کالم

تبی سر۔۔۔!

کالاباغ سے شمال کی سمت گاڑی کا رخ کریں تو کوئی اٹھائیس کلو میٹر کے فاصلے پر پہاڑ کی چوٹی پر ایک مقام تبی سر ہے، یہاں تک پہنچنے کے لیے ایک وادی میں سے گزرنا پڑتا ہے۔پہاڑوں کی جھولی میں لپٹی ہوئی یہ وادی کسی طلسم سے کم نہیں۔ دھوپ جب ان پہاڑیوں کے کندھوں پر آتی ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے کسی نے چاندی کی چادر بچھا دی ہو۔ ہوا میں خنکی ہے مگر اس خنکی میں بھی ایک مٹھاس ہے۔تبی سر میں گرمی کے دنوں میں بھی گرمی کا احساس کم ہوتا ہے۔ یہاں کے لوگ ملنسار ،خوش اخلاق اور مہمان نواز ہیں۔ یہاں کے چہرے موتی کے پھولوں کی طرح چمکتے ہیں اور دل کے اندر شفاف چشمے بہتے ہیں۔ تبی سر میں میزبان اختر اقبال، ہمایوں خٹک اور فواد خان ہمارے منتظر تھے اور ہماری راہ دیکھ رہے تھے۔تبی سر میں انگریز دور کا ایک ہائی وے گیسٹ ہاس ہے۔ جب میں نے پہلی بار اس عمارت کو دیکھا تو ایسا لگا جیسے وقت وہاں رک گیا ہو۔ یہاں پر کبھی سرکاری افسر گھوڑوں پر آتے تھے، فائلیں سنبھالتے تھے اور شام کو چراغوں کی روشنی میں چائے پیتے تھے۔ آج وہ چراغ بجھ چکے ہیں لیکن دیواروں پر ان کی روشنی کے نشان اب بھی باقی ہیں۔ تبی سر سرکاری گیسٹ ہاس کی عمارت خوبصورت ضرور تھی مگر پانی کا پمپ خراب، سہولتیں ناپید تھی ۔ کہا جاتا ہے کہ جب پرانی عمارت بارشوں سے منہدم ہوئی تو 1966میں نئی عمارت مقامی سفید پتھروں سے بنائی گئی۔ پتھر سورج کی روشنی میں چمکتے ہیں جیسے ماضی اپنی عزت برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا ہو۔
شیر شاہ سوری نے اپنی حکومت کے زمانے میں جگہ جگہسرائیں تعمیر کروائی تھیں۔ ان سراں میں مسافر ٹھہرتے اور پھر آگے کا سفر کرتے۔ آج وقت بدل گیا ہے اور حالات بدل گئے ہیں۔ اب سرکاری گیسٹ ہاس میں عام آدمی کے لیے رہائش اختیار کرنا مشکل ضرور ہے۔ سرکاری
گیسٹ ہاس کے قریب عمران خان کی ذاتی دلچسپی اور ماہ نور ٹرسٹ کی کاوش سے ایک منی ڈیم تعمیر ہوا۔ یہ ڈیم اس علاقے کے لیے کسی تحفے سے کم نہیں۔ اسی علاقے میں لالہ مقصود نے اپنے علاقے میں تقریبا دو سو منی ڈیم بنائے اور ان میں مچھلیاں چھوڑی تاکہ پانی خراب نہ ہو اور لوگوں کو روزگار اور تفریح دونوں میسر آئیں۔ لالہ مقصود نے نہ صرف ڈیم بنائے بلکہ درخت بھی لگائے، سکولوں کو فرنیچر دیا اور علاقے میں خوشبو بکھیر دی۔ یہی وہ کردار ہیں جو پس منظر میں رہتے ہیں مگر انہی کی بدولت منظر زندہ رہتا ہے۔ مقامی ایم پی اے میجر اقبال خٹک کا تعلق اسی علاقے سے ہے، وہ اکثر صوبائی اسمبلی پنجاب میں اپنے علاقے کے مسائل اجاگر کرتے ہیں مگر اسمبلی کی دیواریں اونچی ہیں، آوازیں حکمرانوں تک پہنچتے پہنچتے کمزور ہو جاتی ہے۔ تبی سر اور مضافات میں جنگجو اور مشہور پشتو شاعر خوشحال خان خٹک کی اولاد بانگی خیل خٹک قبیلہ آباد ہے،یہ وہ لوگ ہیں جن کی رگوں میں جنگجوں کا خون ہے اور جن کے خمیر میں غیرت اور وفا گھلی ہوئی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر افراد افواجِ پاکستان میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یہ لوگ اپنی دھرتی کے محافظ ہیں۔ یہاں گیس اور تیل وافر مقدار میں نکلتا ہے مگر عجیب تضاد ہے کہ اس علاقے میں گیس نکلتی ہے مگر یہاں کیگھروں کے چولہے لکڑیوں پر جلتے ہیں اور گیس کی سہولت سے محروم ہیں۔یہ بارانی علاقہ ہے، کھیتی باڑی کبھی زندگی کا حصہ تھی مگر اب زمینیں سنسان ہیں۔ کبھی لوگ گندم، جو، باجرہ اور دیگر فصلیں خود اگاتے تھے۔ کبھی یہاں ہل چلتا تھا لیکن اب ہل صرف یادوں میں ہے۔ زمین بنجر نہیں مگر ماحولیاتی تبدیلی کی بھینٹ چڑھ گئی۔علاقے میں بنیادی صحت مرکز تو ہے مگر آبادی کے لحاظ سے سہولیات محدود ہیں۔ یہاں پر فوجی فانڈیشن ہسپتال ناگزیر ہے کیونکہ یہاں کے زیادہ تر لوگ افواج پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے لیے ایسا ادارہ نہ صرف سہولت بلکہ عزت کا اظہار ہوگا۔اسی طرح یہاں آرمی پبلک اسکول اور آرمی پبلک کالج کی بھی اشد ضرورت ہے۔ بوائز ایلمنٹری اسکول مصروالہ میں آٹھ
جماعتوں کے لیے صرف تین اساتذہ ہیں ، آپ
اندازہ لگائیں کہ باقی سکولوں کی حالت کیا ہوگی؟کالاباغ سے شکردرہ روڈ اس علاقے کی شہ رگ ہے۔ یہ وہ سڑک ہے جو پنجاب اور خیبر پختونخواہ کو جوڑتی ہے۔ ابھی اس پر کام جاری ہے مگر یہ سڑک اگر مکمل اور ون وے کر دی جائے تو تجارت، سیاحت اور آمدورفت کے نئے در کھل سکتے ہیں۔ یہ روڈ ان دونوں صوبوں کے درمیان صرف راستہ نہیں بلکہ تعلق کا ایک رشتہ ہے اور جب راستے بہتر ہو جائیں تو فاصلے خود بخود کم ہو جاتے ہیں۔تبی سر کے پہاڑوں کے نیچے نمک، لوہا، سونا اور دیگر معدنیات کے ذخائر وافر مقدار میں موجود ہیں۔ یہاں ایک صنعتی زون قائم ہو تو نہ صرف روزگار بڑھے گا بلکہ علاقے کے لوگوں کو ان کے وسائل کا حقیقی حق ملے گا لیکن شاید ہمارے نظام میں یہ اصول الٹا ہے، جہاں وسائل زیادہ ہوں، وہاں سہولتیں کم ہوتی ہیں۔تبی سر کے مغرب میں ایک گاں روغان جہاں گجھور وفقیر کا مزار ہے۔ مزار کے دونوں اطراف میں پہاڑ سے چشمے پھوٹتے ہیں، سبزہ جھومتا ہے اور فضا میں ایک روحانی سرور ہے۔ یہاں ہر سال ہزاروں عقیدت مند اور سیاح آتے ہیں لیکن راستہ ابھی تک پختہ نہیں ہے۔ حکومت صرف اڑھائی کلومیٹر کا کارپٹ روڈ یہاں تک بنا دیتو یہ علاقہ نہ صرف سیاحتی مقام بن سکتا ہے بلکہ یہاں کے لوگوں کیلئے خوشحالی کا نیا دروازہ کھل جائے گا۔ اس جگہ پر صرف مزار نہیں بلکہ دلوں کا سکون ہے مگر وہاں تک پہنچنے کے لیے آج بھی لوگوں کو مشکل اور دشوار گزار راستوں سے گزرنا پڑتا ہے۔اس مقام پر قدرت نے اپنی ساری سخاوت نچھاور کی۔ یہاں کے لوگ صبح سے شام تک امید کیسائے میں جیتے ہیں۔ ان کے خواب بہتر اور٢ مثبت ہیں (الف ) روزگار (ب) صحت ( ج) بچوں کے لیے بہتر تعلیم۔میں تبی سر کے ایک پہاڑی پر بیٹھا غروب آفتاب دیکھ رہا تھا۔ سامنے سورج ڈوب رہا تھا اور نیچے گاں کی روشنیاں جل رہی تھیں۔ مجھے لگا جیسے یہ روشنی ان لوگوں کی امید ہے۔ یہ لوگ اب بھی یقین رکھتے ہیں کہ ایک دن اس علاقے میں بھی ترقی اور خوشحالی آئے گی ۔ ایک دن حکومت ان پہاڑوں کی خاموشی کو بھی سن لے گی۔حکومت چاہے تو تبی سر نہ صرف ترقی کرے گا بلکہ پاکستان کا چمکتا ہوا گوشہ بن سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے