پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اچانک بڑے اضافے کے بعد ہر طبقہ فکر کے جہاں چودہ طبق روشن ہوئے وہیں سخت رد عمل بھی سامنے آرہا ہے،تاجر تنظیموں سیاسی وسماجی مذہبی حلقوں اور ٹرانسپورٹرز نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کو یکسر مسترد کردیا ہے،اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی کے سربراہ نے بھی اس پر سخت رد عمل دیا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ جس رفتار سے مہنگائی عام آدمی کے مسائل میں اضافہ کر رہی ہے ،خدا نہ کرے غریب افراد فاقہ کشی پر مجبور ہو جائیں گے، آٹے، چاول، گھی، چینی ، دالوں کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کےساتھ ساتھ ٹرانسپوٹرز نے بھی کرایوں میں بڑا اضافے کا اعلا ن کر دیا ہے بلکہ پہیہ جام کی دھمکی بھی دے دی ہے ، آل پاکستان پبلک ٹرانسپورٹ اونرز فیڈریشن نے کرایوں میں 10فیصد تک اضافہ جبکہ شہر میں چلنے والی پرائیویٹ ٹرانسپورٹ اور مال بردار گاڑیوں کے کرایوں میں بھی20سے 30فیصد تک اضافہ کیا گیا ہے۔ ملک بھر میں ٹرانسپورٹرز نے کرایہ بڑھانا شروع کر دیا ہے۔پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے ملک میںعوام کی چیخیں نکل گئیںہیں،حد تو یہاں تک آن پہنچی ہے کہ عام آدمی جو پہلے ایک روٹی پر پیاز رکھ کر کھا لیتا تھا، اب وہ بھی ممکن نہیں رہا،آخر اس کا کون ذمہ دارہے،حکومت اس کا بھی عمران کو ذمہ دار ٹھہرا کر جان نہیں چھڑا سکتی ۔کوئی بھی کلمہ خیر کہنے کو تیار نہیں، سبزیاں فروٹ آٹا چینی دالیں اشیا خودنوش تعمیراتی سامان اسپیئرپارٹس کاسمیٹکس سونا اور مارکیٹ میں تمام اشیاکی قیمتوں میں کمر توڑ اضافہ ہوگیا ہے۔ترجمان کے مطابق آل پاکستان پبلک ٹرانسپورٹ اونرزفیڈریشن کا کہنا ہے کہ تیل کی قیمتوں میں اضافے نے ٹرانسپورٹ سسٹم تباہ ہو سکتا ہے۔ ایسے میں متوسط طبقہ بھی مشکل سے دوچار ہو نے لگا ہے،تعمیراتی کام ٹھپ ہونے کا خدشہ بھی پیدا ہو چکا ہے،اگر ایسا ہوا تو دیہاڑی دار طبقے کا چولہا بجھ جائے گا۔ہر کوئی یہی کہنے پر مجبور ہے کہ حکمران اپنے اخراجات کم کرنے کے بجائے عوام کو زندہ درگور کر رہے ہیں، ان حالات میں حکمران عوام کو سہولیات فراہم کرنے کے بجائے آئی ایم ایف کے سامنے دبک کر بیٹھ گئی ہے۔ادھر وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار وہی روایتی طفل تسلیاں اور سابق حکومت کی نااہلی کا سہارا لے کر کہہ رہے ہیں کہ معاشی بحران سے نکلنے کیلئے بڑے فیصلے کرنا ہوں گے عمران حکومت کی مچائی تباہی 6ماہ میں ٹھیک نہیں کرسکتے اگرآمریت کوہمیشہ دفن کرنا ہے توصرف جمہوریت نہیں بلکہ مالیاتی نظم وضبط کو بھی نافذ کرنا ہوگاہمیں ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھنا ہو گا، ہمارے پاس کوئی جادوکی چھڑی نہیں کہ ہلائیں گے تو سارے کام سیدھے ہوجائیں گے،معاشی بحران کے حل میں وقت لگے گا، ان کا دعوی ٰ ہے کہ گزشتہ چار ماہ کے دوران عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے لیکن پاکستان میں قیمتیں کم کی گئی ہیں،اتوار کے روز میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں کہا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کا فیصلہ اوگرا کی تجویز پر کیا گیا ہے جس سے ملک میں عارضی ذخیرہ اندوزی اور مصنوعی قلت پیدا کرنے والے عناصر کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ہم نے وزیر اعظم شہباز شریف سے درخواست کی تھی کہ قیمتوں میں اضافہ کر کے اس صورتحال کو ختم کیا جا سکتا ہے،دوسری طرف اوگرا اس چیز کو مسترد کرتا ہے کہ حکومت نے یہ فیصلہ از خود کیا ہے،اوگراکو اس ضمن میںنظر انداز کرتے ہوئے خود ہی قیمتیں بڑھانے کا اعلان کیا۔ اوگرا سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کی سمری طلب نہیں کی گئی، قانون کے مطابق پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں سے متعلق سمری اوگرا نے 30 جنوری کو بھجوانی تھی۔یہ وہ صورتحال ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف کا کتنا دباو¿ ہے اور فیصلے جلد بازی میں کئے جا رہے ہیں۔ ان سطور کے ذریعے حکومت سے گزارش ہے کہ وہ ہرمعاملے کو باریک بینی سے دیکھے اور اپنی عوام کی قوت خرید کو پیش نظر جس کی قوت خرید خطے میں سب سے کم ہیں اور یہی حاکات رہے تو وہ منفی میں جاسکتی ہے۔
