جمہوری ممالک نے پارلیمنٹ میں سب سے سپریم ادارہ تصور کیا جاتا ہے کیونکہ یہ ملک کے منتخب نمائندگان پر مشتمل ہوتا ہے اور یہ میں ہر قسم کی آئی اصلاحات کا حق رکھتا ہے اور قانون سازی کے ذریعے ملک کے مختلف مسائل حل کرتا ہے مگر بدقسمتی سے پاکستان جیسے ملک میں پارلیمنٹ کو کبھی بھی سپریم نہیں ہونے دیا گیا ، کبھی عدالتی فیصلوں کے ذریعے منتخب وزرائے اعظموں کو ان کے عہدوںسے فارغ کیا جاتا رہا تو کبھی فوجی آمروں نے دس دس سال تک اقتدار پر غیر قانونی اور غیر آئینی قبضہ جمائے رکھا اور اگر کبھی پارلیمنٹ نے کوئی آئینی ترمیم کرنے کی کوشش کی گئی تو عدالتوں نے مداخلت کرتے ہوئے سوموٹو ایکشن لیکر آئینی ترامیم کو کالعدم قرار دے دیا مگر اب یہ بات خوش آئند ہے کہ پارلیمنٹ آئین میں پہلے سے موجود ابہامات اور سقم دور کرکے نئی اصلاحات لارہی ہے ، ان میں سب سے بڑی اصلاحات جو کی گئیں ان میں نااہلی کے قانون کی مدت مقرر کرنا اور الیکشن کمیشن کو با اختیار بنانا اسے الیکشن کی تاریخ دینے کا حق دیاجانا ہے ، اس سے پہلے آئین میںیہ ابہامات موجود تھے اور الیکشن کمیشن کے اختیارات کو ایک اہم قومی ادارے کو بائی پاس کرکے ایوان صدر کو بھیج دیا گیا تھا جبکہ نااہلی کی مدت کا تعین نہیں کیا گیا تھااور اسے عدالتی فیصلوں سے مشروط کیا گیا تھا تاہم اب پارلیمنٹ نے نااہلی کی مدت کا تعین کرکے ایک مستقل سوالیہ نشان کا خاتمہ کردیا ہے ، گزشتہ روزقومی اسمبلی کے اجلاس میں اسحاق ڈار نے الیکشن ایکٹ ترمیمی بل میں مزید ترامیم پیش کیں، ایوان نے بل اتفاق رائے سے منظور کرلیا، ایوان کی جانب سے الیکشن ایکٹ کے سیکشن ستاون میں ترمیم کی گئی ہے۔آئین میں جس جرم کی سزا کی مدت کا تعین نہیں کیا گیا وہاں نااہلی 5 سال سے زیادہ نہیں ہوگی، سپریم کورٹ، ہائیکورٹ یا کسی بھی عدالتی فیصلے، آرڈر یا حکم کے تحت سزا یافتہ شخص فیصلے کے دن سے 5 سال کیلئے نااہل ہو سکے گا۔بل کے مطابق 62ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت پانچ سال مقرر کردی گئی ، متعلقہ شخص پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلی کا رکن بننے کا بھی اہل ہوگا۔الیکشن کی تاریخ اور شیڈول کا الیکشن کمیشن کرے گا اور الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ میں خود سے ردوبدل کر سکے گا، الیکشن کی تاریخ سے متعلق الیکشن کمیشن کی صدر سے مشاورت کی شرط بھی ختم کردی گئی۔ وزیر خزانہ نے یہ بل سپلمنٹری ایجنڈے کے طور پر پیش کیا جسے ایوان نے منظور کرلیا۔