ابھی تک ماہرین معاشیات اور سینئر تجزیہ کاران الیکٹرانک میڈیایہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ مئی 1950 میں پیدا ہونے والے تہتر سالہ اسحاق ڈار نے ایک صحافی کے منہ پر تھپڑ مارنے کی گستاخی کی ہے یا آئی ایم ایف یہی تھپڑ اسحاق ڈار کے منہ پر پہلے ہی رسید کر چکا ہے ؟ اور اسحاق ڈار بے چارے نے صحافی کے مسلسل استفسار پر اسے وہی جواب واپس کرنے کی کوشش کی ہے جو ،دراصل خود اسے اپنے منہ کے دائیں طرف کب کا موصول ہو چکا ہے اور جس کا شاید ہلکا سا نشان اب بھی موجود ہو؟ نوجوان صحافی شاید سمجھ نہیں سکا۔اسحاق ڈار نے تو اپنی طرف سے وہی جواب دینے کی کوشش کی ہے ،جو انہیں آئی ایم ایف کی طرف سے مل چکا ہے ۔ایک نیوز ایجنسی سے وابستہ ،مذکورہ صحافی کے مطابق میں نے چلتے چلتے وزیرخزانہ سے سوال کیا کہ سر آئی ایم ایف سے معاہدہ کیوں نہیں ہو پا رہا؟ وزیراعظم شہباز شریف بھی فرانس میں موجود ہیں تو کیا آئی ایم ایف سے معاہدہ ہوجائے گا۔؟ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جواب میں کہا کہ میں نے قومی اسمبلی میں بتادیا ہے ۔صحافی نے دوبارہ استفسار کیا کہ سر میں نے آئی ایم ایف سے معاہدے سے متعلق پوچھا ہے۔ اسحاق ڈار تیزی سے چلتے ہوئے ،گویا سوال سے فرار حاصل کرنے کے چکر میں تھے ،یوں بھی اسحاق ڈار فرار ہونے کا بیش قیمت تجربہ رکھتے ہیں ،بیش قیمت اس لیے کہ موصوف نے ایک بار ملک سے فرار ہونے کے لیے وزیراعظم کے ہوائی جہاز کا انتخاب اور استعمال کیا تھا۔ فرار کے بعد اسحاق ڈار کی دوسری مہارت بوقت ضرورت بیمار ہو جانے کی ہے ۔ ن لیگ کے دائم المریض وزرا ءجب معتوب ہوں تو دنیا بھر کے دریافت شدہ امراض کی دکان بن جاتے ہیں۔اور جب اقتدار میں ہوں تو ان میں بجلیاں سی بھر جاتی ہیں۔ اسحاق ڈار بھی مفروریت کے زمانے میں انواع و اقسام کے امراض کا شکار رہے تھے۔ اور چلتے بھی اس طرح سے تھے جیسے زمین پر گرا سکہ تلاش کر رہے ہوں ۔جب سے وزیر خزانہ بنے ہیں ،تب سے خزانہ بیمار اور اسحاق ڈار صحت مند اور تیز طرار نظر آنے لگے ہیں۔صحافی کی طرف سے سوال کیا گیا تھا کہ سر آئی ایم ایف سے معاہدہ کیوں نہیں ہو رہا؟ وہ نوجوان صحافی کے متواتر سوال سے بھاگتے رہے،اس دوران سوال بدست صحافی کے مسلسل تعاقب سے ان کے اعصاب جواب دے گئے۔ ضعف وپیری اور عالم طیش میں جو چیز سب سے پہلے بے قابو ہوتی ہے ،اسے زبان کہتے ہیں۔عالم طیش میں ہذیان گوئی کا ایک نقصان منہ کا بھی ہوتا ہے ،جو کہ بگڑ کر بدصورت اور بعض صورتوں میں مضحکہ خیز ہو جاتا ہے ۔صحافی کا اپنے سوال پر مسلسل اصرار دیکھ کر اسحاق ڈار شدید طیش میں آگئے اور انہوں نے اپنے سیاہ پوش سیکیورٹی گارڈز کو حکم دیا کہ اسے پکڑو۔ صحافی کے مطابق سیکیورٹی گارڈ نے مجھے پکڑلیا اور اسحاق ڈار نے میرے قریب آ کر مجھے تھپڑ رسید کردیا۔ واقعے کی ویڈیو میں اسحاق ڈار ذہنی توازن کھو بیٹھے معلوم ہو رہے تھے ،انہوں نے اپنے گارڈز سے کہا کہ اس کا موبائل لے لو اور اس کا پیچھا کرو اور اسے سبق سکھاو¿۔ ستم ظریف کہتا ہے کہ اسحاق ڈار کی اس متشدد غیر پارلیمانی اور غیر انسانی حرکت پر مجھے زیادہ جذباتی نہیں ہونا چاہئے۔اسحاق ڈار اچھی طرح سے جانتا ہے کہ ؛ کس کے پاو¿ں اور کس گلے پڑنا ہے ۔وہ یہ حرکت ایک نوجوان صحافی کے ساتھ ہی کر سکتے تھے ۔یہ نوجوان صحافی وہ صحافی ہوتے ہیں جنہیں سینئر تجزیہ کار اور مہنگے اینکر پرسنز اپنی تراشیدہ اصطلاح میںمزدور پیشہ صحافی قرار دیتے اور نجی گفتگو میں کہتے ہیں ۔جادوگران ریاست و سیاست نے پاکستان میں پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیا کو بڑی مہارت کے ساتھ غیر موثر کر دیا ہے۔اب میڈیا سے مراد چند پروردہ صحافی نما لوگ ہیں ،یہ بیک وقت پتہ نہیں کیا کیا ہوتے ہیں۔ہر طرح کی اسٹیبلشمنٹ کے مدارالمہام انہی کو فون کرکے تنہائی میں ملاقات کے لیے بلاتے ہیں۔اور جو جی میں آئے ،فرماتے ہیں، اور یہ جلیل القدر صحافی نما ان فرامین کو خبر اور تجزیہ بنا کر پھیلانے کا کام کرتے ہیں ۔ معلوم نہیں کس نے سب سے پہلے اسحاق ڈار کو معیشت کا ماہر خیال کیا تھا۔موصوف کو زیادہ سے زیادہ نواز شریف اینڈ کمپنی کا چارٹرڈ اکانٹنٹ قیاس کیا جا سکتا ہے۔اپنی اس اساسی ڈیوٹی کی وجہ سے وہ ریاست پاکستان کے خدمت گزار وزیر خزانہ کبھی نہیں بن پائے۔وہ سرمائے کی مینجمنٹ کی بنیاد سرمایہ دار کے مفادات پر استوار کرتے ہیں۔وہ ملک میں بھی سرمایہ پرستی کے بڑے بڑے محافظوں میں شمار ہوتے ہیں ۔ن لیگ اور ایم این ایس صرف سمدھی ہونے کے ناطے سے ہی نہیں ، ان کی بے حجاب سرمایہ پرستی کی وجہ سے ہی انہی کو وزیر خزانہ بنانے پر مصر رہتے ہیں ۔اسحاق ڈار کی مہارتوں اور چالاکیوں کا اندازہ لگانا ہو تو ان کی دولت اور نجی اثاثوں کے حجم کو ان کے معلوم ذرائع آمدن کے ساتھ ملا کر دیکھ لیں۔ ستمبر 2017 میں معلوم ذرائع آمدن سے بہت زیادہ اثاثے رکھنے کی فرد جرم عائد ہونے کے بعد اسحاق ڈار نے بڑی مہارت سے ملک چھوڑ دیا تھا اور اگلے پانچ سال خود ساختہ جلاوطنی میںاچھا وقت آنے کے انتظار میں گزارنے لگے 11 دسمبر 2017 کو احتساب عدالت نے اسحاق ڈار کو اشتہاری مجرم قرار دے کر گرفتاری کے لیے دائمی وارنٹ کا اجرا بھی کر دیا گیا۔22 فروری 2022 کو نیب کی طرف سے اسحاق ڈار کا گلبرگ لاہور میں واقع گھر جس کی مارکیٹ ویلیو تقریبا ً25 ملین روپے بتائی جاتی تھی، فروخت کرنے کی ہدایت جاری کر دی تھی۔ پھر آسمان اپنے رنگ تبدیل کرتا ہے ۔معاملات مہر و وفا طے پا جاتے ہیں۔جسکے نتیجے میں ستمبر2022 میں اسحاق ڈار کے دائمی وارنٹ گرفتاری7 اکتوبر تک معطل کرتے ہوئے انہیں خود کو قانون کے حوالے کرنے کے لیے دو ہفتے کا وقت دے دیا جاتا ہے۔ چشم فلک نے مشاہدہ کیا کہ26 ستمبر 2022 کو اسحاق ڈار وزیر خزانہ کی حیثیت سے حکومت میں شامل ہونے کےلئے پاکستان واپس چلے آتے ہیں ۔28ستمبر 2022 کو وفاقی وزیر بن جانے کے بعد سب بلائیں رفتہ رفتہ تمام ہو گئیں اور اسحاق ڈار کے تمام ضبط شدہ اثاثے اور بنک اکاونٹس اور ایک گھر بحال کر دیئے گئے ۔اب جو لوگ اسحاق ڈار کو ماہرزاقتصادیات نہیں سمجھتے ان کی لاعلمی کو کیا کہا جائے؟ ہاں مگر ایک بات ،اور وہ یہ کہ اسحاق ڈار پرسنل ویلتھ اینڈ پراپرٹی مینجمنٹ کا ماہر ضرور ہے ،مگر ایک ملک کی معیشت کو منظم کرنا ، ملک کے مفادات کا تحفظ کرنا اور محروم طبقات کے معاشی مفادات کےلئے معیشت کی تنظیم نو کرنا ان لوگوں کی تعلیم و تربیت اور تجربے سے مطابقت نہیں رکھتا ۔یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی نوجوان صحافی ان سے ملکی مفاد کے حوالے سے سوال کرے تو یہ اپنا بچا کھچا ذہنی توازن کھو بیٹھتے ہیں۔بہرحال اس واقعے سے ایک بات تو ثابت ہو جاتی ہے کہ ن لیگ جن کوہ پیماو¿ں کے سہارے سیاست کا کوہ ہمالیہ سر کرنا چاہتی ہے، وہ کسی مٹی کے ٹیلے پر چڑھنے کے قابل بھی نہیں رہے۔اب انہیں سیاست اور سیادت کا خیال چھوڑ کرآرام کرنا چاہیئے۔