کالم

وزیراعظم۔چوہدری انوارالحق

صاف کپڑے ،سادہ سلائی ،کھلے بٹن ، پاﺅں میں کھلی چپل ،بائیں جانب سے مانگ ،،بظاہر سادہ مگر رعب دار شخصیت ،آئین ، قانون اور ضابطے ازبر،باز جیسی نگاہ اور چیتے جیسا جگر ،چلنے کا انداز ایسا کہ دل موہ لے ، گفتگو میں آواز اونچی مگر رعب دار ،تاریخ پر گہری نظر ،الحاق پاکستان نظریے کے شیدائی ،ہر ایک کو پہلے سلام کرنے اور حال چال پوچھنے کا بڑا پن ،چھوٹوں سے شفقت ،بڑوں سے مروت ،کرپٹ لوگوں سے نفرت اور دیانتداروں سے الفت ،ریاست پاکستان اور پاک فوج کے ساتھ قلبی لگا اور دیدنی محبت ،غرور میں ڈوبی ریاست کی اشرافیہ بیوروکریسی کیلئے ننگی تلوار یہ ہیں آزادجموں و کشمیر کی تاریخ کے منفرد اور باکمال وزیراعظم چوہدری انوارالحق قائمقام صدر بھی رہے ،سپیکر بھی رہے اور 20اپریل 2023کو ریاست کے بڑے آئینی منصب وزارت عظمیٰ کے عہدے پر متمکن ہوئے ۔ریاست کی تاریخ نے رمضان کے مبارک مہینے میں یہ دن بھی دیکھا کہ ایک شخص ایک روپیہ خرچ کئے بغیر وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوا وہ عہدہ جلیلہ جس پر فائز ہونے کیلئے عمریں لگ جاتی ہیں ،دولت کے دریا بہانے پڑتے ہیں ،تعلقات کی کونپلیں پالنی پڑتی ہیں ، اصولوں کو نظریہ ضرورت کی بھینٹ چڑھانا پڑتا ہے وہ عہدہ ملا تو ایسے شخص کو جس کی دیانت اور سادگی بے مثال رہی ہے اور جس نے ریاست کے پیسے کو اپنے اور اپنے خاندان کو پالنے کیلئے اور نام و اکرام کیلئے استعمال نہیں کیا ۔وزیراعظم چوہدری انوارالحق نے جب اقتدار سنبھالا تو ریاست کا ہر شعبہ زبوں حالی کا شکار تھا ،وزیراعظم ہاﺅس بے قاعدگیوں اور بے ضابطگیوں کی عجیب داستان اور بے لگام بیوروکریسی شتر بے مہار کی طرح ریاستی وسائل کو چاٹ رہی تھی ، چوہدری انوارالحق کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے وزیراعظم ہاﺅس میں قدم رکھتے ہی ان نمرودوں کو للکارا جو عوام کے ٹیکس کے پیسے کو بے دردی سے فضول خرچیوں کی نظر کر رہے تھے۔ پھر چشم فلک نے دیکھا کس طرح چوہدری انوارالحق نے اپنی کہی ہوئی بات پر عملدرآمد کروایا جب اعلیٰ بیوروکریسی کے گھروں میں کام کرنے والے بیچارے پسے ہوے چھوٹے ملازمین کی اپنے دفاتر میں واپسی کا نوٹیفکیشن آیا تو خزانے پر ہاتھی بنی بیٹھی بیوروکریسی کو احساس ہوا کچھ ہونے والا ہے ، ساتھ ہی ملازمین کی حاضری کا نوٹیفکیشن اور بائیو میٹرک لازمی قرار دے دیا گیا یہ سرکاری پیسوں پر پلنے والے اعلیٰ بیوروکریٹوں کیلئے کسی توہین سے کم نہیں تھا جو سرکاری پیسے پر عیاشی کو اپنا قانونی حق سمجھتے تھے ،ایک ایک آفسر کے پاس چار چار گاڑیاں کچھ اسلام آباد کچھ مظفرآباد صاحب کا موڈ اسلام آباد کا ہو تو اسلام آباد کا ٹور ،موڈ میرپور کا ہو تو میرپور کا ٹور بیرون ملک کا ہو تو دبئی کا ٹور مسئلہ کشمیر کے نام پر آزادکشمیر کی اعلی بیوروکریسی نے جو انت مچا رکھا تھا وزیراعظم چوہدری انوارالحق نے اسے لگام ڈال دی ،جب نامی گرامی آفسروں پر ہاتھ ڈال دیا تو چھوٹے تو ویسے ہی دبک گئے ۔