کالم

شبلی نامہ جدید

اسی اور نوے کی دہائی میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے سب سے نمایاں استاد ، منتظم اور محفل ساز ڈاکٹر شبلی صاحب ہی تھے ۔ وہ تن تنہا کسی ہجوم سے کم نہ تھے ۔انتہائی متحرک، تیز نگاہ ، چوکس، باخبر ، ایک دن میں پوری یونیورسٹی کے کئی چکر لگا لیتے تھے۔ ڈاکٹر شبلی گفتگو کے ساتھ ساتھ تقریر کے بھی بادشاہ تھے۔ ضیا الحق کے دور میں بھارت سے ادیبوں اور فنکاروں کے وفود کثرت سے پاکستان آیا جایا کرتے تھے۔اسی تسلسل میں ایک بار ڈاکٹر گوپی چند نارنگ ہماری یونیورسٹی میں آئے اور انہوں نے یونیورسٹی آڈیٹوریم میں ” فیض احمد فیض: درد کا شجر” کے عنوان سے ایک لیکچر دیا تھا ۔ڈاکٹر شبلی صاحب نے میزبان کے طور پر ان کے تعارف اور علمی فضائل پر تالیوں کی گونج میں ایک بھرپور تقریر کی۔گوپی چند نارنگ نے اپنے لیکچر کے آغاز میں کہا تھا کہ ” حاضرین یہ میرے بارے میں ابھی ڈاکٹر صدیق خان شبلی صاحب نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے ،آپ ہرگز اس پر یقین مت کیجیئے گا، میں کیا اور میری اردو کیا ، میں بلوچستان کا دہقانی ہوں، شکستہ بستہ اردو بولتا ہوں۔” یہ ڈاکٹر شبلی کی ایک تقریر پر گوپی چند نارنگ کا ردعمل تھا ۔امر واقعہ یہ ہے کہ وہ دنیا کے کسی بھی موضوع پر بے تکان بول سکتے تھے ۔یونیورسٹی کی مختلف کمیٹیوں میں ہر مسلے کا حل اور طریقہ کار ان کی پاس ہوتا تھا ۔ایک بار میں نے پوچھ لیا کہ آپ کسی میٹنگ میں تاخیر سے بھی آئیں ،تو جاری بحث کو یہ کہہ کر اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں کہ ؛ جناب اس مسلے /معاملے کے تین پہلو زیادہ اہم ہیں ، اگر ہم ان پر باری باری غور کر لیں تو نتیجے تک پہنچنا آسان ہو جائے گا ، جبکہ آپ کو علم نہیں ہوتا کہ اس مسلے یا معاملے پر کیا کیا بات ہو چکی ہے۔مسکرا کر کہنے لگے کہ جب میں تین پہلووں کی بات کرتا ہوں تو میرے ذہن میں تین پہلووں کا کوئی نقشہ نہیں ہوتا ،بس یہ جاری گفتگو میں ایک حل پیش کرنےوالے دعوے کے ساتھ شامل ہونے والی بات سمجھ لو ۔پھر میں فوری طور پر سمجھ میں آنے والی بات سے شروع کرتا ہوں۔اسی دوران کوئی اور بات ذہن میں آجائے تو اسے دوسرا پہلو قرار دیکر بات جاری رہتی ہے۔ایسی میٹنگز میں ہر کوئی مسلے یا معاملے کے ممکنہ حل سے کچھ نہ کچھ واقف ضرور ہوتا ہے ،بس مسلہ اعتماد کا ہوتا ہے ۔میں نے بات میں گرہ لگاتے ہوئے کہا تھا کہ اعتماد تو آپ کے پاس بہ مقدار وافر موجود ہے ڈاکٹر صاحب ۔میری بات سن کر مسکرائے اور کہنے لگے اچھا جی؟۔ان کی فیصلہ سازی کی اسی صلاحیت نے انہیں وائس چانسلرز کا دلبر جانی بنا رکھا تھا۔آج کا کام ابھی اور ابھی کا کام وہ پہلے سے کر چکے ہوتے تھے ۔ ایک بار تو حیران کر کے رکھ دیا تھا،یہ ان کی ریٹائرمنٹ سے کچھ سال پہلے کی بات ہے ۔ خلاف معمول ایک ہفتے کی چھٹی پر رہے۔جب ہنستے مسکراتے واپس آئے تو پوچھا کہ خیریت تھی ، آپ نے خلاف معمول چھٹیاں کی ہیں ، کہیں گئے ہوئے تھے؟ کہنے لگے او یار میں نے نوٹ کیا تھا کہ پیدل چلتے چلتے میرا سانس پھول جاتا ہے۔میں ڈاکٹر کے پاس گیا اس نے کہا کہ آپ احتیاطا ہارٹ اسپیشلسٹ کو بھی دکھا لیں ،وہ ای سی جی اور ایکو گرافی کرلیں گے۔تسلی ہو جائے گی۔کہنے لگے ہارٹ اسپیشلسٹ نے چیک اپ کرنے کے بعد کہا کہ ابھی تو خطرے کی کوئی بات نہیں، لیکن ایک دو سال بعد آپ کو بائی پاس سرجری کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ کہنے لگے ایک دو سال کیوں؟ آپ ابھی کردیں۔اب پائی پاس سرجری کروا کر آ رہا ہوں ۔مجھے مکمل آرام کا کہا گیا ہے لیکن مجھے مکمل آرام یونیورسٹی آ کر ہی ملتا ہے۔یہ تفصیل سننے کے بعد ہر سامع حیران اور خاموش تھا جبکہ ڈاکٹر شبلی کے قہقہے پھر سے جاری ہو چکے تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد چند سال وہ یونیورسٹی میں کنٹریکٹ پر رہے۔اس کے بعد بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں ڈین فیکلٹی آف آرٹس کے طور چلے گئے لیکن دل ان کا اوپن یونیورسٹی میں لگتا تھا۔اوپن یونیورسٹی میں ان کے من پسند مقامات دو تھے ایک انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشنل ٹیکنالوجی کے ڈائریکٹر جاوید محمود قصوری کا آفس ، دوسرا شعبہ اقبالیات میں میرا آفس۔وہ روزانہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی سے سیدھے اوپن یونیورسٹی آتے اور یہاں سے گھر جاتے تھے۔ جس شعبہ اردو کو انہوں نے یونیورسٹی کا سب سے متحرک اور قہقہہ بار شعبہ بنا رکھا تھا اب وہ ان کےلئے اجنبیت کا عنوان تھا ۔ان کے ہاتھ کے لگائے ہوئے پودے بڑے ہو کر پھل پھول دینے کی بجائے کانٹے دار درخت بن چکے تھے ۔ اسی دور میں انہیں شوگر کی شکایت شروع ہوئی،جس نے رفتہ رفتہ ان کی یادداشت کو متاثر کرنا شروع کر دیا ۔مجھے پہلی بار اندازہ اس وقت ہوا جب وہ ہر روز ایک ہی واقعہ پوری تفصیل کے سنا کر پوچھتے کہ "ایہہ ویخ لے ، کی ہو ریا اے”( یہ دیکھ لو ، کیا ہو رہا ہے)ان کی صحت اور یادداشت کا یہ زوال ان کی اہلیہ محترمہ کی وفات کے بعد شروع ہوا تھا۔ان کی اہلیہ محترمہ نہایت شاندار ،مہذب ،عقلمند اور پورے گھرانے کی سب سے زیادہ ذمہ دار خاتون تھیں ۔۔۔(جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے