کالم

” انا” فائدے زیادہ یا نقصانات؟

میں نے کوئی بارہ سال قبل لندن میں ایک تین روزہ سیمینار میں شرکت کی جس کی مرکزی مقررہ ایک امریکی خاتون، ڈینی جانسن تھیں۔ سیمینار کے پہلے دن مختلف اسکالرز نے صرف ”انا”یا "Ego” کی اقسام اور اس کے اثرات پر گفتگو کی۔ حیرت اس بات پر ہوئی کہ ایک پورا دن صرف اسی موضوع پر صرف ہوا کہ انا کس طرح کاروبار، تعلقات، رشتہ داری حتیٰ کہ روحانی زندگی میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ مجھے اس وقت اندازہ ہوا کہ یہ ایک معمولی یا سطحی موضوع نہیں بلکہ انسانی نفسیات اور رویوں کی جڑ میں پیوست ایک گہرا نظام ہے۔
”انا”انسان کا وہ داخلی احساس ہے جو اسے”میں”یا”خود”کی پہچان دیتا ہے۔ یہ خودی ہمیں دوسروں سے مختلف اور ممتاز محسوس کرواتی ہے، اور کئی حوالوں سے زندگی میں پیش قدمی کا باعث بھی بنتی ہے۔ تاہم، یہی” انا” اگر قابو سے باہر ہو جائے تو فخر، خود پسندی اور رشتوں میں دوری کا سبب بن جاتی ہے۔ انسان اپنی بات کو حرفِ آخر سمجھنے لگتا ہے اور کسی دوسرے کی رائے سننے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔سگمنڈ فرائڈ، جو نفسیات کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں، نے انسانی ذہن کو تین حصوں میں تقسیم کیا: Id، Ego اور Superego۔ ان کے مطابق Ego وہ عنصر ہے جو ہماری جبلتی خواہشات اور معاشرتی و اخلاقی اصولوں کے درمیان توازن قائم کرتا ہے۔ یہی توازن اگر بگڑ جائے تو انسان خود کو ہی سب کچھ سمجھنے لگتا ہے۔ روحانیات میں، خاص طور پر صوفیانہ تعلیمات اور مشرقی فلسفے میں، ”انا”کو ”نفس” یا”خودی”کہا گیا ہے، جو انسان کو اپنے خالق سے دور رکھتا ہے۔
صوفیا کرام کا ماننا ہے کہ جب تک” انا ”باقی ہے، بندہ خدا تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا۔ "فنا فی اللہ” یعنی خود کو مٹا کر خدا میں فنا ہو جانا دراصل ”انا ”کی نفی ہے۔ انسان جب اپنی ذات کے غرور سے خالی ہوتا ہے تو وہی مقام اسے قربِ الہٰی عطا کرتا ہے۔سماجی سطح پر ایک صحت مند انا انسان کو خود اعتمادی بخشتی ہے، اپنے حقوق کے تحفظ اور اپنی قدر جاننے کا شعور دیتی ہے لیکن جب یہ حد سے تجاوز کر جائے تو وہی انا، غرور، ضد، برتری کے احساس اور خود غرضی میں بدل جاتی ہے۔ ایسی انا انسان کو تنقید سے نالاں کرتی ہے، اختلاف برداشت کرنے کی صلاحیت چھین لیتی ہے اور تعلقات میں سختی، دوری اور ٹوٹ پھوٹ کا باعث بنتی ہے۔
بدقسمتی سے، ہمارے ملک پاکستان میں بھی یہی انا کئی بحرانوں کی جڑ بنی ہوئی ہے۔ ہمارے سیاستدان اور حکمران اکثر فیصلے ملکی مفاد کی بنیاد پر نہیں، بلکہ اپنی انا کی تسکین کے لیے کرتے ہیں۔ وہ اپنی ذات، اپنی برتری اور اپنی ضد کو قومی مفاد پر ترجیح دیتے ہیں، اور یوں پوری قوم ان کی انا کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔ اختلاف رائے کو ذاتی حملہ سمجھا جاتا ہے، مشورے کو کمزوری اور مصالحت کو شکست مانا جاتا ہے۔ اللہ تعالی ہمیں ایسے انا پرست رہنماں سے محفوظ رکھے جو ذاتی مفاد کو قومی ذمہ داری پر مقدم رکھتے ہیں۔ قوموں کی تباہی کا آغاز تب ہوتا ہے جب ذاتی انا اجتماعی عقل پر غالب آجائے۔ایسی” انا” کو قابو میں رکھنے کیلئے سب سے پہلا قدم خود احتسابی ہے یعنی روزانہ یہ سوچنا کہ کہیں ہمارے رویے میں تکبر تو شامل نہیں؟ دوسرا رویہ شکر گزاری کا ہے۔ جب ہم اپنی نعمتوں پر شکر ادا کرتے ہیں تو دل میں عاجزی پیدا ہوتی ہے اور انا دب جاتی ہے۔ تیسرا طریقہ خدمتِ خلق ہے، جو انسان کو زمین سے جوڑے رکھتی ہے اور اسے یاد دلاتی ہے کہ وہ بھی مخلوقِ خدا کا ایک حصہ ہے۔ اور چوتھا جذبہ سیکھنے کا ہے جب ہم خود کو مکمل نہ سمجھیں اور سیکھنے کی جستجو رکھتے ہوں، تو ہم دوسروں کی رائے کو بھی اہمیت دینا سیکھتے ہیں، اور یہی چیز انا کو متوازن رکھتی ہے۔یاد رکھنا چاہیے کہ انا ایک فطری جز ہے۔یہ ہماری شناخت کا حصہ ہے لیکن اگر اس کا دائرہ ہماری ذات تک محدود نہ رہے اور وہ دوسروں پر بھی حاوی ہونے لگے تو یہی انا تباہی کی طرف لے جاتی ہے۔ انسان نہ صرف اپنی روحانی و ذہنی ترقی کھو بیٹھتا ہے بلکہ معاشرتی تنہائی کا بھی شکار ہو جاتا ہے۔اور آخر میں، سب تلخ مگر سچ بات یہ ہے کہ” انا” کی اسیری میں جینے والے لوگ کسی کے سچے دوست نہیں ہوتے۔ وہ تعلقات کو صرف اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ان کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ سب کے دوست بنیں، لیکن حقیقت میں وہ کسی کے دوست نہیں ہوتے۔ وہ جتنے لوگوں میں ہوتے ہیں، اتنے ہی تنہا ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ محبت، اخلاص اور قربت کے سچے رشتوں سے محروم رہ جاتے ہیں اور یہی انا کی سب سے بڑی شکست ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے