اپنے شہریوں کی اجتماعی تذلیل پر دنیا میں اگر کوئی ایوارڈ یا انعام ہوتا ،تو یقینی طور پر یہ اعزاز پاکستانی حکومت کے حصے میں ہی آتا۔ اکیسویں صدی میں ایک پاکستانی کے طور پر اس سے زیادہ شرمندگی اور افسوس کی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ؛ حکومت نے قوم کو آٹے کے تھیلے تلے کچل کر رکھ دیا ہے ۔یہ کیسی حکومت ہے جو رمضان کے مہینے میں بھی آٹا سستا اور معیاری کرنے کی بجائے ،بزعم خود ضرورت مندوں میں مفت تقسیم کرنے کا ناٹک کئے جا رہی ہے۔اس شرمناک ناٹک میں ہر روزضرورت مندآٹا حاصل کرنے کی کوشش میں اپنی جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ وزیراعظم نے اپنے دائیں ہاتھ کی انگلی کو لہرا لہرا اور دکھا دکھا کر غیرضروری طور پر کچھ لمبا بھی کر رکھاہے۔ایک تاثر یہ بھی ہے کہ ان کی مفروضہ انتظامی صلاحیت کا انحصار اسی لہراتی انگلی پر ہے اور بس ۔ چونکہ پاکستان میں کسی حکومت کےلئے خاموش فلموں کے کرداروں کی طرح صرف اشاروں کنایوں سے اپنا کردار ادا کرنے کی گنجائش رکھی جاتی ہے ۔فلم کی کہانی لکھنے والے ، مکالمے تحریر کرنےوالے اور پس منظر میں رہ کر بھاری اور بھدی آواز میں کہانی چلانے اور سمجھانے والے دوسرے لوگ ہوتے ہیں ۔ ان کو عامتہ الناس کی ضروریات،مسائل اور توقعات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا ،یہ صرف اپنی مراعات، اپنے تصرفات اور اپنے انداز حیات کی بقا اور دوام کے نگران ہوتے ہیں ۔ عامتہ الناس کی گالیاں کھانے ، بددعائیں لینے اور مردہ باد کے نعرے سننے کےلئے انہوں نے سیاستدانوں میں سے اپنی پسند کے نفوس منتخب کر رکھے ہیں۔یہ کبھی ایک کو آگے کرتے ہیں ، اس کی ناکامی کے بعد یہ کسی دوسرے کو لے آتے ہیں ۔ دوسرے کی تذلیل کے دوران انہوں نے کوئی تیسرا بھی تاڑ رکھا ہوتا ہے۔جہاں تک عوام کا تعلق ہے ان کےلئے انواع و اقسام کے کھیل تماشے لگائے رکھتے ہیں۔ حیرت اور تاسف کی بات یہ ہے کہ ان نادانوں نے اکیسویں صدی میں بھی وقت کو گزشتہ صدی کے نصف آخر میں منجمد کر رکھا ہے۔ اس نادانی یا نافہمی کی وجہ پاکستانیوں کی حد سے بڑی ہوئی قوت برداشت ہے ۔ موجودہ وزیراعظم شہباز شریف جب اپنے دانت پیستے لہجے میں کہتاہے کہ آٹے کی مفت تقسیم میں کسی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی ، ملکی تاریخ میں پہلی بار رمضان میں آٹا مفت تقسیم کیا جارہا ہے۔وہ اس خطے کے پرامن لوگوں کو ،جو صدیوں سے اناج پیدا کرنے میں نہ صرف خود کفیل ہے ،بلکہ افغانستان اور وسط ایشیائی ممالک تک اناج اور لائیو سٹاک فراہم کرتا چلا آ رہا ہے ، آٹے کی مفت تقسیم کی تذلیل کی خبر سنا کر داد طلب نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔ستم ظریف کہتا ہے کہ وہ اتنا سیانا ضرور ہے کہ وہ کچھ دینے کےلئے اپنی جیب کو ہوا نہیں لگواتا، وہ اس سرکاری مال پر ہی ہاتھ صاف کرتا ہے ،جو عوام سے طرح طرح کے ٹیکسوں کی صورت میں ہتھیائے جاتے ہیں۔ ملک میں آٹے کا بحران انہی حکمرانوں کی شوگر ملوں نے پیدا کر رکھا ہے۔جن زمینوں پر کبھی گندم اور کپاس کاشت کی جاتی تھی ،ان پر زبردستی گنا کاشت کروایا جاتا ہے۔شوگر ملیں اپنی مرضی کی قیمت پر گنا موخر ادائیگی کی صورت خریدتے ہیں ،چینی پر حکومت سے سبسڈی لے کر ملک سے باہر بیچ دیتے ہیں ، ملک میں چینی کی قیمت بلاوجہ بڑھا کر الگ سے منافع کمایا جاتا ہے۔ اگر ذرا سی توجہ بھی کی جائے تو راز کھلے گا کہ ان ساری شوگر ملوں کے مالک حکومت کرنےوالے ہیں ۔آٹے کی اس بے رحم تقسیم کا سب سے المناک پہلو دھکم پیل میں بوڑھے مرد و خواتین کی اموات ہیں ۔ان پیہم اموات سے نہ صرف مقامی انتظامیہ کی بے تدبیری عیاں ہوتی ہے ،وہیں ان ناحق ہلاکتوں کی ذمہ دار موجودہ حکومت بھی ہے ،ان مرنے والوں کا حساب کون دے گا؟