اسرائیل امریکی امداد کی بدولت غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔ اسی وجہ سے امریکی عوام کی اکثریت ان کی فارن پالیسیوں سے ناراض ہے اور وہ انہیں اس سال ہونے والے صدارتی انتخاب میں دوبارہ ووٹ نہیں دیں گے۔ ترقی پسند ووٹروں کی ایک بڑی تعداد نے 2024 ءمیں صدر بائیڈن کو ووٹ نہ دینے کی بجائے آزاد امیدوار کو منتخب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
برٹش کولمبیا یونیورسٹی میں کلائمیٹ جسٹس کی پروفیسر اور عالمی شہرت یافتہ مصنفہ نومی کلین کا کہنا ہے کہ صدر جوبائیڈن اگر ڈونلڈٹرمپ کو دوبارہ اقتدار میں آنے سے روکنا چاہتے ہیں تو پھر انہیں اسرائیل کی حمایت ترک کر کے اپنے عہدے سے مستعفی ہو جانا چاہیے۔ صدر بائیڈن نے غزہ میں اسرائیل کی نسل کشی مہم کی حمایت کر کے نوجوان ووٹروں کو اس قدر مشتعل کیا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ بائیڈن اگلا صدارتی انتخاب ہار جائیں گے۔ مشی گن اور پنسلوانیا جیسی اہم ریاستوں میں عرب ووٹرز کی ایک بڑی تعداد مقیم ہے جبکہ نیویارک اور واشنگٹن سمیت دیگر ریاستوں میں ایشیائی کمیونٹی بائیڈن کی پالیسیوں سے نفرت کر رہی ہے۔ ایک حالیہ سروے میںرجسٹرز ووٹرز میں سے 57 فیصد نے غزہ جنگ میں صدر جوبائیڈن کی پالیسیوں سے اختلاف کیا، 18 سے 29 سال کی عمر کے 72 فیصد ووٹرز نے اس معاملے پر امریکی صدر کی کوششوں پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ڈیموکریٹس نے 2020ءکے صدارتی انتخابات اور 2022ءکے وسط مدتی انتخابات میں کامیابی کے لیے نوجوان ووٹرز کے ٹرن آو¿ٹ پر انحصار کیا تھا۔
صرف امریکہ ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میںاسرائیلی حمایت پر امریکی صدر جوبائیڈن پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں اور انہیں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ آئرلینڈ کی یورپی پارلیمنٹ کی رکن کلیئر ڈیلی نے غزہ میں معصوم لوگوں کی ہلاکتوں پر امریکی صدر جوبائیڈن اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کو غزہ میں شکست ہورہی ہے اور اتنی طاقت استعمال کرنے کے باوجود وہ عوامی رائے میں بھی ہار چکا ہے۔ عوامی عدالت میں اسرائیل کی شکست ہوچکی ہے لیکن وہ زمینی حقائق کو تسلیم کرنے کے بجائے تنازعات کو ہوا دینے کے لیے مایوس کن کارروائیوں کا سہارا لے رہا ہے۔ امریکی صدر نے اسرائیل کی بے جا حمایت کرکے خود کو قصاب ثابت کردیا۔ وہ اپنے آبا و اجداد کا تعلق آئر لینڈ سے کرنے سے باز رہیں۔آئرش ممبر یورپی پارلیمنٹ کلیئر ڈیلی نے ارسلا وان ڈیر لیین اور جرمنی کو بین الاقوامی عدالت انصاف میں اسرائیل کی حمایت کرنے پر بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یورپ کے لوگ ہمارے نام پر نہیں بلکہ فلسطین اور عالمی عدالت میں غزہ کا کیس لڑنے والے جنوبی افریقا کے ساتھ کھڑے ہیں۔
امریکی صدر جوبائیڈن کی جانب سے اسرائیل کو بھاری مقدارمیں اسلحہ اور گولہ بارود فروخت کرنے کے فیصلے کو اگرچہ اسرائیلی حکومت کی طرف سے سراہا گیا ہے مگر یہ اقدام امریکی حکمران جماعت کے اندر ایک نئے تنازع کا بھی باعث بنا ہے۔ورجینیا کے ڈیموکریٹ سینیٹر ٹم کین نے کانگریس کی منظوری کے بغیر اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی کے نئے اعلان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے اسرائیل کو 147.5 ملین ڈالر کے ہتھیار فروخت کرنے پر کانگریس کو دھوکہ دیا گیا ہے۔ محکمہ تعلیم کے دفتر برائے منصوبہ بندی، تشخیص اور پالیسی کے معاون خصوصی طارق حبش نے سیکرٹری تعلیم میگوئل کارڈونا کو اپنا استعفیٰ پیش کر دیا، استعفے میں موقف اپنایا گیا ہے کہ میں بے گناہ فلسطینیوں کی زندگیوں پر ہونے والے مظالم پر امریکی صدر اور انتظامیہ کی آنکھیں بند ہونے پر مزید خاموش نہیں رہ سکتا اور نہ اس عمل کا ساتھ دے سکتا ہوں۔ انسانی حقوق کے سرکردہ ماہرین بھی اسرائیلی حکومت کی کارروائیوں کو فلسطینیوں کی نسل کشی کی مہم قرار دے رہے ہیں لیکن امریکی حکومت چپ سادھے ہوئے ہے۔غزہ پر امریکا کی پالیسی پر یہ پہلا استعفی نہیں اس سے قبل اکتوبر میں بھی وزارت خارجہ کے ایک سابق اہلکار جوش پال نے احتجاجاً استعفیٰ دیتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ صدر جوبائیڈن اسرائیل کی اندھی حمایت کر رہے ہیں۔
اسرائیل کے لیے امریکی حمایت صرف دو طرفہ امور تک محدود نہیں رہی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن کے طور پر امریکہ نے بارہا اسرائیل کے حق میں اپنی ویٹو طاقت کا استعمال کیا ہے اور فلسطینی علاقے کے کچھ حصوں پر اس قبضے کی وجہ سے لگنے والی پابندیوں سے بچایا ہے جسے اقوامِ متحدہ غیرقانونی قرار دیتی ہے۔سان فرانسسکو یونیورسٹی کے سینٹر آف مڈل ایسٹ سٹڈیز کے بانی پروفیسر سٹیفن زونز کا کہنا ہے کہ ’اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی تاریخ میں امریکہ نے 80 سے زیادہ بار ویٹو کا حق استعمال کیا جن میں سے نصف اسرائیل کو بچانے کے لیے تھے۔ کئی بار امریکہ وہ واحد ملک تھا جس نے اسرائیل کے حق میں ووٹ دیا۔‘دوسری جنگ عظیم کے بعد سے اسرائیل سب سے زیادہ امریکی وسائل حاصل کرنے والا ملک ہے۔ امریکی کانگریس کی ایک رپورٹ کے مطابق 1946ءسے 2023 ءتک امریکہ نے اسرائیل کو 260 ارب ڈالر کی امداد دی جس میں سے نصف عسکری امداد تھی۔