تاریخ کو علم کے مستند ذرائع میں شمار کیا جاتا ہے۔لیکن تاریخ کو سمجھنے اور اس کے معنی کو کھولنے کے لیے حد درجہ متوازن اور پیشگی تعصب سے تہی علمی رویہ شرط اول سمجھنا چاہیے ۔یہ تاریخ ہی تو ہے کہ جسے مستور یا مسخ کرنے کے مواقع سب سے زیادہ ہوتے ہیں ۔تاریخ کے ساتھ ایسا کھیل کھیلنے والوں کے ساتھ جب تاریخ کھیلنا شروع کرتی ہے تو پھر ان کا کہیں کوئی مقام نہیں بچتا۔برصغیر کی گزشتہ چھ صدیوں کے احوال کا معروضی تجزیہ ہمیں درپیش صورت حال کی الجھن ،سمت اور سنگینی کو سمجھنے اور اپنا عمل اور ردعمل مرتب کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔یہ ایک مضبوط تاثر ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی دوصد سال سے متجاوز لوٹ مار کا برطانیہ کی صنعتی ترقی اور معیشت کے استحکام سے براہ راست تعلق رہا ہے۔ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستانی معاشرے کے سارے مفاخر ، جیسے تعلیم، صنعت و زراعت ،باہمی رواداری اور بلا امتیاز مذہب ایک جیسے ہونے کے احساس کو بے رحمی اور بےشرمی سے برباد کیا، تاکہ ہندوستان صرف خام مال کا گودام بنا رہے ۔اگر یوں کہا جائے کہ بھاپ سے چلنے والے بحری جہاز اور بعد ازاں ریلوے انجن نے ہندوستان سے ڈکیتی کرنے والے سفید فام لٹیروں کی معاونت اور خوب مدد کی ، توکچھ بے جا نہ ہو گا۔ہمارے ہاں کے تاریخ شناسوں کے موضوعات ہی الگ اور عجیب ہوتے ہیں۔ان میں سے اکثریت عرب ملوکیت کو اسلام اور اس ملوکیت کے اثرات کی برصغیر آمد کو یہاں کی تاریخ کا نقطہ آغاز قرار دینے میں ہی تھک جاتے ہیں۔اس خطے نے اور کیا کیا دکھ جھیلے ہیں ، انہیں اس سے کوئی سروکار نظر نہیں آتا۔لیکن سبھی ایسے نہیں ،جیسے کہ باری علیگ جیسا زیرک تاریخ شناس ، ایماندار تاریخ نگار ، تاریخ سے بصیرت کشید کرنے کی اہلیت رکھنے والا مورخ اور ادیب باری علیگ لائلپور سے کالج ایجوکیشن مکمل کرنے کے بعد مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے طلب علم بنے۔ طبیعت آزاد اور ملک غلام تھا ۔مطالعات وسیع اور نظر معروضی تھی۔ انگریزی استعمار کے طریقہ واردات کے رمز شناس بھی تھے ، کپیٹلزم کی ستم گری کو ہندوستان میں بہ چشم خود ملاحظہ کر رہے تھے ، کیمونزم بھی ان کی دلچسپی کا عنوان بنا، چونکہ وہ طبعاً غلام نہیں تھے ،لہٰذا تسلیم و رضا اور صبر و ضبط کا وہ مقام حاصل نہ سکے ،جو ایک غلام ملک کے فرد کےلئے ضروری ہوتا ہے۔دل و دماغ میںکہنے ،بتانے اور سمجھانے کےلئے بہت کچھ تھا ، لہذا”ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے “کے مصداق لکھنا شروع کر دیا ۔موضوعات انگریزی استعمار اور حکومت کی پالیسیوں کے خلاف ہوتے تھے۔اتنے آزاد ذہن اور بے باک قلم کو کوئی اخبار بھی برداشت نہ کر پاتا، تو اخبار سے علیحدہ کر دیئے جاتے ۔باری علیگ اس مفروضے سے متفق نہیں تھے کہ انگریزوں کی آمد اور حکومت نے ہندوستان کو نہ صرف خوش حال اور تعلیم یافتہ کیا ہے بلکہ جدید دنیا کا باوقار حصہ بننے کے قابل بھی بنا دیا ہے۔وہ اس مفروضے کی بنیاد پر لکھی یا لکھوائی جانے والی تاریخ سے بے زار تھے۔ اصل اور متبادل تاریخ اور اس تاریخ کے حقیقی رخ اور بےرحم ثمرات کی پردہ دری کرنے کےلئے انہوں نے تاریخ پر متعدد کتابیں لکھیں، اس وقت ان کی اپنے موضوع پر بہترین کتاب کمپنی کی حکومت پیش نظر ہے۔یہ مفصل کتاب ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی کارگزاری اور ستم گری کے دور آخر یعنی 1853 میں لکھے گئے کارل مارکس کے مضامین کو سمجھنے کےلئے ایک مضبوط اور مستند پس منظر فراہم کرتی ہے۔ برصغیر میں بھاپ کے انجن پر سوار ہو کر آنے والے انگریزوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے روپ میں کیا کیا غارت گری کی ، ہندوستان کی معیشت، معاشرت اور تعلیم کو کس طرح تباہ کیا ، وہ سب کارل مارکس کی دلچسپی کا سامان اور باری علیگ کی کتاب کا عنوان ہے۔مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان پر مارکس کے مضامین پر نظر ڈالنے سے پہلے باری علیگ کی کتاب ”کمپنی کی حکومت“کے مختصر دیباچے پر ایک نظر ڈال لی جائے ۔ باری علیگ لکھتے ہیں کہ؛ ”ایسٹ انڈیا کمپنی کی تاریخ قریباً اڑھائی سو سال پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس مدت کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلے دور میں جو سترھویں صدی میں شروع ہوکر پلاسی کی لڑائی پر ختم ہوتا ہے، کمپنی، ہندوستان میں اپنے تمام یورپی رقیبوں پر غلبہ پانے کے ساتھ ہی ہندوستان کے مختلف صوبوں کے سیاسی معاملوں میں دخل دیتی ہے۔ اس مدت میں کمپنی کے ملازموں نے ہندوستان کی دولت کو دونوں ہاتھوں سے سمیٹا۔ کرناٹک کے ایک نواب نے کمپنی کی مجلس نظامت کے ممبروں کو لکھا تھا کہ آپکے ملازموں کا اس ملک میں کوئی خاص کاروبار نہیں ہے۔ کمپنی کی طرف سے انھیں بہت تھوڑی تنخواہ دی جاتی ہے لیکن اس پر چند ایک سال میں کمپنی کے ملازم لاکھوں روپیا لے کر واپس جاتے ہیں۔ اس کمائی کے اسباب آپ بھی جانتے ہیں اور مجھ سے بھی چھپے ہوئے نہیں “۔پلاسی کی لڑائی کے بعد کمپنی کے ہاتھ میں تجارت کے ساتھ حکومت بھی آجاتی ہے، حصے داروں کا منافع بڑھنے لگا، ملازموں نے لوٹ کھسوٹ بڑھا دی، برطانوی حکومت کی آمدنی میں لاکھوں کا اضافہ ہوا۔ ہندوستان سے حاصل کی ہوئی یا چھینی ہوئی دولت نے انگلستان میں مشینی اور صنعتی انقلاب پیدا کیے۔ ان انقلابوں نے جہاں ہندوستان کی عمومی معیشت کو نقصان پہنچایا وہاں انھوں نے برطانوی ہندوستان میں دیسی گماشتوں (بنیوں اور ساہوکاروں)کا ایک ایسا طبقہ پیدا کر دیا جو بہت سی پابندیوں سے آزاد تھا۔ پلاسی کی لڑائی کے بعد پچھتر سال تک کمپنی کا دوسرا دور رہا۔ اس دور میں کمپنی تجارت اور حکومت دونوں پر قابض رہی ۔ یہاں تک کہ پارلیمنٹ کے ایک قانون نے کمپنی سے تجارت کرنے کا حق چھین لیا۔ کمپنی کا تیسرا دور آیندہ پچیس سال پر مشتمل رہا۔ اس دور میں کمپنی نے اپنے مقبوضات بڑھانے کی پالیسی اختیار کی۔ 1857 کے ہنگامے کے بعد برٹش پارلیمنٹ نے کمپنی کے اختیار حکومت کو بھی ختم کر دیا۔(کمپنی کی حکومت ،ص10) ہندوستان پر کارل مارکس کی مضمون نگاری کا زمانہ 1857 سے چند سال پہلے کا ہے ۔یہ ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی ریشہ دوانیوں کا نقطہ عروج اور ہندوستان میں مقامیوں کے رہے سہے اقتدار کے مکمل خاتمے کا دور بھی ہے ۔اس عہد کو باری علیگ نے ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی اڑھائی سو سال تک پھیلی تاریخ کے تیسرے دور سے تعبیر کیا ہے اور اس تیسرے دور کا اختتام 1857 میں ہوتا ہے اور یہی وہ دور ہے جس میں کارل مارکس نے لندن میں بیٹھ کر ، اپنی کتاب ”سرمایہ“کےلئے مطالعہ کرنے اور تحقیقی مواد کٹھا کرنے کےساتھ ساتھ ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے اقدامات ، برطانوی پارلیمنٹ میں ان پر مباحث اور دیگر دستیاب حوالوں کو سامنے رکھ کر ایک امریکی اخبار کےلئے اپنے تجزیاتی مضامین لکھے۔مارکس کے یہ مضامین کلی طور پر تو نہیں ،پر کسی نہ کسی حد تک اس عہد کی ستم گری کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ایک غیر ہندوستانی کی نظر سے ہندوستان میں برطانوی سرمایہ پرستوں کے حربوں کا مطالعہ اور تجزیہ دلچسپی کے کئی پہلو اپنے اندر رکھتا ہے،خاص طور پر اسلیے بھی کہ اگر اس غیر ہندوستانی کا نام کارل مارکس ہو ،جو انہی دنوں اپنی شہرہ آفاق تالیف سرمایہ پر بھی کام کر رہا تھا۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کا ہندوستان
