Site icon Daily Pakistan

احساس پیداکرنے کی ضرورت

کسی کا رویہ اور برتاﺅ ہی بتادیتا ہے کہ اس میں کتنا شعور اور احساس ہے؟جس میں شعور ہوتا ہے ،اسی میں احساس کا مادہ ہوسکتا ہے جذبہ مثبت ہوسکتا ہے اور منفی بھی جبکہ احساس مثبت ہوتا ہے۔جذبہ مختصر اور طویل ہوسکتا ہے جبکہ احساس پےدار ہوتا ہے یعنی جذبہ اور احساس مترادف الفاظ نہیں ہیں۔خاکسار کو اپنے ملک کے دوردرازبلکہ تقریباًہر علاقے میں جانے کے ساتھ ساتھ چند ممالک کی سیر وسیاحت کا موقع بھی ملا ہے ۔ ہر قسم کے لوگوں کے ساتھ ساتھ عام اور سفید پوش سمیت مختلف علاقہ جات کے ماحول کا مشاہدہ کیا۔علاوہ ازیںاپنی زیست کے زیادہ تر لمحات اےک بڑے شہر میں بسر کررہا ہے ،یہ تیز اور مصروف شہر ہے،اس کی آبادی تقریباًڈیڑھ کروڑ ہے۔ عام محلہ جات اور کچی آبادیوں میںعموماً دیکھا گیا ہے کہ جب آپ کا پڑوسی رات کو گھر واپس آتا ہے تو وہ موٹرسائیکل یا گاڑی سے اتر کر گیٹ پر بیل دینے کی بجائے زور زور سے ہارن بجاتا ہے،جس سے محلہ بھر کے بچے ، بزرگ اور مریض جاگ جاتے ہیں اور اضطراب کا شکار ہوجاتے ہیں جبکہ پوش حلقہ جات میں عموماً ایسا ماحول کا مشاہدہ کم دیکھنے کو ملتا ہے۔اسی طرح ترقی پزیر ممالک میں ایسے واقعات عام دیکھنے کو ملتے ہیں جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں ایساتجربات سے گزرنے کا موقع نہیں ملتا ہے۔ضروری نہیں کہ عام محلہ جات اور کچی آبادیوں میں سب لوگ یکساں رویے کے مالک ہوں،ان میں بھی کافی لوگوں میں شعور اور احساس ہوتا ہے، ایسے افراد اذیت برداشت کرلیتے ہیں لیکن وہ کسی کو نصیحت یا اچھے رویے کی تلقین نہیں کرسکتے کیونکہ اس کے منفی ردعمل کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ جن لوگوں میں شعور ہوتا ہے،وہ دوسروں کا خیال اور احساس کرتے ہیں جبکہ جن لوگوں میں شعور کا فقدان ہوتا ہے ، وہی افراد پٹروسیوں اور دوسرے لوگوں کو تکلیف دیتے ہیں اور پریشان کرتے ہیں۔جو لوگ دوسروں کو تکلیف دیتے ہیں یا پریشان کرتے ہیں ، ایسے افراد کیسے سکھ پاسکتے ہیں؟اسی طرح آپ کو مارکیٹ اور بازار میں اچھے اور برے رویے محسوس کرنے کو ملیں گے۔ اچھے تاجر سے بہتررویے کا موقع ملے گا ، اچھے گاہک کا رویہ بھی مناسب ہوتا ہے۔جس تاجر اور دکاندار میں شعور ہوتا ہے ،وہ جائز منافع لے گا جبکہ جس میں شعور اور احساس نہیں ہوگا ،وہ آپ سے زیادہ اور ناجائز منافع لے گااور ممکن ہے کہ وہ آپ کو چیز بھی معیاری نہ دے ۔پانی حیات ہے لیکن ہمارے وسیبب میں میٹھے پانی کو بے دردی سے ضائع کررہے ہیں جس کی وجہ سے پانی کا لیول نیچے جارہا ہے ،خدشہ ہے کہ مستقبل میں لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ پانی ہوگا۔اگر لوگوں میں احساس کا مادہ ہوتا تو وہ پانی کو قطعی ضائع نہ کرتے۔ علاوہ ازیں لوگوں کی مجرمانہ غفلت کے باعث اس خطے میںآلودگی میں اضافہ ہورہا ہے،پاکستان اور بھارت میں بڑی تعداد میں لوگوں آلودگی کے باعث بیمارہورہے ہیں اور موت کی آغوش میں جارہے ہیں ۔ لاہور اور دہلی وغیر ہ کا شمار آلودہ ترین شہروں میں ہورہا ہے۔یہ حکومتوںاور عوام کی غفلت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ظاہر ہے کہ حکمرانوں اور عوام کو اس اہم مسئلے کا احساس ہی نہیں ہے۔ ترقی ےافتہ ممالک کے عام شہری سے حکمرانوں تک سب آئین اورقانون کا احترام کرتے ہیں جبکہ ترقی پزیر ممالک میںرویے برعکس ہوتے ہیں۔ترقی یافتہ ممالک نے شعور اور احساس کی وجہ سے ترقی کے منازل طے کیے ہیں جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں شعور اور احساس کا مادہ نسبتاً کم ہونے کی وجہ سے ترقی سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔ترقی یافتہ ممالک میں کرپشن کم جبکہ ترقی پذیرممالک میں کرپشن کا بول بالا ہوتا ہے،ایسا بھی شعور اور احساس کے باعث ہوتا ہے ۔ ترقی پزیر ممالک میں حکمران اور ایلیٹ طبقہ اپنی عیاشیوں کےلئے قرض لیتے ہیں جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں ایسا نہیں ہوتا ہے۔ترقی پزیر ممالک میں عالمی مالیاتی اداروں کا طریقہ واردات بھی دلچسپ اور حیران کن ہے کہ مالیاتی ادارے بیوروکریسی ، ارکان اسمبلی اور حکومتی عیاشیاں ختم کرنے کا مطالبہ نہیں کرتی ہیں بلکہ وہ بجلی ، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافوں پر زور دیتی ہیں۔بجلی ، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافوں سے مہنگائی ، غربت اور بےروزگاری میں اضافہ ہوتا ہے اور عوام پر مزید بوجھ بڑجاتا ہے۔اگرحکمران اور ایلیٹ طبقے میں تھوڑا سا بھی احساس ہوتا تو وہ جائز و ناجائز مراعات لینے سے انکار کرتے لیکن وہ ایسا نہیں کررہے ہیں ،اگر وہ ملک پر بوجھ نہ بنتے تو یقینا یہ ملک ترقی یافتہ اور خوشحال ہوتا۔حضرت علی ؓ سے قول منسوب ہے کہ "رشتے خون کے نہیں بلکہ احساس کے ہوتے ہیں۔ اگر احساس ہوتو اجنبی بھی اپنے ہوجاتے ہیں اور اگر احساس نہ ہوتواپنے بھی اجنبی بن جاتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے ملک ،عوام ، عزیز و اقارب ، یارو احباب ،ہمسایوں ، اقلیتوں اورغریبوں کا احساس کریں ۔ راستے اور سڑک کے آداب کو فراموش نہ کریں اپنے رشتے داروں کے ساتھ بہترین سلوک رکھیں اوران کے ساتھ تعاون کریں، دوستوں کا خیال رکھیں، ہمسایوں کا لحاظ رکھیں، اقلیتوں کو برابر کے شہری سمجھیں اور ان کو حقوق دیں اور غریبوں کی مدد کریں،احساس کو مرنے نہ دیں بلکہ احساس کو زندہ رہنے دیں۔

Exit mobile version