وطن عزیز کی معاشی،معاشرتی بلکہ اخلاقی اور سیاسی حالت بھی کراچی کے چڑیاگھر والی ہتھنی نورجہاں والی ہو چکی ہے جو اپنوں کے رویوں اور لو ٹ مارکی وجہ سے چار ماہ تک دیدہ عبرت نگاہ بننے کے بعد عید کے روز بہت سارے تلخ سوالات اپنے پیچھے چھوڑتے ہوئے موت کی آغوش میں عافیت محسوس کرتے چلی گئی لیکن ذمہ داروں پر کوئی اثر ہونے کی بجائے غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق مرنے کے بعد بھی اسے بخشانہیں گیا اور اسکا گوشت پتہ نہیں کس کس نے اورکہاں کہاں کھایا گو ایڈمنسٹریٹر چڑیا گھر نے اسکی تردید کرتے ہوئے متعلقہ اطلاع نگاروں کے خلاف کاروائی کرنے کا جعلی بم بھی چلایا ہے مگر ہوا کچھ نہیں۔نور جہاں تو نورجہاں یہاں انسانوں اور انکے نورنظروں تک کے مرنے پر بھی کوئی اداس یاپریشان نہیں ہوتابس یہ سمجھ کر مطمئن ہو جاتے ہیں یہ خوں خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا اور بس بنوں کی بات کر لیتے ہیں جہاں ایک مجبور اور بے بس باپ نے غربت اور فاقوں سے تنگ آکر اپنے تین بچوں کو بھوک اور موت کی اذیت سے بچانے کیلئے پہلے بیہوشی کے انجکشن لگائے اور پھر انکی گردنیں کاٹ کر خود کو بھی ملک راہی عدم کر لیا۔ یہ کوئی پہلی مثال نہیں گزشتہ روز بھوک اور فاقوں سے تنگ ماں گیارہ ہزار وولٹ والے کھمبے پر چڑھ کر مرنے میں عافیت محسوس کرنے لگی تھی کہ بعض لوگوں نے پولیس اور ریسکیو ادارے کو بروقت اطلاع دیکر بلالیا مجبور عورت کا مطالبہ تھا بچے کئی روز سے بھوکے ہیں بیس من گندم ملے تو پھر اس ظالم دنیا میں جی لوں گی سناہے کہ مطالبہ پوراکرنے کے وعدہ پر اسے کھمبے سے اتار لیاگیا حقیقت کیا ہے اور عورت کے ساتھ کیا ہوا اس بارے میں خاموشی ہے سب جانتے ہیں کہ دنیا بھر میں گندم پیدا کرنے والے ممالک میں وطن عزیز ساتویں نمبر پر آتا ہے اور گزشتہ کئی دہائیوں میں شاید ہی کوئی ایسا واقعہ ہوا ہو گا کہ بھوک کے ہاتھوں کوئی یہاں مرا ہوگا لیکن ہمارے مہربانوں ہم پر پے درپے واریاں لے کر حکومتیں کرنے والے راجوں مہاراجوں نے کچھ اس طرح کے حالات پیدا کردیئے ہیں کہ اس زرعی ملک میں چوراسی ارب روپے کا مفت آٹاتقسیم کرنے والی انتہائی افسوسناک تاریخی سکیم میں بڑے بڑے سفیدپوش لوگوں کی سفید پوشی پر بھکاری کا دھبہ لگاتے ہوئے سرد موسم میں لمبی لائنوں میں بہت کچھ رسوا ہوا ہے اور صرف رسوا ہی نہیں ہوا بیس کے قریب لوگ یہ مفت آٹا لیتے ہوئے جان کی بازی بھی ہار گئے اور سینکڑوں زخمی بھی ہوئے لیکن حکمران بازو نکال کر فخر یہ طور پر بیان کرنے میں شرم محسوس نہیں کرتے کہ ہم نے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ کروڑوں روپے کا لوگوں میں مفت آٹاتقسیم کیا ہے۔لیکن کوئی یہ بتانے کی جرات نہیں کرتا کہ لوگوں کو بدحالی کے اس عبرتناک انجام تک لانے میں کس کا ہاتھ ہے شاید بات یہیں پر ختم ہو جاتی کہ اب سابق وزیراعظم خاقان عباسی انکشاف کر رہے ہیں کہ چوراسی ارب روپے کی اس سکیم میں بیس ارب روپے کا گھپلہ ہوا ہے گھر کے بھیدی نے لنکا ڈھانے میں کسر نہیں چھوڑی لیکن حکمرانوں نے اس انکشاف پر تحقیقات کرانے یا اپنی ہی حکومت کیخلاف الزام لگانے پر کوئی کاروائی بھی نہیں کی لگتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے لیکن کیا کریں جس ملک میں تقریبا ہر سرکاری ادارے میں لاکھوں کروڑوں نہیں بلکہ اربوں کے گھپلوں کی اطلاعات ہوں اور جہاں تقریباً ہر بڑے افسر پر بھی ایسے ہی کرپشن کے الزامات ہوں وہاں لوگ خودکشیاں اور خود سوزیاں نہ کریں تو اور کیا کریں اب پوری قوم کو الیکشنز کی تاریخوں کے چکر میں الجھایا جاچکا ہے الیکشن مئی میں ہوں گے یا ستمبر،اکتوبر نومبرمیں ہونگے اسی سال ہوں کے یاپھر کبھی کسی سال میں ہوں گے کا سوال لوگوں کے ذہنوں میں ڈال کر حکمران اپنی وارداتوں میں مصروف ہیں اگر کوئی ادارہ درمیان میں آئے تو نہ ادارہ کی عزت محفوظ رہتی ہے اور نہ افیسر کی۔ حکومت کی طاقت سے ہر ایک پر پریشر اسقدر بڑھا دیاجاتا ہے کہ اچھے بھلے اعصاب کا مالک افیسر بھی پناہ مانگتا ہے اور معیشت کا حا ل ڈالر اوپر اورپاکستانی روپیہ تیزرفتاری سے نیچے جا رہا ہے اور محض ایک سال میں حکومت کی سنہری پالیسیوں کیوجہ سے مذید دو کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے جاچکے ہیں کون انکا پرسان حال ہوگا کب ہوگا کیسے ہوگا کیوں ہوگا،ہوگابھی کہ نہیں وثوق سے کچھ کہانہیں جاسکتا عوام اور حکمرانوں کے درمیان سوچ کا فرق نمایاں ہوگیاہے عوام فی الوقت سستی اشیائے خوردونوش اور سستی بجلی گیس پیٹرول چاہتے ہیں حکمران اگر اس سوچ کو سمجھ لیں تو شاید انکی عزت بھی بچ سکتی ہے اور سیاست بھی۔
شاید انکی عزت بھی بچ سکتی ہے
