کالم

عرب، اسلامی ممالک سربراہ اجلاس

عرب اسلامی ممالک سربراہ کے ریاض میں ہونے والے غیر معمولی اجلاس میں پاکستان نے فلسطینی مسئلے کے بارے میں دو ٹوک موقف اپناتے ہوئے مسلم امہ کی ترجمانی کی اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی روکنے ، اسرائیلی وزیراعظم پر جنگی جرائم پر مقدمہ چلانے اور غزہ میں فوری طور پر جنگ بندی کے مطالبات کو کانفرنس کے اعلامیہ کا حصہ بنا لیا گیا پاکستان نے فلسطین میں ہونیوالی خون ریزی پر عالمی ضمیر کو جنجوڑا اور ایران پر حالیہ اسرائیلی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے اسے ایران کی سالمیت علاقائی ،خود مختاری کی خلاف ورزی خلاف دیا۔پاکستان نے لبنان میں اسرائیلی فوجی جارحیت کی بھی مذمت کی اور وہاں کے معصوم لوگوں کے ساتھ بھرپور اظہارِ یکجہتی کیا ۔ اسلامک تعاون تنظیم کے اجلاس میں سعودی عرب پاکستان، ایران اردن مصر ترکی, انڈونیشیا, نائجیریا لبنان, شام فلسطین سمیت 50 سے زائد سربراہان مملکت عرب لیگ اور او آئی سی کے خصوصی نمائندوں نے شرکت کی ۔ وزیراعظم شہباز شریف کا اجلاس سے خطاب امریکہ، یورپ،مسلم امہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں سمیت تمام عالمی قوتوں کو ایک پیغام تھا کہ وہ خواب غفلت سے جاگیں اور فلسطینیوں کی نسل کشی کوفوری رکوائیں وزیراعظم نے کہا کا اسرائیل اقوام متحدہ اور عالمی عدالتوں کے فیصلوں پر عمل نہیں کر رہا فلسطینیوں کو بھیجی جانیوالی امداد بھی روک رہا ہے امدادی کیمپوں رہائشی علاقوں ،سکولوں اور ہسپتالوں پر بمباری سے ہزاروں فلسطینی شہید ہو چکے ہیں انہوں نے فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا جس کا دارالحکومت القدس ہو۔ کانفرنس میں اسرائیلی جارحیت روکنے اور عرب علاقوں پر اسرائیلی فوج کا قبضہ ختم کرانے کے لیے عملی اقدامات کا مطالبہ کیا گیا۔ اسرائیل کو مغربی اسلحہ کی فراہمی فوری روکنے ،جنگی جرائم کے ارتکاب پر اس کے خلاف مقدمہ چلانے، اقوام متحدہ میں اسرائیل کی رکنیت معطل کرنےاور مسئلے کے دو ریاستی حل کو عملی شکل دے کر فلسطین کو اقوام متحدہ کا رکن بنانے کا مطالبہ کیا گیا اجلاس میں اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ مذمتی بیانات سے آگے بڑھ کر مسئلہ کے حل کےلئے عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ یہ امر قابل غور ہے کہ اگر تمام اسلامی ممالک اسرائیل کے خلاف ایک موقف اپنا کر اس کی سپلائی لائن بند کریں تو اسے جنگ بندی پر مجبور کیا جا سکتا ہے فلسطینی ریاست کے قیام کیلئے اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کے کٹھ جوڑ کو توڑنا ہوگا اور اس کےلئے تمام مسلم امہ کو ایک ہونے کا عملی ثبوت دینا ہوگا جب بھی مسلمان خدا پر مکمل ایمان کے ساتھ میدان عمل میں نکلتا ہے تو دشمن کے تمام منصوبوں کو خاک میں ملا دیتا ہے فلسطین کا مسئلہ امت مسلمہ کو مل کر حل کرنا ہوگا اور اس کیلئے ٹھوس حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔صہیونی جارحیت رکوانے کےلئے ضروری ہے کہ تمام اسلامی ممالک اسرائیل کی حمایت کرنےوالے امریکہ اور مغربی ممالک پر دبا بڑھا کر فلسطینیوں کی نسل کشی رکوائیں اور اسے جنگ بندی پر مجبور کرنے کے لیے ہتھیاروں کی سپلائی بند کر کے اس پر تجارتی پابندیاں عائد کریں۔اقوام متحدہ کی قراردادوں کو مسلسل ویٹو کرنے کے ہتھکنڈوں کے پس منظر میں عرب اسلامی کانفرنس کا انعقاد ایک ایم پیش رفت ہوگی اب ضروری ہے کہ کانفرنس کے فیصلوں پر عمل درامد کےلئے عالمی برادری کو متحرک کیا جائے۔تنظیم کے رکن تمام ممالک کو اقوام متحدہ میں بھی ایک موقف اختیار کرنا ہوگا اور فلسطین اسرائیل کی جنگ بندی کو روکنے کےلئے اپنے ہم نواں کے ساتھ دبا بڑھانا ہوگا۔اقوام متحدہ کی قراردادوں کو مسلسل ویٹو کرنے کے ہتھکنڈوں کے پس منظر میں عرب اسلامی کانفرنس کا انعقاد ایک اہم پیش رفت ہے کانفرنس کے اعلامیہ پر عمل درامد کےلئے عالمی برادری کو متحرک کرنا ضروری ہے۔اجلاس اس لحاظ سے بھی انتہائی اہم تھا کہ اس میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلیمان نے بھی اسرائیل کے خلاف دو ٹوک موقف اپنایا اور ایران کے حق میں بیان دے کر خطے کی بدلتی صورتحال کی سمت کا تعین کر دیا ۔ مشرق وسطی کی بدلتی ہوئی صورتحال بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے اور اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور امریکی صدر ٹرمپ کے پہلے دور اقتدار میں تو یو اے ای عمان سمیت چار ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا تھا مگر او ائی سی کے غیر معولی اجلاس میں سعودی عرب سمیت تمام اسلامی ممالک کا اسرائیل کے خلاف بھرپور اور ٹھوس موقف سامنے آیا ہے کیا یہصدر ٹرمپ کیلئے قبول ہوگا دوسری طرف ایران اور سعودی عرب کے بڑھتے ہوئے تعلقات کوصدر ٹرمپ کس طرح دیکھتے ہیں کیا اب صدر ٹرمپ فلسطینیوں کی نسل کشی رکوانے کےلئے اسرائیل پر دبا ڈالیں گے یا پھر اسرائیل کی حمایت جاری رکھیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے