Site icon Daily Pakistan

ارب پتی وائس چانسلرز کی تلاش

سنا ہے یا شاید کہیں پڑھا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کچھ باتیں پاکستانی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کے بارے میں بھی کی ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق انہوں نے کہا تھا کہ وائس چانسلرز ارب پتی ہوگئے ہیں اور یہ عہدہ نہیں چھوڑتے اور عدالتوں سے اسٹے لے لیتے ہیں،اگر ایسی کوئی شکایت یا حقیقت موجود ہے تو اصولی طور اس کا اظہار وفاقی وزیر تعلیم رانا تنویر حسین کو کرنا چاہئے تھا۔لیکن وہ ایک دیہی سیاست دان کے طور پر حلقے میں جوڑ توڑ کے ماہر ہیں ،تعلیم اور پھر وہ بھی اعلیٰ تعلیم سے ان کی کوئی مطابقت اور مناسبت ابھی تک دریافت نہیں کی جا سکی۔ ن لیگ کی موجودہ حکومت نے ابھی تک اپنی تمام تر توجہ یہ ثابت کرنے پر لگا رکھی ہے کہ؛ اس نے متعدد بار اقتدار و اختیار کا تجربہ رکھنے کے باوجود کچھ نہیں سیکھا ،حتیٰ کہ گناہ تازہ تر کی توفیق سے بھی یہ لوگ محروم ہیں ۔وہی ضیا الحق کی مجلس شوریٰ کے اراکین کی اولادیں، وہی ضیا فاو¿نڈیشن کے ملازم کبھی کالم نگار اور اب سینیٹر کے روپ میں، وہی خاندان کی سیاست، الغرض یہ سیاسی گرو بڑی محنت سے خود کو غیر مقبول کرنے میں مصروف ہے۔ جہاں تک خواجہ آصف کا تعلق ہے تو اس بے چارے کو ایک ایسے محکمے کا وفاقی وزیر بنا دیا گیا ہے۔جس کے بارے میں بات کرنا تو دور کی بات ہے ، سوچتے ہوئے بھی انہیں تپ محرقہ لاحق ہو جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب بھی انہیں قومی اسمبلی میں اپنی پاٹ دار آواز میں خطاب کا موقع ملتا ہے تو وہ وفاق کی دیگر تمام وزارتوں کے محکموں کے بارے میں کھل کر اظہار خیال کرتے ہیں ،کوئی بات نہیں کرتے تو صرف محکمہ دفاع کے بارے ۔اس تقریر میں انہوں نے پاکستان کے اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں کے سربراہان یعنی وائس چانسلرز کی خبر لینے کی کوشش کی ہے۔جس کے جواب میں سنا ہے کہ بعض یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز نے اسپیکر قومی اسمبلی کو خط لکھ کر خواجہ آصف کی تقریر کے بعض حصوں پر احتجاج بھی کیا ہے۔ خط لکھنے والوں میں سندھ کے ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ بھی شامل ہیں ۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر کو لکھے گئے خط میں وائس چانسلرز نے کہا کہ مہذب ملکوں میں اساتذہ اور عوام کا احترام کیا جاتا ہے، نہ کہ اسمبلی فلور پر ان کی بے عزتی کی جائے ۔خط میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف اپنے اس بیان پر معذرت طلب کریں ۔نیز قومی اسمبلی کی کارروائی سے خواجہ آصف کے وائس چانسلرز کے بارے میں کہے گئے جملے بھی حذف کئے جائیں۔چلئے سندھ ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ اور چند وائس چانسلرز نے اپنا ردعمل ریکارڈ کرا دیا ۔ لیکن خواجہ آصف کو رانا تنویر حسین صاحب کو سامنے بٹھا کر قومی اسمبلی کھڑے ہو کر ان سوالات کا جواب دینا چاہیے کہ ؛
اول : وفاق اور پنجاب کے کون کون سے وائس چانسلرز ارب پتی بن چکے ہیں۔؟
دوم : ایک وائس چانسلر ارب پتی بننے کے جملہ مراحل کیسے طے کرتا ہے؟
سوم: ایک وائس چانسلر ارب پتی بننے کے دوران چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن اور متعلقہ وزیر(پروچانسلر)کا تعاون کن شرائط پر حاصل کرتا ہے۔؟
چہارم: کسی بھی یونیورسٹی میں ایک وائس چانسلر کا ٹینیور مکمل ہونے پر پرو چانسلر یعنی وزیر تعلیم کی طرف سے اس کا فنانشل آڈٹ کیوں نہیں کرایا جاتا؟
پنجم: وفاق یا پنجاب کی کن یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر ٹینیور مکمل ہو جانے کے باوجود عہدہ نہیں چھوڑ رہے؟ اور اعلی عدالتوں سے حکم امتناعی حاصل کر کے آرام سے بیٹھے سسٹم کا منہ چڑھا رہے ہیں؟ ان سارے سوالات کا جواب دینا خواجہ آصف پر لازم ہے۔خواجہ آصف کو جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ بھی بتا دینا چاہئے کہ ن لیگ کے وفاقی وزرا مثلا ًاحسن اقبال ، خود خواجہ آصف اور دیگر کا پرائیویٹ سیکٹر کی کن یونیورسٹیوں کےساتھ مالیاتی ربط و تعلق قائم ہے ۔ دیکھا جائے تو وفاق اور پنجاب کی یونیورسٹیوں کی حد تک تو ذمہ داری ن لیگ کے انہی اکابرین پر آتی ہے۔چیئرمین ایچ ای سی کا تقرر بھی انہوں نے میرٹ اور شفافیت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کیا تھا اور اپنے آزمودہ بندے کو چیئرمین ایچ ای سی لگایا تھا۔خواجہ آصف کی تقریر کا ایک ہی مطلب نکلتا ہے کہ یہ لوگ حکومت کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔وفاق کے وزیر تعلیم فی البدیہہ دشنام طرازی کے ماہر ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ چاہے پنجاب ہو چاہے وفاق ان کے لگائے اور بنائے بیشتر وائس چانسلرز متفق، رفیق یا رکن ہوتے ہیں ،لیکن لوگ اس پہلو پر بات نہیں کرتے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ مصلحت کوش پڑھے لکھے لوگوں کی عقلمندی معاشرے میں حماقت بکھیر دیتی ہے۔خواجہ آصف کی تقریر بھی اسی ضمن میں شمار کرنی چاہئے۔ ستم ظریف کا کہنا ہے کہ خواجہ آصف کو بے ربط گفتار پر رعایت دے دینی چاہئے، وہ کہتا ہے کہ جس وفاقی وزیر کو خود اپنے ادارے کے بارے میں زبان کشائی کی اجازت نہ ہو ، تو وہ بے چارہ دیگر اداروں میںہی تانک جھانک کرے گا۔پاکستان میں یونیورسٹیوں کے معاملات کو آمریت کے بدترین ماڈل کس نے بنایا ہے؟ یقینا اسی نے جو ان وائس چانسلرز کا تقرر کرتا ہے ۔ سب جانتے ہیں کہ بیشتر وائس چانسلرز سفارشوں سے آتے ہیں اور تلاش کمیٹی میں بھی سارے سفارشی ہی بیٹھے ہوتے ہیں۔ اخبارات میں رپورٹنگ ہوتی ہے کہ حق دار کو پیچھے کر کے سفارشی یا نااہل امیدوار کو نمبر ون پر کر دیا گیا ہے مگر کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ میرٹ کا گلا گھونٹ کر جب اپنے منظورِ نظر لوگ رکھے جائیں گے تو وہ یہی کچھ کریں گے۔ اس میں وائس چانسلرز کےساتھ ان کو لگانے والے بھی قصور وار ہیں۔ یہ ملک ایسے ہی تباہی کے دھانے پر تھوڑی پہنچ گیا ہے، اسے یہاں تک پہنچانے میں سب نے بہت محنت کی ہے۔ معلوم حقیقت یہ ہے کہ؛ اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں اس جہالت کا آغاز ایچ ای سی کے قیام سے ہوا تھا۔ ایچ ای سی فارماسیوٹیکل کمپنیوں کے میڈیکل ریپ جیسے بریف کیس بردار لپاڑوں کو وی سی لگاتی ہے جو ایچ ای سی کے ساتھ مل کر انواع و اقسام کے فنڈز اور ریسرچ گرانٹس ہڑپ کر جاتے ہیں۔ یہاں تقسیم زر کے اصول بھی طے شدہ ہیں ۔ہڑپ شدہ مال کی تاثیر دور تک پہنچتی یا پہنچائی جاتی ہے ،مت پوچھئے صورت حال نہایت تشویش ناک ہے ۔اب مارکیٹ میں وی سی لگنے کے خواہش مندوں کےلئے انویسٹرز بھی دستیاب ہیں۔جو پیسہ لگا کر وی سی بنواتے ہیں اور پھر اپنی انویسٹمنٹ منافع سمیت واپس لیتے ہیں۔اس وقت پورے پاکستان میں ،خاص طور پر پنجاب شریف اور فیڈرل ایریا کی یونیورسٹیوں میں جس طرح کے وائس چانسلرز مقرر کیے جاتے ہیں اور جا رہے ہیں،ان کو دیکھ کر تو استغفراللہ بھی پڑھیں تو کم ہے۔پھر یہ جو سرکاری کالج میں فرسٹ ائر میں داخلے کے لیے میٹرک پاس بچوں کا میرٹ بنایا جاتا ہے ،بالکل وہی طریقہ سرچ کمیٹیاں کر رہی ہیں۔سرچ کمیٹیاں جن اراکین پر مشتمل ہوتی ہیں ،کوئی اچھی یونیورسٹی انہیں اپنے مین گیٹ کے سامنے سے نہ گزرنے دے۔آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتایئے کہ کیا چیئرمین ایچ ای سی یا وفاقی وزیر تعلیم اس قابل ہیں کہ وائس چانسلر جیسے منصب کے لیے کسی کا انتخاب کر سکیں؟ پاکستان میں اعلی تعلیم و تحقیق کا بیڑہ غرق کرنے میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کی خدمات کا شمار ممکن نہیں۔مثال کے طور پر تحقیقی مقالات کے معیار کی بربادی اور مقدار پر اصرار وہ نکتہ ہے جہاں سے اب ایچ ای سی کے جلی و خفی وابستگان خوب کما رہے ہیں۔اس حوالے سے میرا ذاتی موقف یہ ہے کہ یونیورسٹیوں میں اگلے درجے تک جانے کےلئے امیدوار سے مقررہ تعداد میں مطبوعہ مقالات درخواست کے ساتھ طلب کیے جائیں۔اس میں "ایچ ای سی کے منظور شدہ” یا ایکس وائی کیٹیگری والا چکر نہ ہو ۔مقالہ چاہے قومی زبان میں چھپا ہو ۔ماہرین اس کے رسالے کی بجائے اس کے معیار کی جانچ کریں۔اب ہو یہ رہا ہے کہ ایچ ای سی کے منظور شدہ رسائل ایکس وائی وغیرہ میں اڑھائی یا ساڑھے تین صفحات کے کثیر المصنف مضامین کو معیار مان کر قابلیت کا اندازہ قائم کیا جاتاہے۔تف ہے اس طریقہ کار پراور پروفیسر کمیونٹی آواز بھی نہیں اٹھاتی۔ اعلی تعلیم کے ارفع ادارے یعنی یونیورسٹیاں اپنے ارب پتی وائس چانسلرز کی وجہ سے نہیں ، اپنے تخلیق کردہ علم و شعور سے پہچانی جاتی ہیں۔لیکن اگر ایک یونیورسٹی کا سربراہ پیسہ خرچ کر کے پیسہ کمانے کے لیے وی سی بنے گا تو پھر اس سے کیا امید رکھی جا سکتی ہے۔یہ کسی ایک یا دو یونیورسٹیوں کے معاملات یا حالات نہیں ، کم و بیش پاکستان میں ہر جگہ یہی حال ہے،یعنی وائس چانسلر ارب پتی ہیں تو یونیورسٹیاں مفلس اور تہی دامن ۔لہٰذا میرے پیارے پاکستانی اعلی تعلیم و تحقیق کا تو خدا حافظ ہی سمجھیں۔

Exit mobile version