خالصتان کے حق میں ریفرنڈم
بھارت میںجڑ پکڑتی نفرت کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ آج وہ تقسیم کے دہانے پہ آن کھڑا ہے۔ہندوستان میں علیحدگی کی کئی تحریکیں اس کی گواہ ہیں،بھارت سے الگ ہونے کی ایک بڑی تحریک ان دنوں دنیا بھر میں ریفرنڈم کرا رہی ہے۔اگلے روزآسٹریلیا کے شہر میلبرن میں سکھ فار جسٹس نامی تنظیم کے زیر اہتمام خالصتان کے حق میں ریفرنڈم ہوا جس میں سکھ کمیونٹی کے ہزاروں افراد نے آزادخالصتان کے حق میں ووٹ دیا، سکھ فار جسٹس تنظیم کے جنرل سیکرٹری نے کہا ہے کہ خالصتان ریفرنڈم میں سکھ کمیونٹی نے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے، سکھوں نے بتا دیا کہ وہ 1984کا سانحہ گولڈن ٹیمپل نہیں بھولے۔ آمدہ رپورٹس کے مطابق ریفرنڈم میں پچپن ہزار سے زائد سکھوں نے خالصتان کی آزادی کے حق میں ووٹ دیا، ریفرنڈم میں بھارت کی ریاست پنجاب سے تعلق رکھنے والے 18سال سے زائد عمر کے افرادکو ووٹ ڈالنے کا اہل قرار دیا گیا تھا، پولنگ اسٹیشن کے باہر خواتین اور مردوں کے ہاتھوں میں خالصتان کی آزادی کے پوسٹر اور جھنڈے لہرا تے رہے۔ سکھ فار جسٹس تحریک کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے آسٹریلیا میں ایک اور ریفرنڈم کرایا جائے۔ سکھ برادری نے بھارت سے مشرقی پنجاب میں جبری قبضہ ختم کرنے اور عالمی برادری سے بھارت میں سکھوں پر ہونیوالے مظالم کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ریفرنڈم کے موقع پر سکھوں کے الگ وطن خالصتان کا نیا نقشہ بھی پیش کیا گیا۔ اس سے قبل کینیڈا، برطانیہ، سوئٹزرلینڈ اور سات یورپی ممالک میں خالصتان ریفرنڈم کی ووٹنگ ہو چکی ہے۔یہ چیز مودی سرکار کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے،دوسری جانب میلبرن میں خالصتان ریفرنڈم کے حق میں لگائے گئے پوسٹرز اور بینرز پھاڑ دیے گئے،مودی کی پالیسیوں کے حامیوں سے سوال تو بنتا ہے کہ کیا اس طرح کی حرکتوں سے علیحدگی کی تحریک رک جائے گی، ریفرنڈم کے لیے مہم چلانے والی تنظیم نے پوسٹرز اور بینرز پھاڑنے کا ذمہ دار بھارتی حکومت کو قرار دیا ہے۔ خالصتان ریفرنڈم میں سکھ کمیونٹی نے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے، سکھوں نے بتا دیا کہ وہ سانحہ 84گولڈن ٹیمپل نہیں بھولے۔2021کی مردم شماری کے مطابق آسٹریلیا میں تقریباً2 لاکھ 10 ہزار سکھ مقیم ہیں لیکن مقامی سکھوں کا کہنا ہے کہ اصل تعداد 3 لاکھ کے قریب ہے۔آسٹریلیا میں2016میں سکھوں کی تعداد 1لاکھ 30ہزار تھی 2021کی مردم شماری کے مطابق آسٹریلیا میں ہندوں کی تعداد 7 لاکھ کے لگ بھگ تھی۔
تین بڑے حادثات،59جانوںکا ضیاع
ملک بھرمیںایک دن تین بڑے حادثات ہوئے، بلوچستان میں لسبیلہ کے علاقے بیلہ میں چینکی اسٹاپ کے قریب موڑ کاٹتے ہوئے پل کے ستون سے ٹکرا کر مسافر کوچ کھائی میں جاگری ، جسکے نتیجے میں خوتین اور بچوں سمیت 41مسافر زندہ جل گئے، 4 مسافر جھلس کر زخمی ہوگئے ، بدقسمت بس 45 مسافروں کو لیکر کوئٹہ سے کراچی آرہی تھی، پل کی ریلنگ کیساتھ چند میٹر تک رگڑ کھاتی رہی ، کھائی میں گرنے کے بعد گاڑی میں آگ بھڑک اٹھی، ادھراسی روز کوہاٹ میں کشتی ڈوبنے سے مدرسے کے 11 بچے جاں بحق ہوگئے،مدرسے کے طلبا تاندہ ڈیم کی سیر کیلئے آئے تھے،پنجاب کے علاقے چشتیاں میں بھی ایک ٹریفک حادثے میں چھ افراد جاں بحق ہو گئے،جاح بحق افراد شادی کی تقریب میں جا رہے تھے،حادثہ تیز رفتاری کے باعث پیش آیا۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی ، وزیراعظم شہباز شریف اور دیگر رہنماو¿ں نے حا د ثات میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار افسوس کیا ہے۔ہمارے ہاں حادثات کی بنیادی وجہ تیز رفتاری ہوتی ہے یا تنگ اور تباہ حال سڑکیں ہوتی ہیں۔ان وجوہات کو قابو کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