاکستان کے حوالہ سے پایا جاتا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں جسکا وہ کھل کر اظہار بھی کرتے ہیں پاکستان بنا تو کراچی ہمارا ترقی کے عروج پر تھا ہماری معیشت کا پہیہ رواں دواں تھا مان لیا کہ جمہوریت ہمارے لیے ناگزیر ہے مگر پھر بھی آمریت کے دور میں پاکستان مستحکم تھا جیسے جیسے ہم جمہوری دور میں داخل ہوئے ترقی کی بجائے تنزلی کا سفر شروع کردیا بی بی شہید کا کہنا تھا کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے جو پاکستانی عوام سے لیا جارہا ہے میں سعودی عرب آیا تو یہاں کا نظام ہم سے سو گنا زیادہ بہتر ہے یہاں کے لوگ خوشحال ہیں گولی ٹافی سے لیکر بڑی بڑی اشیا باہر سے آتی ہیں یہاں کے لوگوں کے لیے مہنگائی ہے اور نہ ہی غربت ہر طرف خوشحالی ہی خوشحالی ہے بڑے بڑے پلازے جدید نظام ہے ایک دور وہ بھی تھا جب پاکستان سعودی حکومت کی مدد کیا کرتا تھا مگر پھر ہمیں ہمارے حکمران ہی لوٹنے لگے کسی نے لند ن خرید لیا تو کسی نے سرے خرید لیا یہاں تک رہتا تو ٹھیک تھا مگر ان جمہوری لوگوں نے پوری دنیا میں اپنی جائیدادیں بنا کر ہمیں غلام بھی بنا لیا آج بھی لوگ ان کے نعرے لگاتے ہیں جو لندن میں بیٹھ کر کہتے ہیں کہ ہم پاکستان کی تقدیر بدلیں گے مگر انہوں نے پاکستان کا نظام بدلنے کی بجائے خود کو ہی تبدیل کرلیا پاکستان سے باہر بسنے والے پاکستانی اس بات کو بخوبی سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی میں اگر سب سے بڑی رکاوٹ ہیں تو وہ میاں نواز شریف اور زرداری خاندان ہے ان دونوں نے جمہوریت کے نام پر ملک میں بدترین آمریت مسلط کررکھی ہے انتقامی کاروائیوں میں یہ لوگ اس حد تک گر جاتے ہیں کہ ارشد شریف جیسے محب وطن صحافی کو بھی ملک چھوڑ کر جانا پڑتا ہے مگر پھر بھی وہ انتقامی کاروائیوں کا نشانہ بن جاتا ہے پاکستان کے وہ لوگ جو ملک سے باہر ہیں انکا درد کوئی محسوس نہیں کرتا بلکہ انہیں مزید تنگ کیا جاتا ہے حالانکہ انکی سہولت کے لیے ہر ملک میں سفارت خانہ اور کونصل جنرل بیٹھے ہوئے ہیں جدہ میں بھی پاکستان کا کونصل خانہ ہے جدہ میں اس وقت پاکستان سمیت تقریبا 87 غیر ملکوں کی نمائندگی موجود ہیں جن میں63 قونصل جنرل 22 قونصل خانے جو اپنی عوام کو سہولیات فراہم کرنے میں مصروف ہیں جدہ میں پاکستانی کونصل جنرل بیٹھتے ہیں ان کے دفتر ٹیلی فون کریں تو کوئی اٹھاتا نہیں تین چار بار کال کرنے کے بعد جب ایک خاتون کی آواز سننے کو ملتی ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ڈیرہ غازی خان یا راجن پور کے کسی تھانے میں ٹیلی فون کرلیا ہو ارویہ ایسا کہ ایک بار فون کرنے کے بعد دوبارہ ہمت نہیں پڑتی انفارمیشن گروپ کے ایک خوبصورت افسرطاہر خوشنود جو پرنسپل انفارمیشن آفیسر بھی رہے آج کل وی لاگ بنا رہے ہیں ایک جگہ انہوں نے اس بات کا ذکر بھی کیا کہ ان سفارت خانوں میں تعیناتیاں کیسے ہوتی ہیں مجھے جدہ میں اپنے عوامی خدمتگاروں کے رویے اور تجربے کے بعد یقین ہوگیا کہ ہمارا ٹھیک ہونا ناممکن ہے اللہ کرے کہ سعودیہ جیسا نظام پاکستان میں بھی لاگو ہو جائے تاکہ عوام کو سکون مل سکے جدہ سمیت اس وقت پاکستان کے مختلف ممالک میں تقریبا 94 کونصل خانے ہیں اور مجھے پوری امید ہے کہ وہاں کے پاکستانی اتنے ہی ناخوش ہونگے جتنے جدہ والوں سے ہیں نہیں یقین تواپنے کسی بھی جاننے والے سے فون کرکے پوچھ لیں یا ان ممالک افغانستان،البانیہ ،الجیریا،آسٹریا ، بحرین،بنگلہ دیش، بیلجیئم،برونائی،برکینا فاسو ، کیمرون،کینیڈا ،چاڈ ،چلی، چین، کوٹ ڈی آئیور ،قبرص،جمہوریہ چیک ، ڈنمارک، جبوتی، مصر، اریٹیریا، ایتھوپیا، فن لینڈ، فرانس، گبون، گیمبیا، جرمنی، گھانا، یونان، گنی، ہندوستان، انڈونیشیا، عراق، اٹلی، جاپان، اردن ، قازقستان ، کوریا (جمہوریہ) ، کویت، لبنان، لیبیا،لیتھو انیا، ملائیشیا، مالدیپ، مالی، مالٹا، موریطانیہ، مراکش، نیپال، نیوزی لینڈ، نائجر، نائجیریا ، ناروے، عمان، فلسطین، فلپائن، پولینڈ، قطر، رومانیہ، روس، سینیگال، سنگاپور، سلوواکیہ، سلووینیا، صومالیہ، جنوبی افریقہ، سپین، سوڈان، سویڈن، سوئٹزرلینڈ، شام، تنزانیہ، تھائی لینڈ، ٹوگو، تیونس، ترکی، یوگنڈا، یوکرین، متحدہ عرب امارات، برطانیہ، ریاستہائے متحدہ،ازبکستان اور یمن کے کونصل خانوں میں ایک فون گھمائیں اندازہ ہوجائیگا کہ ہم پاکستانی جہاں بھی جائیں افسری کے لیے ہی جاتے ہیں عوام اپنی خدمت کا کوئی نہ کوئی راستہ خود ہی نکال لے گی پاکستان میں اگر یہی نظام اور سسٹم چلتا رہا تو ہو سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں حالات کسی کے قابو میں بھی نہ رہیں کیونکہ کہ ہر چیز کا ایک پیمانہ ہوتا ہے ہر شخص کی ایک قوت برداشت ہوتی ہے اور جب بات بس سے باہر ہوجائے تو پھر کسی کا اختیار نہیں چلتااور اس وقت اختیار والے خود بھاگ جاتے ہیں میں نواز شریف بیماری کا بہانہ بنا کر ایسے فرار ہوئے کہ ابھی تک واپسی کا نام نہیں لے رہے حالانکہ انکا بھائی اس وقت وزیر اعظم پاکستان ہے جی بلکل جنہوں نے ضمانت دی تھی کہ میاں صاحب واپس آجائیں گے خیر بات کررہا تھا میں کونصل خانوں کی جہاں ہمارا رنگ جھلکتا ہے کہ پاکستانی کیسے لوگ ہیں بہت سی باتیں ہیں زندگی کا ساتھ رہا تو انشاءاللہ لکھوں گا میں پاکستان سے نکلا تو دو دوستوں کی مشتاق وارثی اور طارق ٹیڈی کے انتقال کی خبریں ملیں اللہ تعالی انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین دونوں ہی اپنے اپنے شعبے میں کمال کی شخصیت تھیں طارق ٹیڈی جب ہسپتال میں تھے پیسوں کی کمی کی وجہ سے وہ دوسرے ہسپتال نہیں جاسکے جس پر میں نے لکھا تو پھر چوہدری پرویز الٰہی نے ایکشن لیا مگر اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی پاکستان میں فنکاروں کو سپورٹ کرنے والے اداروں میں بھی کونصل خانوں میں تعینات جیسے لوگ موجود ہیں جو وقت پر کسی کی کوئی مدد نہیں کرتے بعد میں سوشل میڈیا پر رونا پیٹنا شروع کردیتے ہیں لاہور میں موجود الحمرا آرٹ کونسل والوں سے کبھی کسی نے پوچھا کہ آپ نے کروڑوں روپے ایک مرمت پر لگا دیے کیا کبھی کسی فنکار کی مرنے سے پہلے بھی مدد کی اللہ تعالیٰ ہمیں شعور دے تاکہ ہم بھی خوشحال اور ترقی یافتہ پاکستان دیکھ سکیں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri