اس دنیا میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو آپ کو اتنی زیادہ پریشانی میں مبتلا کرے جتنا آپ کے اپنے خیالات کرتے ہیں۔دراصل آپ کی زندگی کی خوشیاں آپ کے سوچنے کے معیار پر منحصر ہوتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اگر آپ امکانات پر توجہ دیتے ہیں تو آپ کو مزید پریشانیوں کا سامنا نہیں کر نا پڑتا اور آپ کو کامیابیوں کے کئی مواقع ملتے ہیں۔انسان کے پاس مثبت سوچ بہت بڑی دولت ہے۔جب آپ کو احساس ہو تا ہے کہ آپ کے خیالات بہت طاقتور اور پراثر ہیں توآپ منفی نہیں سوچتے بلکہ ہمیشہ مثبت سوچ ہی آپ کی پہچان بنتی ہے۔منفی سوچیں تب پیدا ہوتی ہیں جب آپ کی زندگی میں آپ کے مزاج کے خلاف کچھ چیزیں داخل ہورہی ہوتی ہیں یا پھر آپ کی تربیت ہی ایسی ہے۔اس لیے ان چیزوں سے آگاہ ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔ جب تک آپ ان چیزوں کو پہچانتے نہیں آپ انہیں روک نہیں سکتے۔قدرت نے ہمارے دماغ میں ان چیزوں کی پہچان اوراہم کو غیر اہم اور مضر سے الگ کرنے کے لیے ایک قدرتی نظام بنا رکھاہے۔ اس نظام کو غور وفکر سے متحرک کرنے اور استعمال کی ضرورت ہوتی ہے۔مثال کے طور پر جدید نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ہمارا دماغ تین حصوں پر مشتمل ہے۔پہلا حصہ شعور ہے،دوسرا لاشعور اور تیسرا تحت الشعور کہلاتا ہے۔جہاں تک ان تینوں کی طاقت کی شرح کا تعلق ہے،ہمارا شعور دس فیصد کام میں آتا ہے جب کہ لاشعور اور تحت الشعور مل کر نوے فیصد طاقت رکھتے ہیں۔ہمارے شعور اور لاشعور کے مابین قدرت نے باریک اور مہین پردے رکھے ہیں۔چنانچہ بہت ساری چیزوں کو ہمارا شعور غیر ضروری سمجھ کو لاشعور میں بھیجتا رہتا ہے جہاں یہ سٹور ہوتی رہتی ہیں۔شعور اور لاشعور کے درمیان یہ مہین پردے صرف اس وقت پوری طرح ہٹتے یا جھکتے ہیں جب ہم کسی مراقبے کی کیفیت میں ہوتے ہیں یا کوئی لیکچر سن رہے ہوتے ہیں یا کسی ڈرامے یا فلم کے منظر میں کھوئے ہوئے ہوتے ہیں۔یہی وقت ہوتاہے جب کوئی خاص بات بغیر رکے آپ کے شعور سے لاشعور میں جا کر سٹور ہو جاتی ہے اور پھر کسی وقت آپ اس کا عملی اظہار کرتے ہیں۔اس تکنیک سے ہمارا میڈیا اور وہ مقرر بہت فائدہ اٹھاتے ہیں جو اسے برتنا جانتے ہیں۔مثال کے طور پر جب آپ کسی ڈرامے کے سین میں کھوئے ہوئے ہوتے ہیں اور شعور اور لاشعور کے درمیانی پردے جھکے ہوتے ہیں تو وہاں ڈرامہ کٹ کر کے کوئی اشتہار چلا دیا جاتا ہے جس کے منظر اور پیغام کو آپ کا شعور روک نہیں پاتا اور وہ آپ کے لاشعور میں چلا جاتا ہے۔پھر کسی وقت آپ اس لاشعور میں سٹور پیغام کا عملی اظہار کرتے ہیں۔یو ٹیوب پر آج کل اس تکینک کا بہت زیادہ استعمال کیا جا رہا ہے۔اس لحاظ سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس سیلاب میں ہم مجبور کر دئیے گئے ہیں کہ ہر قسم کی انفارمیشن سے اپنے لاشعور کو بھرتے رہیں۔یہ انفارمیشن ہمارے لیے سخت مضر بھی ہوتی ہے اور مفید بھی۔اگر ہم اس کی کانٹ چھانٹ نہ کر پائیں تو یہ ہماری کرداری شخصیت پر بر ی طرح اثر انداز ہو سکتی ہے۔مثال کے طور پر ہمارے ذہن میں بے شمار خوف میڈیا پر مختلف خبروں اور مناظر کو بار بار دیکھ کر پیدا ہوتے ہیں۔مثلا ہم میں سے ہر شخص کرونا کے متعلق ایک خاص قسم کے خوف میں مبتلا ہو چکا ہے۔اسی طرح بچپن میں مائیں بچوں کو کسی ان دیکھی چیز سے ڈراتی رہتی ہیں اور یہ خوف ساری عمر ان کے اندر سے نہیں نکل پاتا۔چنانچہ لاشعور میں موجود نوے فیصد طاقتور معلومات میں سے مضر کو نکالنے اور باقی کے بہتر استعمال کے لیے سب سے بہترین مراقبے کا عمل ہے۔مراقبہ وہ روحانی،ذہنی اور قلبی عمل ہے جس میں منتشر خیالات اور افکارِ پریشاں سے اپنے ذہن کو خالی کر کے صرف اللہ کی یاد کی طرف متوجہ ہو جانا ہوتا ہے۔یعنی آدمی ظاہری حواس کو ایک نقطے پر مرتکز کر کے اپنی روح یا باطن کو دنیا سے الگ کر لیتا ہے تاکہ اس پر روحانی اسراروانوارات کی نوارنی بارش ہو۔اس عمل سے ذہنی سکون حاصل کرنے اور ارتکاز عمل میں بہت زیادہ مدد ملتی ہے اورانسانی یاد داشت بھی بہتر ہوتی ہے۔مراقبے کے انسانی جذبات پر بھی بہت مثبت اثرات رونما ہوتے ہیں اورہمار ی جذباتی صحت ہمارے معاملات توجہ اور دھیان کو بڑھا دیتی ہے۔چنانچہ اپنے معاملات پرغور وفکر کرنے اور مطمئن ہونے سے اندرونی سکون اور خوشی ملتی ہے اور پریشانی اور افسردگی کم ہوجاتی ہے۔ہمارے اندرہمدری،سخاوت اورمحبت کا مثبت احساس بڑھتا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ مراقبہ ہمیں ریچارج کرنے، ریفریش اور نوجوان کرنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔مراقبے کوایک سطح پر ہم اپنے محاسبے کا عمل بھی کہہ سکتے ہیں۔اپنا محاسبہ خود کرنا ہر شخص کی باطنی تطہیر کے لیے انتہائی ضروری ہے۔انسان چونکہ مٹی سے بنا ہے اس لیے ہمارے نفس میں مٹی کی تاثیر نمایاں ہے۔مٹی میں جب بیج ڈال کر پانی لگایا جاتا ہے تو فصل کے پودوں کے ساتھ ساتھ کئی خود رو جڑی بوٹیاں اور پودے بھی نکل آتے ہیں۔جن کی کانٹ چھانٹ اورصفائی اچھی فصل کے حصول کے لیے بہت ضروری ہوتی ہے۔ہماری زندگی میں بے شمار گناہ خود رو پودوں طرح آگ آتے ہیں جنھیں ہمارے نفس کی زمین اپنی خوشی کے پانی سے پروان چڑھاتی ہے۔ان گناہوں کو محاسبے کے عمل سے ہی اپنے سے دور کیا جا سکتا ہے ۔ اس لیے اس زندگی کا مشکل ترین سوال ہماری اپنی آگاہی اور تفہیم سے متعلق ہے اور یہ سوال جتنا مشکل ہے،اس کا جواب حاصل کرنا بھی اتناہی ضروری ہے۔کیونکہ جب تک ہم اپنے آپ کو نہیں پہچانیں گے،اپنی خامیوں اور غلطیوں پر بھی ہماری نگاہ نہیں جائے گی۔سو اپنے اوپر غور کرنا اور شخصی خامیوں اور گناہوں کی عادات کو ترک کرنا اس دنیا اور اگلی دنیا کی فلاح کے لیے انتہائی ضروری ہے۔بزرگوں اور نیک لوگوں کی محفل اور ان کی نگاہ کی تاثیر بہت سے لوگوں کو بدل دیتی ہے۔ان کی بہت سی قیمتی اور زندگی افروز باتیں ہمارے لاشعور اور تحت الشعور کا حصہ بن کر ہر موقع پر ہمیں بہترین کردار ادا کرنے میں مدد دیتی ہیں اور ہماری زندگی مفید تر اورخوبصورت ترین ہوتی چلی جاتی ہے۔آخر میں ایک نئی غزل کے چند اشعار ملاحظہ کیجئے۔
جتنا ممکن ہو کسی کے کام آنا چاہیے
زندگی کو خوبصورت تر بنانا چاہیے
کون مخلص ہے،بس اتنا جاننے کے شوق میں
دوستوں کو بھی تو اپنے آزمانا چاہیے
کاٹنا بہتر ہے رستے کی وہ ساری جھاڑیاں
گر یہ ناممکن ہو تو خود کو بچاناچاہیے
خود کو پانے کے لیے ڈھونڈو کوئی غار حرا
اورذکر مصطفی دل میں بسانا چاہیے
اپنے ہراک کام اب استخارہ کیجئے
آپ کو گر مشورہ کچھ مخلصانہ چاہیے