پاکستانی معاشرے کو دیکھا جائے تو یہ ایک منتشر معاشرہ ہے جو بیک وقت مختلف عناصر مثلاً الگ سیاسی سوچوں، فرقے، رنگ، نسل، زبان، امیر، غریب، مختلف کلچر اور روایات پر مشتمل ہے اور ان مختلف عناصر کی وجہ سے ہی معاشرے میں کافی تناﺅ ہے۔ یہ تناﺅ صوبائیت، نسل پرستی اور امیر غریب کے فرق کو زیادہ ابھار رہا ہے۔ ہمارے معاشرے کا ایک بہت اہم مسئلہ وہ سوچ ہے جو امیر غریب کے فرق کی وجہ سے پروان چڑھ رہی ہے اور جس کی وجہ سے مادہ پرستی بہت عام ہو رہی ہے۔ اس مادہ پرستی نے معاشرے کے عام آدمی کو ذہنی اور اخلاقی طور پر مفلوج کر دیا ہے اور احساسات سے عاری کردیا ہے۔ مادی زندگی کے زور پر زندگی بہت مشکل اور ناخوشگواری سے گزرتی ہے۔ جب معاشرے میں مادیت پرستی عام ہو جائے تو تخلیقی سوچ ناپید ہو جاتی ہے اور تخریبی سوچیں جنم لیتی ہے جو معاشرے میں شدید تناو پیدا کر رہی ہے۔دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور غربت کی شرح میں اضافہ نے معاشرے کے ایک بڑے حصے کے لوگوں کو اس امیر غریب کے فرق کو مٹانے کےلئے تخریبی سرگرمیوں میں الجھایا ہ±وا ہے اِسی طرح معاشرتی برائیوں میں ایک اور اہم برائی برداشت کی کمی اور سوچوں میں ہم آہنگی نہ ہونا ہے جس کا سارا سہرا آج کل کے دور میں سوشل میڈیا کو جاتا ہے ۔ اگر ہم عالمی حالات دیکھیں تو جو قومیں انتشار کا شکار ہیں وہاں کی زیادہ آبادی سوشل میڈیا کے بے دریغ استعمال کی وجہ سے ذہنی انتشار کا شکار ہیں، جو معاشرے میں منفی رویوں اور عدم برداشت کو فروغ دے رہی ہیں۔ اگر آپ باقی قوموں کا چین سے مقابلہ کریں تو یہ واضح ہوگا کہ آج دنیا میں چائنا ایک گولی چلائی بغیر سپر پاور بننے جا رہا ہے صرف اپنے سوفٹ پاور پر کنٹرول کی وجہ سے یعنی چائنا میں سوفٹ پاور جس میں میڈیا سینٹرک ٹول جیسے فیس بک، ٹوئٹر اور بچوں کی پلے اسٹیشن گیمز وغیرہ سب پر پابندی ہے ان کا کوئی استعمال نہیں کر سکتا۔ اسی لیے وہاں کی آبادی مثبت سوچوں کے ساتھ ملک کی ترقی میں مگن ہیں اس کے علاوہ بیڈ گورننس، حکومتی کمزور پالیسیاں، کرپشن اور سیاسی عدم استحکام نے بیروزگاری کو بہت فروغ دیا۔ جس کی وجہ سے اسٹریٹ کرائمز، خودکشی، امن و امان کی بدتر صورتحال، انسانی اعضاءکی اسمگلنگ، دہشت گردی، اغوا برائے تاوان جیسی معاشرتی برائیاں جنم لے رہی ہیں ۔ ٹیکسوں کی بھرمار، کمزور معاشی پالیسیاں اور دہشت گردی کی وجہ سے کئی بڑی صنعتیں بند ہوچکی ہیں۔حکومت کو چاہیے کہ زراعت اور صنعت کے شعبوں کو ترقی دیں۔ صنعتکاروں کےلئے ایسے مواقع پیدا کریں اور امن وامان کو اتنا مثالی بنائیں کہ باہر سے بھی سرمایہ کار ملک میں سرمایہ کاری کیلئے آئیں، اس سے بیروزگاری کی عفریت سے نوجوانوں کو چھٹکارا ملے گا۔تعلیم کے شعبے میں زیادہ کام کرنا ہوگا۔ ہمارے معاشرے میں تعلیم بھی طبقاتی تقسیم کا شکار ہے۔ یکساں تعلیمی نظام اور تعلیمی سہولیات ہر طبقہ کو میسر ہونا چاہئے یہی بنیادی نکتہ ہے جس سے ہم نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں ۔ اور ہر معاملہ میں ہماری پالیسیوں اور ترجیحات کی بنیاد ایک ہی ہے کہ ”ہم تو یہی کچھ کر سکتے ہیں“۔ اور ہم کسی بھی مسئلہ کے حل کےلئے یہ سوچنے کےلئے تیار ہی نہیں ہیں کہ ”ہونا کیا چاہیے“۔