یہ وزیراعظم آزادکشمیر کا عظیم کارنامہ ہے جسے آزادکشمیر کی پارلیمانی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا کہ ریاست کا ایک وزیراعظم ایسا بھی گزرا ہے اور مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ جناب سردار محمد ابراہیم خان ، جناب کے ایچ خورشید اور راجہ ممتاز حسین راٹھور کے بعد اس ریاست میں اگر کوئی عوام دوست ،عوام کا درد رکھنے والا اور اپنے قومی تشخص کو بچانے والا وزیراعظم آیا ہے تو وہ چوہدری انوارالحق ہے ۔وزیراعظم اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کرتے ہیں اور ریاست کی فلاح وبہبود کیلئے ہمہ وقت کام میں جٹے رہتے ہیں نہ اپنے خاندان کیلئے وقت ہے ایک بیٹا ہے اسکو بھی وقت نہیں دے سکتے کشمیری عوام کو کبھی بھی اپنے اس مسیحا کو نہیں بھولنا چاہیے جس نے ریاست کی تاریخ میں وزیراعظم کے عہدے کے تصور کو بدل کر رکھ دیا ہے ،مجھے تو کبھی کبھی گمان ہوتا ہے کہ کہیں عمر بن عبدالعزیز کی شکل میں چوہدری انوارالحق دوبارہ وارد ہو چکا ہے جو اس ریاست کیلئے کسی نعمت متکبرا سے کم نہیں ۔کیا کوئی یہ تصور کر سکتا ہے کہ آزادکشمیر میں زکوتہ فنڈ صرف مستحقین کیلئے استعمال ہوگا ماضی میں اس زکوة فنڈ سے جس طرح کے گلچھڑے اڑائے جاتے رہے اور یہ کن کن "مسکینوں ” کے علاج معالجے کیلئے استعمال ہوتا رہا سب کو پتہ ہے انوارالحق نے اس تصور کو بدل کر رکھ دیا کہ آپ کرپشن کے بغیر بھی حکومت کر سکتے ہیں اگر آپ میں خود اہلیت ہے کیا وجہ ہے کہ اسوقت ریاست کا بڑے سے بڑا بیوروکریٹ بھی وزیراعظم کے سامنے جانے سے پہلے دس بار سوچتا ہے اور ٹانگیں کانپتی ہیں یہ ہے چوہدری انوارالحق کی دیانتداری اور اپنے سبجیکٹ پر مکمل عبور ۔وزیراعظم نے فلاحی ریاست کی طرف قدم بڑھایا اور دس ارب کی لاگت سے انڈومنٹ فنڈ قائم کیا جس سے ریاست کے لاوارث بوڑھے ،طلاق یافتہ خواتین ،معذور اور ٹرانس جینڈر مستفید ہونگے ،یہ ہوتا ہے پسے ہوے طبقے کی نمائندگی کرنے والا وزیراعظم ،5ارب کی لاگت سے بیروزگاری کے خاتمے کیلئے فنڈز مختص کرنے کی تجویز ہے جس کا مقصد ہنرمند خواتین و مردوں کو بلاسود قرضوں کی فراہمی ہے تاکہ وہ روزگار کے مواقع حاصل کر سکیں ۔ایک ارب روپے کی لاگت سے تعلیمی وظائف کا پروگرام ان سٹار بچوں اور بچیوں کیلئے ہے جو معاشی مشکلات کی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کر سکتے ۔یہ اقدامات ریاست کے عوام کی بھلائی کیلئے ہیں ریاست کے عوام کو اپنے اس عظیم قائد کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے اور اپنے وزیراعظم کے ساتھ ڈٹ کر کھڑا رہنا چاہیے۔حضرت علامہ اقبال ؒ نے شاید ایسی ہی شخصیات کیلئے کہا تھا
نگاہ بلند ،سخن دلنواز جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لئے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے