کسی بھی ملک کی معاشی و اقتصادی ترقی میں دیگر شعبوں کے علاوہ برآمدات کا شعبہ بھی خصوصی اہمیت رکھتا ہے برآمدات سے جہاں معاشی سرگرمیاں فروغ پاتی ہیں وہیں یہ زرِمبادلہ میں اضافے کا باعث بھی بنتی ہیںلیکن بدقسمتی سے ہمارے برآمدات کے حجم میں اضافے کے لئے کبھی کوئی طویل المدتی پالیسی تشکیل دینے پر توجہ مرکوز نہیں کی گئی جس کی وجہ سے تجارتی خسارہ بڑھتا جارہا ہے حکومت برآمدات بڑھانے کے لئے جو اقدامات کر رہی ہے ان کے اثرات کم نظر آرہے ہیں۔عالمی بنک کی رپورٹ کے مطابق ملکی برآمدات نہ صرف مجموعی قومی پیدوار کے تناسب سے مسلسل کم ہورہی ہیں بلکہ یہ اپنی حقیقی صلاحیت سے بھی بہت پیچھے ہیں 1990 کی دہائی میں ملکی برآمدات کا جی ڈی پی سے تناسب 16 فیصد تھا جو اب گھٹ کر صرف10.4 فیصد رہ گیا ہے ایک ایسے وقت میں جب عالمی معیشت میں ایک قسم کا جنگی ماحول پیدا ہو چکا ہے بہت سے ممالک جدید ٹیکنالوجی سبسڈیز تجارتی معاہدوں اور اعلی معیاری اور تیز تر ترسیل کے ہتھیاروں سے لیس ہو کر تجارتی جنگ جیتنے کی تگ ودو کر رہے ہیں پاکستانی برآمدات میں مسلسل کمی، کمی محض ایک عددی فرق نہیں بلکہ ملکی معیشت کی سمت پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ہم اپنے معاشی بگاڑ سے بخوبی آگاہ ہیں اور اس کے عوامل ومحرکات بھی معلوم ہیں یہ بھی جانتے ہیں کہ ان مسائل کا مداوا کیوں کر ممکن ہے مگر یہ سب جانتے ہوئے بھی ہم اپنے گرد معاشی بدحالی کی آکاس بیل کو ہٹا نہیں پا رہے اس بیل کو ہٹانے کے لئے جو عملی اقدامات ہونے چاہئیں وہ نہیں کئے جاسکے ایسے حالات میں جب ملک کا صنعتی اور برآمدی شعبہ زبوں حالی کا شکار ہے مہنگی بجلی اور دیگر مسائل کی وجہ سے صنعت کار صنعتیں بند کرنے کی باتیں کر رہے ہیں حکومت کا کسی ٹھوس برآمدی پالیسی کے بغیر آیندہ پانچ برس میں ملکی برآمدات کا حجم 60 ارب ڈالرسالانہ تک لے جانے کی باتیں زبانی جمع خرچ سے زیادہ اہمیت کا حامل نہیں ملک کی معاشی مضبوطی برآمدات میں اضافے سے مشروط ہے مگر یہ اضافہ تبھی ممکن ہے جب ملک میں صنعتی پیداوارکی رفتار تیز ہو۔عالمی بنک کے مطابق ملکی برآمدات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹیں بلند محصولات پیچیدہ ضوابط مہنگی توانائی اور کمزور لا جسٹکس نظام ہیں حکومت اگر واقعی ملکی برآمدات میں اضافے کی خواہاں ہے تو اسے سب سے پہلے سستی توانائی کی فراہمی کو یقینی بنانا چاہیے تاکہ ملک کا برآمدی شعبہ عالمی منڈی میں مسابقت پیدا کرسکے عالمی بینک کا پاکستان کی برآمدات میں اضافے کیلئے ڈیجیٹل ایکسپورٹس کے شعبے میں مواقع کی نشاندہی کرتے ہوئے کہنا ہے کہ پاکستان میں ڈیجیٹل سروسز میں بے پناہ مگر غیر استعمال شدہ صلاحیت موجودہے لیکن براڈ بینڈ کی کم رفتار مہنگی لاگت ڈیجیٹل برآمدات کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں عالمی بینک نے اپنی رپورٹ میں ڈیجیٹل انفرااسٹرکچر، ڈیٹا گورننس میں بہتری سے برآمدات میں اضافے پر زور دیا ہے عالمی سطح پر ڈیجیٹل سروسز کی برآمدات 3.8 کھرب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں پاکستان تقریبا 5ارب ڈالر کی ڈیجیٹل سروسز کے ساتھ جنوبی ایشیا میں بھارت کے بعد دوسرے نمبر پر ہے پاکستان کی ڈیجیٹل سروسز مجموعی برآمدات کا صرف 10فیصد ہیں پاکستان کا عالمی ڈیجیٹل سروسز میں حصہ 0.1فیصد، آئی ٹی برآمدات میں 0.3فیصد ہے پاکستان کی سالانہ آئی ٹی برآمدات 2.9ارب ڈالر ڈیجیٹل سروسز 4.94 ارب ڈالر ہیں۔بھارت کا عالمی آئی ٹی برآمدات میں حصہ 5.8 فیصد انڈونیشیا کا 0.2 فیصد ہے۔ ڈیجیٹل اسکلز میں سرمایہ کاری پاکستان کو ہائی ویلیو سروسز کی طرف لے جا سکتی ہے اس شعبے کی ترقی کیلئے ڈیجیٹل انفرااسٹرکچر اسکل اور ریگولیٹری اصلاحات ناگزیر ہے۔
اللہ نے پاکستان کو 50کھرب ڈالر کے معدنی ذخائر عطا کئے ہیں جس میں تھر میں دنیا کے کوئلے کے دوسرے بڑے 185ارب ٹن ذخائر، ریکوڈک میں تانبے کے پانچویں بڑے 6ارب ٹن 22ارب پائونڈز مالیت ذخائر اور سونے کے چھٹے بڑے 42.5ملین اونس 13ملین پائونڈ مالیت کے ذخائر پائے جاتے ہیں اور صرف ریکوڈک میں سونے اور تانبے کے ذخائر کی مالیت 500 ارب ڈالر ہے لیکن ہم بدقسمتی سے ان معدنی وسائل سے فائدہ نہیں اٹھاسکے اور دنیا کے سامنے کشکول لئے پھررہے ہیں ملک کی درآمدات اور برآمدات کے درمیان توازن پیدا کرکے ہی معیشت کو مستحکم کیا جاسکتا ہے یہ کوئی ایک دن کا کام نہیں بلکہ اس کیلئے شارٹ ٹرم کیساتھ ساتھ لانگ ٹرم منصوبہ بندی ناگزیر ہے پاکستان کی معیشت کنزیومر معیشت کا ماڈل بنی ہوئی ہے کپڑوں کے بٹن سے لے کر جوتوں اور ملبوسات تک درآمد کئے جاتے ہیں الیکٹرونکس کی تمام آئٹمز تعمیراتی میٹریل بھی بڑی تعداد میں درآمد ہوتا ہے آٹو موبائل کا شعبہ بھی زیادہ تر درآمدات پر انحصار کرتا ہے فوڈ آئٹمز کی درآمد بھی بڑے پیمانے پر ہوتی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ غیر ملکی مصنوعات کی منڈی بننے کے بجائے اپنے مینو فیکچرنگ سیکٹر کو مضبوط کریں کوئلے کے ذخائر ریکوڈک اور سینڈک کی چھپی ہوئی دولت کو ملک وقوم کی ترقی اور خوشحالی کے لئے استعمال کرنے کے لئے ہر ممکن اقدامات کریں زرخیز زمینوں پر رہائشی اسکیمیں بنانے پر پابندی عائد اور بنجر بے آباد زمینوں کو زیر کاشت لانے کیلئے قابل عمل اقدامات کئے جائیں جبکہ برآمدات دوست پالیسیوں کی تشکیل بھی ناگزیر ہے ہمارے قومی مزاج میںماضی سے سیکھنے کے رویے کا فقدان ہے ۔ فیصلے چاہے معاشی ہوں یا سیاسی ماضی سے سیکھنے کی عادت ڈالنا ہوگی قومی معیشت اس وقت بے یقینی کی جس دلدل میں پھنسی ہوئی ہے اس سے نجات کیلئے کاروباری حلقوں اور عوام میں ٹھوس حقائق کی بنیاد پر یہ اعتماد پیدا کرنا ضروری ہے کہ پاکستان کا معاشی مستقبل روشن اور اس منزل کا حصول بہتر منصوبہ بندی اور درست اقدامات کے ذریعے سے کسی بڑی دشواری کے بغیر ممکن ہے۔
کالم
ملکی برآمدات میں، مسلسل کمی سوالیہ نشان
- by web desk
- نومبر 13, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 7 Views
- 3 گھنٹے ago