یہ نقطہ نظر ممتاز مذہبی سکالر علامہ زاہد الراشدی کا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے موجودہ معروضی حالات اور اپنے روایتی سسٹم پر قناعت کر لی ہے، اس کے دائرے میں رہتے ہوئے ہم اپنے مسائل کے حل کے لیے جو کچھ کر سکتے ہیں بس وہی کرتے رہیں گے۔ اور اس سے کوئی غرض نہ رکھیں گے کہ اس سے مسائل حل ہو رہے ہیں یا ہمارا طرز عمل مسائل اور مشکلات میں مسلسل اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ جبکہ اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ ”ہم یہ کر سکتے ہیں“ کی بجائے ”یہ ہونا چاہیے“ کی طرف قدم بڑھائیں۔ کیونکہ جب تک کسی بھی مسئلہ کے حل کے لیے اس کے منطقی اور فطری تقاضوں کا ادراک حاصل نہ کیا جائے اور ان اسباب و عوامل کی نشاندہی نہ کی جائے جو اس مسئلہ کو جنم دے رہے ہیں، اس وقت تک مسئلہ کے حل کی کوئی کوشش بھی کارگر نہیں ہو سکتی۔
اس سلسلہ میں اسلام کا مزاج یہی ہے کہ وہ جرم کو ختم کرنے کےلئے اس کے اسباب کا قلع قمع کرتا ہے اور ان محرکات و عوامل کو کنٹرول کرتا ہے جو کسی شخص کو جرم تک لےجانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ مثلاً بدکاری کو اسلام نے جرم قرار دیا ہے اور وہ نسل انسانی کے تحفظ اور تقدس کی خاطر معاشرے کو زنا سے پاک دیکھنا چاہتا ہے۔ لیکن اسلام نے اس کےلئے صرف سزا¶ں پر قناعت نہیں کی بلکہ سزا¶ں کا معاملہ تو اس قدر دشوار بنا دیا ہے کہ بظاہر انتہائی سخت نظر آنےوالی سزا تک کسی مقدمہ کو پہنچانے کےلئے جو ثبوت درکار ہیں ان کا فراہم کرنا عام حالات میں مشکل ہو جاتا ہے۔ البتہ اسلام نے سخت ترین سزا¶ں کی دھمکی دے کر ان اسباب کی طرف اصل توجہ دی ہے جو بدکاری کا موجب بنتے ہیں۔ چنانچہ اس کے لیے اسلام نے مرد اور عورت کے آزادانہ اختلاط پر قدغن لگائی ہے، پردہ کا حکم دیا ہے، نگاہ بازی کو ممنوع قرار دیا ہے، محرم اور نامحرم کی حد قائم کی ہے، اور مردوں و عورتوں کے فرائض اور حقوق میں ایک واضح تقسیم کر دی ہے۔اب ظاہر بات ہے کہ اگر حلال و حرام کا فرق نہیں ہوگا، محرم اور نامحرم کی تمیز نہیں ہوگی، آزادانہ گفتگو اور اختلاط میں رکاوٹ نہیں ہوگی، اور حقوق و فرائض کی فطری تقسیم ختم کر کے ہر معاملہ میں مساوات کے نام پر باہم میل جول کے لیے بے حجاب مواقع میسر ہوں گے تو اس بدکاری کو نہیں روکا جا سکے گا جس کو اسلام جرم قرار دیتا ہے۔ پھر اس کے بعد دو ہی راستے باقی رہ جائیں گے۔ ایک یہ کہ اسے جرم قرار دینے کا فیصلہ واپس لیا جائے جیسا کہ مغرب نے کیا ہے۔ اور دوسرا یہ کہ اگر وہ جرم ہے اور اسے بہرصورت روکنا مقصود ہے تو پھر ان سب اسباب و عوامل پر قدغن لگائی جائے جو اس جرم تک انسان کو لے جاتے ہیں، اور اسلام نے یہی راستہ بتایا ہے۔الغرض عام جرائم کی بات ہو یا تخریب کاری اور دہشت گردی کا قصہ ہو۔ ہمیں اپنے طرز عمل پر بہرحال نظر ثانی کرنا ہوگی جو ہم نے اب تک اختیار کر رکھا ہے جس کے نتیجے میں جرائم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ اصل بات اسباب و عوامل کی نشاندہی کی ہے اور یہ کوئی مشکل امر نہیں ہے اور نہ ہی ملک کے ارباب عقل و شعور سے مخفی ہے۔ مگر ”ہم یہ کر سکتے ہیں“ کے دائرے سے نکلنے اور ”ہونا یہ چاہیے“ کے ہدف کی طرف بڑھنے کےلئے ہمیں اپنی ترجیحات بدلنا ہوں گی، طریق کار تبدیل کرنا ہوگا، صف بندی پر نظر ثانی کرنا ہوگی، اور تحفظات کے بہت سے مصنوعی خول اتار کر پھینکنا ہوں گے ۔