دوسری جانب سابق وزیر اعظم نواز شریف کی وطن واپسی کے معاملے پر وزیر اعظم شہباز شریف نے قانونی ٹیم تشکیل دےدی،وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ قانونی ٹیم کی سربراہی کریں گے، معاون خصوصی عطا اللہ، عرفان قادر اور قانونی مشیر کمیٹی میں شامل ہوں گے، نواز شریف کے کیسز کی پیروی کرنے والے امجد پرویز اور دیگر وکلا کو بھی کمیٹی میں شامل کیا گیا ہے ، قانونی ٹیم میاں نواز شریف کے عدالتوں میں جاری کیسز کی پیروی کو تیز کرے گی، سابق وزیر اعظم کی نااہلی اور دیگر کیسز کے خاتمے کیلئے کام میں تیزی لائی جائے گی، قانونی ٹیم نواز شریف کی واپسی میں قانونی رکاوٹوں کے خاتمے کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کرے گی۔دریں اثناءمسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کو متحدہ عرب امارات کے دورے پر دبئی حکومت کی جانب سے خصوصی پروٹوکول فراہم کیا جا رہا ہے۔نواز شریف فیملی کے ہمراہ دبئی میں اپنے داماد علی ڈار کی رہائش گاہ ایمریٹس ہلز میں قیام پذیر ہیں۔ نواز شریف بقر عید دبئی میں اہل خانہ کے ساتھ منائیں گے۔نواز شریف کا متحدہ عرب امارات (یو اے ای) میں مزید ایک ہفتہ قیام کرنے کا امکان ہے۔ دبئی میں قیام کے بعد ابوظہبی اور پھر عمرہ کی ادائیگی کےلئے سعودی عرب جائیں گے، وہ سعودی عرب میں تقریباً ایک ہفتہ قیام کے بعد دوبارہ دبئی آئیں گے ۔شنیدہے کہ پاکستانی سیاست کا مرکز ابھی دبئی رہے گا جس کےلئے کئی سیاسی رہنماو¿ں کی دبئی آمد کا امکان ہے، دبئی میں اگلے چند دنوں میں نواز شریف سے سیاسی رہنماو¿ں کی ملاقاتیں متوقع ہیں۔دوسری جانب صدر مملکت عارف علوی کی عدم موجودگی اور صادق سنجرانی کے چارج سنبھالنے پر الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کو فوری طور پر نافذ العمل کیے جانے کا امکان ہے۔ قائم مقام صدر مملکت صادق سنجرانی کی جانب سے الیکشن ایکٹ بل پر دستخط جلد متوقع ہیں اور ان کے دستخط کرتے ہی بل ایکٹ آف پارلیمنٹ بن جائے گا۔
وفاقی بجٹ قومی اسمبلی سے منظور
قومی اسمبلی میں طویل بحث و مباحثے کے بعد وفاقی بجٹ کو منظور کرلیا گیا ہے ، شدید ترین مشکل معاشی حالات کے باجود یہ بجٹ پیش کرنا ایک تلخ تجربہ ہے اور اس بجٹ کو کسی طور پر غریب اور کم آمدنی والے طبقات کیلئے عوامی امنگوں کا آئینہ دار نہیں کہا جاسکتا تاہم مروجہ طریقہ کار کے مطابق اراکین اسمبلی نے اس بجٹ کی منظوری کیلئے اپنی تجاویز اور سفارشات بھی پیش کیں ہیں جن پر حکومت یقینا غور کرے گی ، اخباری اطلاعات کے مطابق قومی اسمبلی نے 14ہزار 480 ارب روپے کا وفاقی بجٹ کثرت رائے سے منظور کر لیا ۔فنانس بل میں مزید ترمیم کے تحت215 ارب کے نئے ٹیکس عائد کیے گئے ہیں، بی آئی ایس پی پروگرام 459 ارب کی بجائے 466 ارب کر دیئے گئے ہیں ،وفاقی ترقیاتی بجٹ ساڑھے 9 سو ارب کا ہوگا۔ بجٹ کی منظوری کے وقت ایوان میں اپوزیشن کا کوئی رکن بھی موجود نہیں تھا جبکہ اپوزیشن کے مولانا عبدالاکبر چترالی اور غوث بخش مہر کے سوا اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض سمیت حزب اختلاف کا کوئی رکن اجلاس میں شریک نہیں ہوا ۔وزیر خزانہ نے پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی آرڈیننس میں ترمیم پیش کی قومی اسمبلی نے کثرت رائے سے ترمیم منظور کرلی،پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کی حد پچاس روپے فی لیٹر سے بڑھا کر 60روپے فی لیٹر کردی گئی ترمیم کے تحت وفاقی حکومت کو ساٹھ روپے فی لیٹر تک لیوی عائد کرنے کا اختیار ہوگا۔
مودی سرکاری کی دوغلی پالیسی
بھارت خطے میں جارحانہ عزائم کا مظہر ہے اور وہ علاقے میں اپنی بالادستی قائم کرنا کا خواب دیکھ رہا ہے، اس کی خواہش ہے کہ پاکستان ،سری لنکا ،بنگلہ دیش ، مالدیپ اور افغانستان میں اس کی بالادستی قائم ہو ، خاص طور پر افغانستان کے اندر مداخلت کرتے ہوئے وہ اسے پاکستان کیخلاف ہر ممکن طور پر استعمال کرنے کی کوشش میں رہتا ہے ، افغان پالیسی میں اس کی دوغلی پالیسیاں بھی آئے دن بے نقاب ہوتی رہتی ہے ، اسی حوالے سےمودی سرکار کی ایک اور دوغلی پالیسی بے نقاب ہوگئی ، بھارتی حکومت کا عبوری افغان حکومت کے ساتھ خوش گوار تعلقات کا دعویٰ جھوٹ نکلا ہے۔ بغل میں چھری منہ میں رام رام کے مصداق مودی سرکار ابھی تک اشرف غنی دور کے سفیر فرید ماموندزئے کو افغان سفارت خانے میں رکھے ہوئے ہے۔ سابق افغان حکومت کے سفیر فرید ماموندزئے کے زیر انتظام افغان سفارت خانے پر کرپشن کے سنگین الزامات ہیں، جن میں کمرشل عمارتوں کی غیر قانونی لیز، امدادی گندم کی سپلائی اور تجارتی سرگرمیوں میں لوٹ مار شامل ہیں۔بھارت میں مقیم افغان باشندے کرپشن اور بدعنوانی کی شکایات تحریری طور پر بھی کر چکے ہیں، بھارت میں تعلیم حاصل کرنے والے افغان اسٹوڈنٹس سے ویزے کے حصول اور توسیع میں رشوت کے مطالبات جیسے سنگین الزامات بھی شامل ہیں۔کرپشن اور بدانتظامی کی بنا پر عبوری افغان حکومت نے موجودہ سفیر کو س±بکدوش کرنے کے احکامات دیتے ہوئے افغان سفارت خانے کے تجارتی مشیر قادر شاہ کو افغانستان کا چارج ڈی افیئر تعینات کرنے کا فرمان بھی جاری کیا تھا، لیکن مودی سرکار نے نئے نامزد افغان چارج ڈی افیئر کو کئی ہفتوں سے اسناد سفارت پیش کرنے کی اجازت سے انکار کر دیا ہے۔بھارت کی جانب سے اسناد پیش کرنے کی اجازت نہ دینا سفارتی پروٹوکول کی خلاف ورزی ہے۔مودی سرکار کا یونس قانونی جیسے عبوری افغان حکومت کے مخالفین اور دیگر عسکریت پسند گروپوں سے خفیہ رابطوں کا بھی انکشاف ہوا ہے۔یونس قانونی کی سربراہی میں افغان طالبان کے باغیوں کے ایک وفد نے حال ہی میں بھارت کا خفیہ دورہ بھی کیا۔بھارت اس وقت سابق افغان چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ سے بھی رابطے میں ہے۔ بھارتی حکومت کی باغیوں کی پشت پناہی عبوری افغان حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے مترادف ہے۔
دونوں ایوانوں سے آئینی ترمیمی بل کی منظوری
